برہان وانی

میں محوِ حیرت ہوں اور خوش بھی!
لوگ کہتے تھے کہ ہم زوال کی انتہا پہ ہیں۔ چراغ گل ہوگئے ‘ روشنی جاتی رہی۔ اندھیرا ہی اندھیرا‘ دھواں ہی دھواں! ہر طرف گھٹن ‘ حبس ‘ بے بسی!۔۔۔۔ وہ مائیں ہی نہیں جو کسی مجاہد کو جنم دے سکیں۔ ایسے میں برہان وانی کی شہادت! ایسی چنگاری بھی یارب اپنے خاکستر میں تھی۔ وہ کوئی ستارہ تھا جو چمکا ‘ کوئی کرن تھی جو آسمان سے اتری ‘ کوئی ماہتاب تھا جو ضو فشاں ہو ا اور پھر ایک پیغام دے کر واپس چل دیا۔ ہاں، ستارے تو ہوتے ہی اس لیے ہیں کہ کچھ دیر کے لیے چمکیں ‘ راہ دکھائیں اور پھر ٹوٹ کے بکھر جائیں۔ ظلمت کی سیاہ رات یوں ہی ختم ہوتی ہے۔ صبح یوں ہی طلوع ہوتی ہے۔
دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی۔۔۔۔ اس بہتے ہوئے خون کو، ستم کی سیاہ رات کو، ان مائوں کو جن کی گودیں اجڑ گئیں، ان بہنوں کو جن کے بھائی خاک ہو گئے، ان باپوں کو جن کے لختِ جگر واپس نہیں آئے۔ دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی۔ ہاں‘ دنیا کشمیر کو بھول چکی تھی۔ یہ لکھ لُٹ کون ہے جس نے اس کہانی کو پھر سے زندہ کر دیا۔ جو آزادی کا علم لے کر گلی کوچوں میں گھومتا رہا۔۔۔۔پہاڑوں پر‘ وادیوں میں‘ دریا کے کنارے‘ پیڑوں کے سائے میں‘بہتی ندیوں اور خاموش جھیلوں کے آس پاس ۔ گھنے درختوں میںد بکے ہوئے پرندوں نے پوچھا‘ تم کون ہو۔ اس نے سرگوشی میں جواب دیا۔۔۔۔آزادی! اور پھر آزادی کے اس متوالے کا خون وادیوں میں بکھر گیا۔ ایک نئی صبح کی امید میں۔
یہ خون عام خون نہیں۔ یہ شہید کا خون ہے۔ اس خون سے نئے جہاں پیدا ہوتے ہیں۔ اس کا صلہ ستائش نہیں‘ تب و تاب جاودانہ ہے۔ سوشل میڈیا پہ وہ انٹرویو بہت عام ہوا جو وانی کے والد نے دیا۔ یہ انٹرویو اندھوں کی بھی آنکھیں کھول دیتا ہے۔ کیا منظر ہے کہ باپ اپنے بیٹے کی موت پہ فخر سے سینہ تان کے کھڑا ہوجائے۔ نہ آنسو ‘ نہ آہیں‘ نہ گریہ! ایسا کب ہوتا ہے۔ ایسا کہاں ہوتا ہے اور اگر ہو نے لگے تو یہ ایک نئی کہانی کا آغاز ہے۔ مجھے اس باپ کے لہجے میں ایک عجب بانکپن نظر آیا۔ وقار‘ ٹھہرائو‘ اطمینان اور اظہارِ تشکر۔ اس میں ایک روشن مستقبل کی نوید بھی ہے۔ برہان اور اس کے بھائی نے جان دے دی تو کوئی حیرت نہیں۔ اس بہادر باپ کے بیٹوں کو ایسا ہی ہونا چاہیے۔ بھارت اک جنون کا شکار ہے لیکن جنون اور پاگل پن کے باوجود کچھ اچھے لوگ بھی موجود ہیں۔ کچھ لوگ جو ابھی سچ بولتے ہیں۔ تاریخ کو سمجھتے ہیں۔ دلیل مانتے ہیں۔ انہیں اپنی گندگی نظر آتی ہے۔ ایسی ہی ایک آواز ارون دتی رائے کی بھی ہے۔
ارون رائے کہتی ہے کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہ تھا۔ بھارت ایک غاصب ملک ہے۔ اس نے کئی قوموں کی آزادی چھین لی۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد یہ دنیا کی سب سے بڑی استعماری قوت ہے جس کی حریص نگاہیں اب ہمسایوں پہ بھی اٹھنے لگی ہیں۔ لاکھوں حریت پسند ظلم کی بھینٹ چڑھ گئے ۔ حیدر آباد دکن ‘ ناگا لینڈ‘ منی پور‘ جونا گڑھ‘ مشرقی پنجاب۔ دور کیوں جائیں صرف کشمیر میں دو لاکھ افراد کو شہید کیا گیا۔ ستر لاکھ کی آبادی اور دو لاکھ شہید! کشمیر کا شاید ہی کوئی گھر ہو جہاں شہادت کی خوشبو نہیں بکھری۔ کیا اس خون سے نیا جہان پیدا نہیں ہوگا۔ گاندھی فائونڈیشن کی ایک تقریب میں ارون رائے نے ببا نگ دہل کہا: ''ایک روز بھارت کو ان جرائم کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ یہ جلے ہوئے گھر ‘ یہ لٹی ہوئی عصمتیں‘ یہ بے گو روکفن لاشیں۔۔۔۔ یہ سب ایک روز فردِ جرم عائد کریں گے اور پھر تاریخ اپنا فیصلہ سنائے گی‘‘۔
برہان وانی کا خون پوچھتا ہے کہ امنِ عالم کا پرچار کرنے والے کہاں ہیں۔ اے اہلِ جہاں! کب سنو گے تم۔ تم ہی توکہتے ہو کہ دنیا میں ایک شخص بھی غلام ہے تو ساری دنیا غلام ہے۔ ایک بستی میں بھی امن نہیں تو ساری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ وانی کی شہادت تمہارے لیے بھی پیغام ہے۔'' جب میرا بھائی شہید ہوا تو میں چودہ برس کا تھا۔ میں نے قلم رکھ دیا اور بندوق اٹھالی۔ شاید دنیا یوں ہی سرنگوں ہو تی ہے۔ میں نے اگلے کئی سال جد و جہد میں گزار دیے کیونکہ آزادی بھیک میں نہیں ملتی۔ اس کے لیے نسل در نسل قربانی دینا پڑتی ہے۔ آزادی کے راستے مشکل ضرور ہیں لیکن جو صعوبتیں اٹھائیں ان کے لیے مشکل نہیں۔ وہ منزل پہ ضرور پہنچتے ہیں۔ جو خون دیتے ہیں وہی سرخ روہوتے ہیں‘‘۔ 
وانی کا پیغام ان نوجوانوں کے لیے بھی ہے جو مغرب کی دہلیز پہ سرنگوں ہیں۔ شہادت کے شوق سے محروم‘ جذبِ دروں سے دور! ''انسان چاہے تو زندگی میں ہی مرجائے اور چاہے تو مرکر بھی امر ہوجائے۔ موت سب کو مٹی نہیں بناتی۔
اے خدا ! ہمیں بھی حق کے لیے اٹھنے کی توفیق دے۔ ہمیں بھی شہادت کے رتبہ سے سرفراز کرکہ یہ رات ختم ہو اور کشمیر آزادی کی صبح طلوع ہوتی ہوئے دیکھے اور وہ برہان وانی، اس کی مدح میں یہی کہنا کافی ہے:
خوش ہیں دیوانگیٔ میرؔ سے سب
کیا جنوںکر گیا شعور سے وہ

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں