سیلاب 2022ء اورتعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا … (38)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
قرطبہ میں ہمارا قیام دو راتوں پہ مشتمل تھا۔ یہاں سے ہمیں میڈرڈ جانا تھا اور پھر پاکستان واپسی۔ رخصت ہونے سے پہلے ایک بار پھر مسجد کے نواح میں پہنچے۔ وادیٔ الکبیر کی انہی عطر بیز فضاؤں میں اقبال نے سجدہ ریز ہوکے امتِ مسلمہ کی طرف سے جو دعا مانگی‘ آج یہ دعا صرف اقبال کی نہیں‘ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دعا ہے۔ وہ خستہ تن اور خستہ حال‘ وہ غلام ابنِ غلام جو ایک نئی صبح کے طلوع کے منتظر ہیں اور ہر روز خواب دیکھتے ہیں۔ کسی اور زمانے کے خواب لیکن ان خوابوں کی تعبیر میں کون حائل ہے۔ کون ہے جو انہیں حقیقت بننے نہیں دیتا۔ ہم نے مسجد کے مینار اور دریا کی لہروں پہ آخری نظر ڈالی۔ شاید وہاں سے کوئی جواب ملے اور گاڑی میڈرڈ جانے والی موٹروے کی طرف مڑ گئی۔
ایک اور طویل سفر روبرو تھا۔ ایک بار پھر وہی موضوعات سیلاب‘ بارشیں‘ تباہی‘ بے بسی‘ تعمیرِ نو اور امید۔ ان موضوعات میں قرطبہ‘ غرناطہ اور اندلس بھی شامل ہو گئے‘ جو کبھی عظمت کی تصویر تھے لیکن پھر زوال کی نذر ہوگئے۔ ہر عروج کو زوال ہے اور ہر زوال کو عروج۔ کیا ہم اپنی عظمتِ رفتہ کو پھر سے چھو سکتے ہیں۔ یہی وہ امید ہے جسے اقبالؔ نے زندہ کیا۔
اک ولولۂ تازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تاخاک بخارا و سمرقند
یہی وہ امید ہے جو ہمیں کشاں کشاں لیے پھرتی ہے۔ آ ج کے دور میں فتح‘ لیکن شمشیر و سناں سے نہ ہوگی۔ آج کے دور میں فتح و شکست کا فیصلہ علم سے ہوگا۔ ہم میں اور اہلِ یورپ میں فرق صرف نہ جاننے یا جاننے کا ہے اور نہ جاننے والے‘ جاننے والوں کے برابر نہیں ہو سکتے۔ میں نے یہ بات کہی تو ہماری گفتگو نے ایک اور رُخ لیا۔ سپین میں بسنے والے پاکستانی آج معمولی نوعیت کے کام کررہے ہیں۔ اگر ان کی اگلی نسل پڑھ جائے‘ اعلیٰ تعلیم سے آشنا ہو کر اپنے لیے مقام پیدا کرلے تو کیا یہ لوگ سماجی اور معاشی بلندی کو نہیں چھو سکتے۔ یہ ہمارا اگلا سوال تھا۔ سب نے اپنی اپنی رائے دی۔ اتفاقِ رائے یہی تھا کہ علم کے بغیر کچھ حاصل نہ ہوا‘ نہ ہوگا۔ اگر ہمیں کوئی بڑا مقام حاصل کرنا ہے تو اپنی اگلی نسل کو پڑھانا ہوگا۔ علم ہی وہ نعمت ہے جو ہمیں ستاروں کی ہم رکاب کرے گی۔ اسی سے غربت اور افلاس کا خاتمہ ہو گا۔ علم ہی جہالت اور عدم برداشت کو مٹائے گا۔ قدرتی آفات کا پھر بھی سامنا ہوگا۔ سیلاب یا زلزلے تو پھر بھی آئیں گے لیکن ان کے مقابلہ کے لیے کشکول نہیں اٹھانا پڑے گا۔
ہر بچے کے ہاتھ میں کاغذ‘ قلم اورکتاب ہو اور ہر نوجوان کسی بہترین یونیورسٹی کا بہترین طالب علم ہو‘ پھر لوگ ہماری راہ میں آنکھیں بچھائیں گے۔ دنیا کے مالیاتی ادارے ہم پہ حکم نہیں چلائیں گے۔ ہماری رائے کا احترام ہوگا۔ پھر پاکستان سے نکلا ہوا بچہ ٹیکسی ڈرائیور نہیں ہوگا یا کسی معمولی دکان تک محدود نہیں رہے گا۔
لیکن یہ ''پھر‘‘ ایک بہت بڑی شرط ہے۔ اس ''پھر‘‘ کی شرط کو عبور کرنا ہی اصل مرحلہ ہے۔ میں نے ان سے مخاطب ہوکے کہا ''آپ ایک تعلیمی فنڈ کیوں نہیں بناتے جس کی مدد سے ان ہزاروں پاکستانی گھرانوں کا‘ جو یہاں رہتے ہیں‘ ہر بچہ سپین اور یورپ کی بہترین یونیورسٹی میں جائے۔ کیا ضروری ہے کہ جس نے ٹیکسی چلائی اس کا بیٹا بھی ٹیکسی چلائے۔ وہ ٹیکسی کا مالک کیوں نہیں بنتا۔ وہ آئی ٹی اور دیگر شعبوں میں مہارت حاصل کیوں نہیں کرتا۔ وہ کوئی بڑا کاروبار کیوں نہیں کرتا۔ خاص طور پر ہماری بیٹیاں جو بہترین صلاحیت کے باوجود آگے نہیں پڑھ پاتیں۔ آپ وعدہ کریں کہ ہر سال کم از کم ایک سو بچوں کو پی ایچ ڈی تک لے جائیں گے یا وہ بچے کسی بڑے کاروبار یا Start up کا آغاز کریں گے۔ پاکستان سے آنے والوں کی شناخت بڑے بڑے کاروبار ہی کیوں نہ ہوں‘ ڈاکٹر‘ پروفیسر‘ انجینئر‘ جو بھی لوگ پاکستان سے سپین یا یورپ کے کسی بھی اور ملک پہنچے ان کی اکثریت زیادہ پڑھی لکھی نہیں۔ کیا ان کے بچے اندھیروں سے نکل کر روشنی کے دائرے میں داخل ہوسکتے ہیں‘‘۔ہمارے مخاطب بہت توجہ سے ہماری بات سن رہے تھے۔ ہمیں لگا ہماری یہ آواز صدا بصحرا ثابت نہیں ہوگی۔ علم کا سور ج ضرور کروٹ لے گا۔علم کے اسی سورج کا نام قرطبہ ہے۔ یہی غرناطہ اور الحمرا ہے۔
اظہر حمید نے انہیں مزید قائل کرنے کے لیے امریکہ اور دنیا بھر کی مثالیں دیں۔ ''آپ اپنی توجہ علم‘ ہنر اور کاروبار کی طرف موڑیں۔ حیاتِ مستعار کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے۔ اسے ضائع مت ہونے دیں۔ اگر ممکن ہو تو کسی بھی طرح پاکستان کی سیاست سے اپنا دامن چھڑائیں۔ سیاست کا شوق ہے تو جہاں رہتے ہیں‘ اس ملک کی سیاست میں حصہ لیں۔ سماجی کام کریں۔ خدمت کا عَلم اٹھائیں تاکہ مقامی افراد آپ کی اعلیٰ سوچ سے متاثر ہوں۔ ہر پاکستانی دیارِ غیر میں اچھے کردار کا مظاہرہ کرے۔ ہمدردی‘ سچائی اور ایثار۔ اگر یہ ہو جائے تو پاکستان کی ایک اور ہی تصویر ابھر کر سامنے آئے گی۔ وہ پاکستان‘ جو ہم پاکستان میں رہتے ہوئے ابھی تک نہ بنا سکے۔ آپ نے تصویر کے دونوں رخ دیکھ لیے۔ اپنے وطن کی غربت اور بدحالی بھی۔ کوچۂ فرنگ کی خوش حالی اور دولت بھی۔ آپ یقینا نئی صبح کے نقیب بن سکتے ہیں۔ آپ کچھ بن جائیں تو ہم بہت کچھ بن جائیں گے۔ ایک کروڑ پاکستانی جو بیرونِ ملک رہتے ہیں‘ یہی وہ Critical Mass ہے جس سے پاکستان کی قسمت سنور سکتی ہے‘‘۔
خوبصورت شاہراہ۔ کہیں سبزہ کہیں پہاڑ۔زیتون کے شگفتہ اور نوزائیدہ پودے۔ یہ یقینا اہلِ عرب کی سوغات تھی۔ اہلِ عرب نے دنیا کو صرف ایمان اور اخلاق ہی نہیں دیا۔ ادب‘ سائنس اور فلسفہ‘ بلکہ فطرت کے چند حسین تحفے بھی دیے ہیں۔ ہماری نظر کبھی باہر جاتی اور کبھی ہم باتوں میں کھو جاتے۔
سفر میں کی گئی گفتگو اور بھی مؤثر ہوتی ہے۔ ثاقب‘ ذوالقرنین اور راجہ اکرم نے ہماری بات بہت توجہ سے سنی۔ ہمارے پیشِ نظر تو وہ خواب تھے جو اقبال نے قرطبہ پہنچ کے دیکھے۔ کیا خبر یہ چنگاری اسی سرزمین سے پھوٹے۔ یہیں سے کوئی شعلہ اٹھے اور ہرطرف روشنی ہو جائے۔قرطبہ کی راکھ سے ہی اک نیا قرطبہ تعمیر ہو۔ اک نیا چراغ۔ آج ہم زوال میں ہیں۔ ہمیشہ تو نہیں رہیں گے۔ یہی قدرت کا اصول ہے۔ یہی عروج وزوال کی کہانی۔ رات خواہ کتنی طویل ہو‘ سحر کو تو نہیں روک سکتی۔ لیکن ہمیں اس سحر کی تلاش ہے جو بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا ہو۔
یہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی ہے امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں