اصلاحات کا آغاز کریں

پاکستان نے اپنے وسائل سے بھر پور فائدہ اٹھایا ہے یا نہیں یہ ایک بنیادی سوال ہے ۔پاکستان قدرتی اور انسانی وسائل سے مالامال ہے۔ قدرتی وسائل کا بڑا حصہ آج بھی مکمل طور پر معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوا۔ اس کی وجوہات جاننا بہت اہم ہے ۔ایک طرف تو ہم نے ایٹمی طاقت بننے کے لیے تمام ضروری ٹیکنالوجی اور وسائل کو بروئے کار لاکر دکھا یا ہے اور دوسری طرف ساٹھ ملین کے قریب لوگوں کو ابھی تک خط غربت سے باہر نہیں لا سکے ۔اس کا مطلب ہے کہ مسئلہ ترجیحات کا ہے نہ کہ وسائل کی کمی کا ۔اگر تمام لوگوں کو بنیادی سہولتیں دی جاتیں،تعلیم کا نظام درست کیا جاتا اور وزگار کا بندوبست کیا جاتا تو اتنے لوگ سطح غربت سے نیچے نہ رہ جاتے۔
لوگوں کی معاشی حالت کو بہتر کرنا اور ان کو روزگار دینا آئین پاکستان کے آرٹیکل تین کی روح سے ریاست کی اولین ذمہ داری ہے ۔معاشی ترقی کا انحصار انصاف کے نظام سے الگ نہیں ۔اگر استحصال جاری رہے جیسا کہ ہماری ریاست میں ہے تو کبھی کبھی معاشی ترقی کے اہداف کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔تعلیم سے لوگوں کو اس قابل بنایا جاسکتا ہے کہ وہ سائنس ،ٹیکنالوجی اور فنی صلاحیتوں سے بہرہ ور ہوں ،معاشی شعور کے حامل ہوں، دوسروں کے حقوق کی پاسداری کریں اور من حیث القوم ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھ سکیں۔
استحصال کا مطلب محض رقوم کا مختص کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس بات کو یقینی بنانا ہوتا ہے کہ تمام شعبہ جات میں مکمل انصاف کا نظام قائم ہو سکے ۔معاشرے میں انصاف کا فقدان ہر برائی کاباعث بنتی ہے ۔طاقتور طبقے ہر ایک پر فوقیت حاصل کر لیتے ہیں ۔وسائل کا فائدہ اگر صرف چند ہاتھوں تک محدود رہ جائے تو معاشرے میں ناہمواری کے باعث بد امنی ضرور پیدا ہو تی ہے۔ اس کو پاکستان سے بہتر اور کون جان سکتا ہے ۔جمہوریت کا نظام لازم ہے مگر انصاف کے بغیر نہیں۔ لوگوںکو اس بات سے آگاہی ہونی چاہیے کہ احتساب کا تعلق انصاف کے ساتھ ضروری ہے ۔اگر منتخب لوگ احتساب کا نظام رائج نہ کریں تو پھرجمہوریت کا مقصد کیا ہے ؟لوگوں تک معاشی اور معاشرتی انصا ف نہ پہنچے تو پھر ایوان اقتدار میں بیٹھ کر کیا مقصد حاصل کیا جاسکتا ہے ۔معاشی ترقی کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ ہم کیسے تمام لوگوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیںدے سکتے ہیں۔ دفاعی شعبے سے لے کر دیگر شعبوں تک انسان اہم ہونا چاہیے ۔آج کل ایسی تعلیم کا بندوبست ہونا چاہیے جو خود روزگار کا موقع دے سکے۔ گھر بیٹھ کر لوگ انٹرنیٹ پر کام کر کے اتنا کما سکتے ہیں کہ لوگوں کو بہتر روزگار اور پاکستان کو کثیر زر مبادلہ مل سکتا ہے ۔اس کے لئے 
ایسے تعلیمی اور فنی ادارے چاہئیں جو نوجوانوں اور جوان بے روزگاروں کو تربیت دے سکیں ۔حکومتی اور نجی اداروں میں نوکریوں کا استحصال ہے۔حکومتی اور نجی اداروں میں کم تنخواہیں لوگوں کو بدعنوانی پر مجبور کرتی ہیں۔نجی شعبہ میں غیر تربیت یافتہ لوگوں سے کام لیا جاتا ہے اور انتہائی کم تنخواہ دی جاتی ہے۔ ایسے نظام سے مالکان امیر ہو جاتے ہیں مگر ملازمین کبھی آگے نہیںبڑھ پاتے۔ پاکستان میں نہ تو ہر ایک کے لیے درست تعلیم وتربیت کا نظام ہے اور نہ سب کے لئے پنشن اور روزگار۔ اگر وہ سب کے لئے بنیادی سہولتوں کی بھی فراہمی نہیں کر سکتے۔ محصولات کو ایک ایسی ریاست بنانے کیلئے لگایا جاتا جس کو فلاحی کہا جاتا ہے۔ہمارے ہاں فلاحی ریاست کے ساتھ اسلامی کا اضافہ بھی کر دیا جاتا ہے ۔افسوس کا مقام ہے کہ وطن عزیز میں نہ اسلامی اقدار کا لحاظ ہے اور نہ ہی مغربی فلاحی ریاست کا خیال۔محض لفاظی سے تو کوئی ریاست فلاحی نہیںبن جاتی ۔اس کے لئے عمل کی ضرورت ہوتی ہے۔
معاشی ترقی کے لیے فلاحی ریاست کا قیام ضروری ہے۔ پاکستان میں قدرتی و انسانی وسائل کی کوئی کمی نہیں، انصاف کی کمی ہے ۔وسائل کی جائز تقسیم کی کمی ہے۔اچھی حکومت کی کمی ہے۔ انتظامی اور سیاسی ڈھانچے میں بنیادی اصلاحات جہاں عوام کے لئے فیصلے اور کام ہو سکے‘ کی اشد ضرورت ہے ۔انصاف کے نظام کو مکمل طور پر فعال بنانے کی ضرورت ہے ۔لوگوں کو ٹیکس کے ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کی ضرورت ہے ۔لوگوں کو صحت اورتعلیم ملنی چاہیے۔ہر ایک کے لئے روزگار اور کام کے مطابق معاوضہ کا انتظام ہو نا چاہیے ۔ہر ایک کے لئے ایک مناسب گھر،پینے کا صاف پانی اور اچھی ٹرانسپورٹ کا بندوبست ہونا چاہیے ۔یہ ہیںمعاشی ترقی کی سب مبادیات۔بجلی ،پانی ،گیس ،سڑکیں تمام ضرورتیں ہیں۔ معاشی ترقی مضبوط روزگار کا انتظام کرتی ہے۔صنعتی اور زرعی ترقی لوگوں کے روزگار میسر کرتی ہے۔پاکستان کے حکمرانوں کو ان تمام کاموں کو بیک وقت شروع کرنا چاہیے اور اس میں نجی شعبہ کو بھی اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں