عبدالستار ایدھی کا خدا سے پہلا مکالمہ

عبدالستار ایدھی کا پہلا مکالمہ جو انھوں نے اپنے رب سے کیا:
''اے خدائے ذوالجلال! اے دلوں کے راز جاننے والے !اے میرے عظیم رب!‘‘
''میں عبدالستار ایدھی ہوں۔ میں نے ساٹھ برس قبل لو گوں کی خدمت کا آغاز‘ میٹھا در کر اچی سے کیا۔ یوں لگتا ہے اس بات کو صدیاں بیت گئیں ۔ میں نے ہزارہا زخمیوں کو دریائوں‘ کنوئوں‘ سڑکوں اورجائے حادثات سے نکالا ۔ سیکڑوںنومولود بچوں کو سینے سے لگایا۔یہ بچے مین ہولوں ، گٹروں اور پلوں کے نیچے پڑے ہو ئے تھے۔ میںنے ان ہزاروں میتوںکو بوسا دیا جو ریل گاڑی کی بوگیوں، پٹڑیوں اور گندی نالیوں سے برآمد ہوئیں۔ میں نے ایسی بدبودار لاشیں اٹھائیں جو صرف ایک بار چھو لینے سے ہی بکھرجا تی ہیں۔ میں نے انھیں اسی احترام سے غسل دیا جیسا غسل میر ی ماں کو دیا گیا تھا۔ میں نے انہیںکا فور لگایا،کفن پہنایا اور پھر اپنے ہا تھ سے مٹی کھود کر دفنا دیا۔ میں نے دھتکاری ہوئی عورتوں ‘ نشہ میں لت نوجوانوں اور غلاظت کے ڈھیروں پہ پڑے نوزائیدہ بچوں کو گلے لگایا۔ اے میرے رب! میں نے تجھے منبر و محراب میں نہیں کچی بستیوں اور ٹوٹے پھوٹے دلوں میں ڈھونڈا‘‘۔
میں نے انسانیت کی خاطر سڑکو ں، گلیوں اور بازاروں میں بھیک مانگی۔ میں دنیا کے ہر اس خطے میں گیا جہاں قدرتی آفات نے تباہی مچائی۔ ناقابل ِعبور راستے اور دشوار گزار منزلیں۔ موسم کے سرد و گرم اور صعوبتیں۔ یہ میری راہ میں مزاحم نہ ہوسکے۔ میر ا ارادہ پہاڑوں کی طرح بلند رہا۔ مجھ پر طرح طرح کے الزام عائد ہو ئے۔۔۔۔ کافر‘ لادین ‘ ملحد‘ زندیق اور زکوٰۃ چور۔ لیکن میرے یہ مہربان میری ہمت کم نہ کر پائے۔ تیرے مجبور‘ بیمار‘ لا وارث ‘ معذور اور مسکین بندے ہمیشہ میری محبتوں کا محور رہے۔ ان کی خدمت ہی میری منزل، میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔ میں نے انہیں دلاسا دیا۔ میں نے بدکار ماں باپ کے معصوم بچوں کے لیے پنگھوڑا بنایا۔ میں انہیں اپنی آغوش میں لے کر ان کے آنسو پونچھتا رہا۔ میں نے زندگی بھر دیانت سے کام لیا‘ انکسار اور عاجزی میرا اوڑھنا بچھونا تھا۔ ساٹھ سال کے دوران میں نے ایک بار بھی چھٹی نہیں کی۔ میں نے کام کو عشق سمجھا۔ میں جانتا تھا کہ بندگی اور عشق میں چھٹی نہیں ہوتی۔ تیرے متقی بندوں نے بھی کبھی کبھار نماز قضا کی ہو گی لیکن میں نے خدمت کی نماز کبھی قضا نہیں کی۔ کسی نے ایدھی کو پکارا اور ایدھی اس کی صدا پہ نہ پہنچا‘ ایسا نہیں ہوا۔ میں نے خدمت کے وقت تیرے بندوں میں تمیز نہیں کی۔ میرے نزدیک انسانیت ہی سب سے بڑا مذہب تھا۔ کالا گورا‘ چھوٹا بڑا‘ عربی عجمی‘ ہندو مسلمان، میں نے اس تفریق سے بلند ہوکے کام کیا‘‘۔
''اے میرے عظیم رب! تو رب العالمین ہے اور تیرا رسول ؐ رحمۃ للعالمین۔ میں نے تیری اور تیرے نبیؐ کی سنت پہ عمل کیا اور چاروں طرف حیّّ علی الفلاح کا نعرہ لگاتا رہا۔ تو نے بالآخر مجھے اپنے پاس بلا لیا لیکن جو کام تو نے مجھے سونپا وہ اسی خوب صورتی سے ادا ہو رہا ہے۔ ایمبو لینس چل رہی ہے۔ مُردوں کو نہلایا جارہا ہے اور یتیموں کے لیے ایدھی سنٹر کی آغوش وا ہے۔ تو جانتا ہے کہ میں نے دنیا میں محل نہیں بنائے ۔ میں نے کھدر کے محض دو جوڑوں میں زندگی گزار دی۔ میں نے جوتوں کا دوسرا جوڑا نہیں خریدا۔ میں نے کہا مجھے انھی بوسیدہ کپڑوں میں دفنا دو کہ نئے کپڑوں کی کسی اور کو ضرورت ہے۔ میرے نحیف بدن کے سارے اعضاء تیری راہ پر چلتے چلتے شکستہ ہو چکے تھے۔ صرف دو آنکھیں بچی تھیں۔ میں وہ بھی تیری دنیا میں چھوڑ آیا کہ کسی اور کی اندھیری رات میں روشنی ہو جائے۔ سنا ہے میرے نکتہ چیں اس پر بھی معترض ہیں۔ مجھ پر کفر کے فتوے لگ رہے ہیں۔ یہ ستم نئے نہیں۔ میں اور میرے ساتھی کئی بار قربانی دے چکے ہیں۔ اس شہر میں جہاں میں نے لاشیں اٹھائیں میرے کارکنوںکو کاری زخم پہنچائے گئے ۔ کسی کو زدوکو ب کیا گیا، کسی پر گولیاں چلیں اور کسی کو اغواء کرلیا گیا۔ شہر کے لوگ اس ظلم کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے تھے لیکن کہیں سے احتجاج کی لہر نہ اٹھتی۔ وہ سب خاموش رہے۔ حکومت بھی خاموش رہی۔ بے کراں سناٹا اور گہرا سکوت۔ اگر کوئی دکھ اور کرب میں تڑپا تو وہ درختوں کی شاخوں میںچھپے ہوئے کمزور پرندے تھے۔ سنا ہے اب بھی شہر کے اکثر لوگ خاموش ہیں۔ بے کراں سناٹا اور گہرا سکوت‘‘۔
''اے میرے بے نیازرب! میں تیرے پاس پہنچ چکا ہوں۔ اپنی تمام ترلغزشوں اور کوتاہیوں کے ساتھ ۔ اب مجھے اس دن کا انتظار ہے جب تو انصاف کی مسند پر براجمان ہوگا۔ جب سورج لپیٹ کربے نور کر دیا جائے گا۔ جب ستارے اپنی کہکشائوں سے گر پڑیں گے۔ جب پہاڑ فضا میں بکھرنے لگیں گے۔ جب سمندروں کا پانی بپھر جائے گا۔ جب کائنات زیرو زبر ہو جائے گی۔ مجھے یقین ہے تو اس روز ان ظالموں کو معاف نہیں کرے گا جو تیرے بندوں کو ستاتے رہے۔ جنہوں نے قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ جنہوں نے مائوں کی گودیں اجاڑیں ۔ جنہوں نے عبادت گاہوں کو آگ لگائی۔ جنہوں نے امانتوں میں خیانت کی۔ مجھے یقین ہے تو انہیں معاف نہیں کرے گا۔ ستونوں میں بند دہکتی ہوئی آگ ان کی ہڈیوں تک پہنچ جائے گی ۔ ازل سے ابلتا ہوا لاوا انہیں پگھلا کے رکھ دے گا۔ تو انہیں کہیں بھاگنے نہیں دے گا۔ ان کی چیخ و پکار ان کے سینوں میں گھٹ کے رہ جائے گی... تیرا بندہ ‘ تیرا عبدالستار‘ جسے لوگ ایدھی کہتے رہے تیرے حضور سرنگوں ہے اور اپنے اور اپنے ساتھیوں لیے عفوو درگزر کا متمنی ہے‘‘۔
مجھے لگتا ہے یہ صرف عبدالستار ایدھی کا نہیں ہر اس شخص کا مکالمہ ہے جو مظلوم ہے۔ ان مظلوموں کا ایک سوال اور بھی ہے۔۔۔۔''اے خدا! ابھی حشر میں کتنی دیر باقی ہے۔ جزا اور سزا کا وہ دن جس کا تو نے وعدہ کیا کتنی مسافت پر ہے‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں