سیلاب 2022ء اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (36)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کیلئے نہیں اصلاحِ احوال کیلئے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
بارسلونا ایئر پورٹ پر گرم جوش استقبال‘ قافلے کی صورت میں ہوٹل روانگی اور پھر اگلے چار روز کئی سو اہلِ وطن سے ملاقات۔ بارسلونا‘ ویلنسیا‘ گرینا ڈا‘ کارڈوبا‘ میڈرڈ۔ گریناڈا اور کارڈوبا ماضی کے شہروں‘ غرناطہ اور قرطبہ کے جدید نام ہیں۔ یہ شہر جو کبھی مسلمانوں کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ جنہیں پہلے پہل 711ء میں عبدالرحمان الداخل اول نے فتح کیا۔ جہاں کُو بہ کُو اذان کی آواز بلند ہوتی اور عشقِ مصطفی کی خوشبو پھیلی رہتی۔ وہی مسلمان جو اندلس اور ہسپانیہ کے نام سے پورے سپین اور پرتگال پر حکومت کرتے تھے‘ اب یہاں اجنبی ہیں۔ قرطبہ کی مسجد میں‘ جو مسلم جاہ و جلال کا نشان تھی‘ اب نماز کی اجازت بھی نہیں۔ اقبال نے اس زوال پر قرطبہ آکر جتنے آنسو بہائے شاید آسمان پہ اتنے ستارے بھی نہ ہوں۔ جہاز کے سفر میں تاریخ کے انہی ادوار سے گزرتے ہم بارسلونا پہنچے اور ماضی کی اسی کسک کو ساتھ لیے ہم اپنے میزبانوں سے گلے ملے۔ دکھ اور درد کی کچھ کچھ دھند سمٹنے لگی۔ محبت اور مہمان نوازی کا ایسا امتزاج ہم نے کہیں نہیں دیکھا۔ ثاقب طاہر‘ سید ذوالقرنین‘ راجہ مظہر اور ان کے ساتھی‘ ہر شخص جی جان سے نچھاور ہو رہا تھا۔ ایسے لگا جیسے ان سے مدتوں کی شناسائی ہو۔ افتخار ٹھاکر تو اس قدر مقبول تھے کہ راستوں پہ چلتے ہوئے لوگ آواز دے کے روک لیتے۔ پہلی بڑی تقریب بارسلونا میں ہوئی جس میں تین سو کے لگ بھگ افراد مدعو تھے۔ کونسل جنرل پاکستان محترم شازیہ منیر اور ان کے شوہر مہمانِ خصوصی تھے۔ اخوت امریکہ کے صدر اظہر حمید اور اخوت برطانیہ کے صدر عارف انیس کی موجودگی نے اسے عالمی تقریب بنا دیا۔ وہ دونوں ساری مصروفیات ترک کرکے خصوصی طور پر سپین پہنچے تھے۔ مواخات اور محبت کا جذبہ چار سو پھیل رہا ہے۔ اظہر حمید اور عارف انیس امریکہ اور یورپ میں اس جذبہ کے امین اور علمبردار ہیں۔ دونوں صاحبان سیلاب کے دنوں میں بھی پاکستان موجود تھے۔ سندھ میں اظہر حمید نے کئی دن گزار دیے۔ جگہ جگہ گئے اور ایک یادگار ڈاکیو منٹری بھی بنائی۔
بارسلونا کے اس خوبصورت ہوٹل میں وہ دل دکھا دینے والی رُوداد جسے سیلاب 2022ء کہتے ہیں‘ ایک بار پھر بیان ہوئی۔ افتخار ٹھاکر کی باتیں اور ان کے پیچھے دھڑکتی ہوئی درد کی لہر۔ رلانا آسان ہے‘ ہنسانا مشکل لیکن ہنسا کر رلانا اور بھی مشکل ہے۔ کچھ ایسی ہی کیفیت افتخار ٹھاکر نے پیدا کردی۔ سننے والوں کو لگا سیلاب میں ڈوبنے والے کوئی اور نہیں‘ ان کے اپنے تھے۔ سپین میں ہونے والی ان تقریبات کا انتظام پاک سپین فیڈریشن کے ذمہ تھا۔ یقینِ محکم‘ عملِ پیہم‘ محبت فاتحِ عالم۔ ہمیں لگا یہ سب لوگ انہی خوبیوں کے مالک ہیں۔ بہت سی اور تنظیموں نے عطیات کے اعلان کیے۔ ٹیکسی سیکٹر کی تنظیمیں پیش پیش تھیں۔ کئی انفرادی اعلان بھی ہوئے۔ تقریب میں موجود کچھ لوگوں نے جیب میں ہاتھ ڈالا اور جو کچھ تھا نکال کے پیش کردیا۔ مشہور صحافی سید میر اکرام نے گفتگو سے دلوں کو اور گرما دیا۔ اگلے روز دو تقریبات تھیں۔ کیسے کیسے اچھے لوگ وہاں ملے جو اپنا سب کچھ اپنے بھائیوں پر نچھاور کرنے کے لیے تیار تھے۔ کونسل جنرل نے اپنے دفتر آنے کی دعوت دی اور بارسلونا کے درد مند اور فیاض پاکستانیوں کی کہانی سنائی۔ ایثار اور قربانی کی یہ کہانی کسی بھی معاشرے کے لیے تمغۂ امتیاز سے کم نہیں۔ پاک سپین فیڈریشن کی قیادت خصوصاً طاہر ثاقب‘ سید ذوالقرنین اور راجہ اکرم نے ان تمام لوگوں کو ایک لڑی میں پرو دیا۔ باتوں باتوں میں لوگوں نے اس جانب بھی اشارہ کیا کہ ہم نے خود ہی اپنے درمیان سیاسی لکیر کھینچ دی ہے۔ وہ لوگ شاکی تھے کہ ہم سب پاکستان کی بات کرتے ہیں اور ہمارے لوگ ہمیں تقسیم کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔ ایسی سیاسی تقسیم بارسلونا میںآباد‘ کسی اور ملک کے شہریوں میں دکھائی نہیں دیتی۔ بارسلونا ہی پہ کیا موقوف یہ تقسیم یورپ‘ امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ تک پھیلی ہوئی ہے۔ افسوس ہم نے اپنے ذاتی عناد کو کہاں‘ کہاں پھیلا دیا۔ ان کی یہ شکایت سن کے کئی صدیاں پہلے ہسپانیہ کے زوال کی وجوہات اور نمایاں ہونے لگیں۔ نگاہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پُرسوز۔ جب لوگ ان خوبیوں سے محروم ہو جائیں‘ جب انہیں اپنی ذات کے سوا کچھ دکھائی نہ دے تو یہی کچھ ہوتا ہے۔ ایسے میں کہیں سے کوئی فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا اٹھتی ہے اور صدہا برس کی حکمرانی چھن جاتی ہے۔ اپنی ہی زمین تنگ ہونے لگتی ہے اور پھر کوئی ایک نہیں بلکہ سارے گھر برباد ہو جاتے ہیں۔ کسی ایک کی نہیں‘ سب کی عزت اور آبرو راکھ میں مل جاتی ہے۔ کوئی بچ نہیں پاتا۔ مفتوح ''ابو عبداللہ‘‘ فاتح ''فرڈیننڈ‘‘ کو شہر کی چابیاں پیش کرتا ہے اور تاریخ صدیوں تک ماتم کرتی ہے۔
اگلے روز ہم بارسلونا سے تین سو کلومیٹر دور ویلنسیا پہنچے تو شام ڈھل چکی تھی۔ یہاں دو تقریبات تھیں۔ دونوں جگہ بیسیوں لوگ موجود تھے۔ زیادہ تر نوجوان۔ آخری تقریب رات ڈیڑھ بجے اختتام کو پہنچی۔ آپ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وطن پہ جب بھی کوئی آفت آتی ہے تو اہلِ وطن کس طرح یک جان ہونے لگتے ہیں۔ پہلی تقریب سمندر کے کنارے ایک ہوٹل میں تھی۔ تقریب کے بعد کچھ دیر کے لیے ہم ریستوران سے باہر نکلے۔ رات‘ روشنی اور تیز ہوا۔ کسی اجنبی جھونکے نے کہا میں بحیرۂ عرب سے آیا ہوں اور ہمیں بحیرۂ عرب پہ واقع اپنے ساحل کی یاد آنے لگی اور یہ احساس بھی جاگنے لگا کہ وہ اتنا دلربا‘ اتنا دل کشا کیوں نہیں۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
دوسری تقریب کا اہتمام شاہد حمید آرائیں نے کیا۔ یہ نوجوان جوش اور جذبے کی تصویر نظر آیا۔ اس خوبصورت شہر میں کاروبار کے امکانات کم ہیں لیکن پاکستانی آہستہ آہستہ تعداد میں بڑھ رہے ہیں۔ منظر اور موسم اچھے ہوں تو لوگ کھنچے چلے آتے ہیں۔ پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہسپانیہ میں یہ مسلمانوں کا دوسرا جنم ہو۔ توحید اور عشقِ مصطفی کا کوئی نیا دور۔ اگلے روز پھر سے چار سو کلومیٹر کاسفر درپیش تھا۔ گریناڈا پہنچے اور الحمرا کے طلسماتی محل گھومنے کے بعد غرناطہ کے ایک ہوٹل میں اہلِ وطن سے ملاقات ہوئی۔ وہی درد مندی اور اخلاص۔ وہی ایثار کا جذبہ۔ اس تقریب میں بہت باتیں ہوئیں لیکن ہمیں لگا اس محفل کے اندر ایک اور محفل بھی ہے۔ ہم بار بار واپس الحمرا پہنچ جاتے۔ خیال و خواب ہوئی ہیں یہ محفلیں کیسی۔ الحمرا کے وہ محل جن میں شان و شوکت اور وقار کی ہر جھلک نظر آئی۔ کبھی یہ مسلمان بادشاہوں کی رہائش گاہ اور دربار کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ در و دیوار پہ بنے بیل بوٹے اور ان پہ تحریر قرآنی آیات۔ جگہ جگہ ''ولا غالب الا اللہ‘‘ کی تختی نظر آئی۔ عروج و زوال کی ہرکہانی یہی بتاتی ہے کہ اللہ کے سوا کوئی غالب نہیں۔ وہی مالک‘ وہی آقا‘ وہی حاضر‘ وہی غائب‘ وہی اکبر‘ وہی اعلیٰ لیکن ہم بھول جاتے ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جو اپنے رب کو بھول جاتے ہیں ان کا رب بھی انہیں بھول جاتا ہے۔ اگلے دن سورج نکلا اور پھر سے یہی پیغام لے کے آیا۔ ''ولا غالب الا اللہ‘‘۔ آج ایک اور شہر کی طرف روانگی تھی۔ کارڈوبا یا قرطبہ۔ رفعت و سربلندی کے نشان اور عروج کی کہانی سمیٹے ہوئے قرطبہ شہر ہمارا منتظر تھا۔ جہاں ایک مسجد بھی ہے جو گیارہ سو برس سے ہر رہ نوردِ شوق کی راہ تکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں