سیلاب 2022 اور تعمیرِ نو۔ ہم نے کیا دیکھا …(37)

(یہ مختصر سرگزشت ان چند دنوں کی ہے جو ہم نے سیلاب زدگان کے ساتھ گزارے۔ جنوبی پنجاب‘ سندھ‘ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان۔ یہ روداد آنسو بہانے یا الزام تراشی کے لیے نہیں اصلاحِ احوال کے لیے ہے۔ اس میں جہاں تعمیرِ نو کا پیغام ہے‘ وہیں امید کے کچھ دیے بھی ہیں)
مسجد قرطبہ کیا ہے۔ یہ راز جاننا ہو تو اس مسجد کواقبال کی نگاہوں سے دیکھنا پڑے گا۔ کسی اور شخص کو یہ مقام ہی نصیب نہیں ہوا کہ وہ اس مسجد میں پوشیدہ عشق اور سوزوساز کی حقیقت تک پہنچ سکے۔ یہ جاننے کے لیے بھی اقبال کے درِ نیاز پہ حاضری دینا پڑے گی کہ عہدِحاضر میں مسجد قرطبہ کی کیا اہمیت ہے۔ علامّہ اقبال اکتو بر 1932ء میں تیسری گول میز کانفرنس سے فارغ ہونے کے بعد پیرس سے ہوتے ہوئے جنوری 1933ء میں ہسپانیہ پہنچے۔ ہسپانیہ صدیوں تک مسلم تہذیب و تمدن کا گہوارہ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ اقبال کو اس خطے سے خصوصی تعلقِ خاطر تھا۔ اقبال لکھتے ہیں کہ ''میں اپنی سیاحتِ اندلس سے بے حد لذت گیر ہوا۔ الحمرا کا تو مجھ پر کچھ زیادہ اثر نہ ہوا لیکن مسجد کی زیارت نے مجھے جذبات کی ایسی رفعت تک پہنچا دیا جو پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی‘‘۔
عبدالرحمان الداخل اول (756-788ء) نے قرطبہ کو اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنانے کے بعد یہاں مسجد قرطبہ کی بنیاد رکھی۔یہ مسجد اس کا عشق تھی۔ اس کی تعمیر سے اسے اس قدر لگاؤ تھا کہ وہ روزانہ کچھ وقت کے لیے خود بھی معماروں اور مزدوروں کے شانہ بشانہ کام کرتا۔قیمتی پتھر‘ سنگ ِ مرمر کا فرش‘ نقش و نگار سے مزین دیواریں ‘ آراستہ وپیراستہ ستون ‘ خوش نما اور خوش شکل محرابیں ‘ صناعی کا شاہکار دروازے۔صدر دروازے کے باہر ایک وسیع باغیچہ اور وضو کے لیے خوبصورت تالاب۔ عبدالرحمن اول کی وفات کے بعد اس کے جانشینوں نے مسجد کی تعمیر کاکام جاری رکھا۔ اندلس کے بادشاہ مسجد قرطبہ کی توسیع‘ اس کی شان و شوکت‘ زیب و زینت اور خوبصورتی میں اضافے کو اپنا دینی فرض سمجھتے تھے۔ جب مسجد مکمل ہوئی تو اس کے ستونوں کی تعداد بارہ سو سے زائد تھی۔ آٹھ سو سے کچھ زائد ستون آج بھی باقی ہیں اور ان کا حسن و جمال اب بھی‘ دیکھنے والوں کو لبھاتا ہے۔ جس زاویے سے ان پر نظر دوڑائیں‘ ایک تناسب اور موزونیت کا احساس ہوتا ہے۔ سقوطِ قرطبہ کے بعد مسجد قرطبہ کے محرابوں اور دیواروں پر لکھی ہوئی آیات کو چھپا دیا گیاتھا۔ یورپ میں جدید علوم کی روشنی پھیلی اور مذہبی تعصّب میں کمی ہوئی تو مسجد قرطبہ کو ‘ تخلیق و تعمیر کا ایک شاہکار سمجھتے ہوئے محفوظ رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔یوں مسجد کی مرمت ہوئی اور قرآنی آیات کے نقوش اسی آن بان اور حسن و جمال کے ساتھ دوبارہ نظر آنے لگے۔ چھتوں پر لکڑی کا کام بھی بدستور موجود تھا۔ یہی چیز ہے جسے اقبال نے '' رنگِ ثباتِ دوام ‘‘ کا نام دیا۔
کسی نے علامّہ اقبال سے پوچھا کہ مسجد کو دیکھ کر آپ پر کیا اثر ہوا تھا؟ آپ نے کہا:It is a commentary on the Quran, written in stones. ''یہ قرآن پاک کی ایسی تفسیر ہے جو پتھروں کے ذریعے لکھی گئی ہے‘‘۔قرطبہ کی گلیوں اور مسجد کے وسیع و عریض ایوان میں خود کو احیائے اسلامی کی تمنا سے بچانا بہت مشکل ہے۔ خصوصاً جب کوئی مسجد قرطبہ کی محرابوں اور ستونوں کو دیکھ رہا ہو اور دریائے وادیٔ الکبیر اپنی موجوں میں صدیوں پرانی داستانیں سمیٹے‘ نگاہوں کے سامنے بہہ رہا ہو۔ ہسپانیہ کی بے اذان فضا میں کھڑے ہو کر احیاء اور عروج کی تمنا ایک سوال کا روپ دھار لیتی ہے:
کون سی وادی میں ہے؟ کون سی منزل میں ہے؟
عشقِ بلاخیز کا قافلۂ سخت جاں
ہسپانیہ 790ء سے 1490ء تک مسلمانوں کے زیرِ نگیں رہا ۔ علم ‘ دولت‘ طاقت‘ شاہانہ جلال اور عظمت و دبدبہ۔آٹھویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والی یہ سلطنت سات سو سال بعد زوال کا شکار ہونے لگی۔ عبدالرحمان اول نے جس سلطنت کی بنیاد رکھی وہ بھی مٹ گئی اورمسلمانوں کا نام ونشان بھی۔ اقبال نے مسجدِ قرطبہ میں بیٹھ کے جہاں ایک طویل نظم لکھی وہیں ایک دعا بھی کی جو اُن کے اخلاص اور درد کا حاصل تھی۔ پُر کیف اور پُر تاثیر۔ یہ نظم ایک خاص ماحول میں اور خاص جذبہ کے تحت لکھی گئی ‘ اس لیے اس کا ہر شعر سوز و گداز میں ڈوبا ہوا ہے۔ ان الفاظ کے ہونٹوں پہ آتے ہی پڑھنے والے کے دل میں بھی وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے اقبال گزرے۔
ہماری خوش نصیبی کہ جہاں اقبال نے کھڑے ہوکے نماز پڑھی عین اسی جگہ کھڑا ہو کے ہمیں بآوازِ بلند یہ دعا پڑھنے کا موقع مل گیا۔یہ ایک عجیب معاملہ ہے کہ جہاں بیٹھ کے دعا لکھی گئی وہی کھڑے ہو کے اسے پڑھنے کی سعادت نصیب ہوجائے۔حضوری کی ایک عجیب کیفیت۔ کیف و سرور کا ایک اور ہی عالم۔ یوں لگا عبدالرحمان اول کا دور ہے۔ وہی پرانی فضا۔ توحید اور عشقِ مصطفی کے نعروں سے معمور۔ دریائے کبیر کی لہریں مسجد کو چھوکے گزر رہی ہیں۔ ان کے لبوں پہ مسرت کے نغمے اور قرطبہ کی عظمت کا اعتراف ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں لیکن اردگرد گھومتے محافظوں نے ہمیں دیکھ لیا۔ ان تک ہماری آواز پہنچ چکی تھی۔ وہ سمجھے ہم اذان دے رہے ہیں۔ اذان اور نماز کی ادائیگی کے معاملے میں یہاں کوئی رعایت نہیں دی جاتی۔ وہ تیزی سے ہمارے پاس آئے لیکن اس وقت آخری شعر ادا ہو رہا تھا۔ گویا مکمل دعا مسجد قرطبہ کی معطر فضا میں بلند ہوچکی تھی۔ دعا پڑھنے والوں میں بہت سے دوست شامل تھے۔ ایک نیم دائرے میں کھڑے‘ ہم سب نے آمین کہا۔تشکر کے احساس نے ہمیں اپنے غلبے میں لے لیا۔ دعا ختم ہوئی۔ہمیں لگاوقت رک سا گیا ہے۔یہ سلسلۂ روزو شب۔ یہ کائنات۔ بیسیوں سیاح ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ ہماراگائیڈ بھی حیران تھا۔ محافظ ہمیں خاموش دیکھ کے واپس لوٹ گئے۔ ہماری خاموشی لیکن خاموشی نہ تھی۔ اس خاموشی میں بھی ایک آواز تھی۔ ایک اور دعا۔ ایک اور صدا۔ درد و غم ‘ سوز و ساز میں ڈوبی۔ اقبال نے درست ہی کہا۔مسجد قرطبہ ایک استعارہ ہے۔ عشق و مستی کا‘ کیف و سرور کا‘ بندگی اور حضوری کا۔ ماضی کی کہانی کانوں میں بازگشت بن کے گونجتی رہی۔ اسی کہانی کی کوکھ سے ایک نئی کہانی جنم لے گی۔
کھول آنکھ زمین دیکھ فلک دیکھ فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
زوال کب تک رہے گا۔ عروج کا سورج طلوع ہونے کو ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں