ڈاکٹر سعید اختر

''اے خدا میری زبان کو تاثیر دے۔ میں جو بات کہوں دل میں اتر جائے‘‘۔ ڈاکٹر سعید اختر نے دعا مانگی اور اپنی گفت گو شروع کی:
''میں نے 1984ء میں کراچی سے ایم بی بی ایس کیا۔ یونیورسٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کرنے کی وجہ سے امریکا جا کر پڑھنے کا موقع مل گیا۔ Yale یونی ورسٹی... شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں کہ یہ ہارورڈ کے مقابلے کی درس گاہ ہے۔ یہاں کا میڈیکل سکول تقریباً چار سو سال پہلے بنا۔ اس درس گاہ کی تعلیمی فضا میں مجھے اپنی روایات کی گونج سنائی دی۔ تدبر‘ تفکر‘ تلاش اور جستجو۔ وہی باتیں جو ہمارے دین کا پیغام تھیں۔ ذہن میں پہلا سوال یہی تھا کہ ایسی تعلیم ہمارے مقدر میں کیوں نہیں۔ یہاں سے نکل کر کچھ سال نیویارک میں گزارے اور پھر میں ٹیکساس کی ایک یونیورسٹی سے منسلک ہو گیا۔ میری عمر صرف چھتیس برس تھی جب میں وہاں یورولوجی ڈیپارٹمنٹ کا سربراہ بن گیا۔ دنیا کی ہر نعمت‘ دولت‘ شہرت‘ عزت‘ گھربار‘ یہاں تک کہ میں نے اپنا جہاز بھی خرید لیا۔ اسی دوران میری سوچ کا دھارا بدلنے لگا۔ گھر کے بعد بڑا گھر‘ دولت کے بعد مزید دولت‘ چھوٹے جہاز کے بعد بڑا جہاز... کیا میں زندگی بھر اسی کش مکش کا شکار رہوں گا۔ میں کون ہوں۔ اس دنیا میں کیوں آیا ہوں اور میں نے اس رزق میں سے‘ جو مجھے خدا کی طرف سے عطا ہوا‘ دوسروں کو کیا دیا؟ یہ سوال اٹھنے لگے تو کسی نے کہا‘ میرا خدا مجھ پر مہربان ہونے لگا ہے۔ 
2000ء میں‘ میں نے سب کچھ چھوڑ کے پاکستان آنے کا فیصلہ کیا۔ میرے دوستوں نے مجھے روکنے کی کوشش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تمھارا پاکستان میں زندہ رہنا محال ہو گا‘ لیکن میرے ذہن میں اٹھنے والے سوال مجھے بے چین کرتے رہے۔ کیا میری خوشیاں صرف میری ہی ہیں۔ ان کا کچھ حصہ کسی اور کو نہیں مل سکتا۔ اسلام آباد پہنچ کر میں شفا انٹرنیشنل ہسپتال سے منسلک ہو گیا۔ خوب سے خوب تر کی جست جو میرے ہم رکاب تھی ۔کچھ ہی عرصہ میں یہ ہسپتال ایک بہترین ادارے میں تبدیل ہو گیا۔ یہ خدا کا کرم تھا اور میری محنت۔ میں چاہتا ہوں کہ جو کام کروں وہ غیرمعمولی ہو۔ اسی دوران مجھے احساس ہوا کہ غریب مریضوں کی اس ہسپتال تک رسائی ممکن نہیں۔ یہ سوال مجھے پریشان کرنے لگا کہ کیا کسی مریض کو اس لیے واپس بھیج دیا جائے کہ اس کے پاس علاج کے پیسے نہیں۔ میرے ضمیر پہ بوجھ بڑھنے لگا۔ یہ زندگی کسی کی عطا ہی تو ہے۔ اگر یہ ہاتھ مفلوج ہو جائیں‘ زبان ساتھ چھوڑ دے اور فہم و فراست کے چشمے خشک ہونے لگیں تو ہم کیا کر سکیں گے۔ یوں لگا جیسے کسی نے کہا ہو کہ بیماری‘ کسی غریب کا نہیں بلکہ ہمارا امتحان ہے۔ میں نے اس ہسپتال میں چار بیڈ غریبوں کے لیے مختص کر دیئے۔ ہر سال امریکا جاتا۔ دوستوں سے زکوٰۃ اکٹھی کرتا اور پانچ چھ کروڑ روپیہ ان مریضوں پر صرف کر دیتا۔ اسی دوران میں نے سوچا‘ اب اگلا قدم اٹھایا جائے۔ گردوں کا ایک ایسا ہسپتال جو غریبوں کے بھی کام آئے۔ قدرت مجھے شہباز شریف کے پاس لے آئی۔ انہیں میرا عزم پہچاننے میں صرف ایک لمحہ لگا۔ ان کا کہنا تھا کہ میں خود کینسر کا مریض رہ چکا ہوں‘ میں جانتا ہوں کہ اچھا ہسپتال اور اچھا مسیحا کیسا ہوتا ہے۔ اور یوں کچھ ہی دنوں بعد شہباز شریف نے ایک ہسپتال بنانے کا اعلان کر دیا۔ گردے اور جگر کی بیماریوں کا مرکز۔ میں ششدر رہ گیا۔ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرے خواب کی تعبیر اس قدر جلد مل جائے گی۔ ساٹھ ایکڑ زمین‘ سولہ ارب روپے کی حکومتی امداد‘ تین سو بیس بیڈز پر مشتمل ہسپتال‘ علاج‘ تعلیم و تربیت اور ریسرچ۔ پانچ سالوں میں ہسپتال کی گنجائش آٹھ سو بیڈز سے تجاوز کر جائے گی اور یہ جنوبی ایشیا کا بہترین ہسپتال ہوگا۔
میں اب بھی شفا انٹرنیشنل سے منسلک ہوں لیکن آنکھوں میں ایک اور ہی خواب ہے۔ پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ اینڈ ریسرچ سنٹر(PKLI)۔ ہسپتال کا آغاز انشاء اللہ دسمبر 2017ء تک ہوگا۔ ہسپتال کو پنجاب حکومت کی مددحاصل ہے لیکن یہ ایک ٹرسٹ کے تحت کام کرے گا۔ ہر طرح کی سرکاری بندشوں اور مداخلت سے آزاد۔
کچھ لوگ خوف زدہ کرتے ہیں کہ ہسپتال کے لیے سالانہ چھ ارب روپے کہاں سے آئیں گے۔ کچھ عرصہ پہلے میں بھی یہی سوچتا تھا لیکن اس سوال کا جواب مجھے خانہ ٔ خدا میں ملا۔ ایک بار میں عمرہ کے لیے گیا اور وہاں بیٹھے ایک بزرگ سے یہی سوال کیا۔ ان کا جواب تھا ''کیا توکل کے سوتے خشک ہو گئے؟ کیا یقین کی دولت جاتی رہی؟ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم خدا کے کنبہ کی دیکھ بھال کرو اور وہ تمھاری مدد کو نہ آئے‘‘۔ وسائل کی فراہمی کوئی مسئلہ نہیں۔ صرف جنون اور دیوانگی درکار ہے۔ میں نے اپنے پیشے سے عشق کیا۔ اب یہ ہسپتال میرا عشق ہے۔ ایدھی‘ انڈس‘ شوکت خانم اور آپ کا ادارہ اخوت۔ یہ سب عشق کا ہی حاصل ہیں۔ غربت‘ افلاس‘ بیماری۔ گندے اور بدبودار ہسپتال ہمارا مقدر ہی کیوں ہیں۔ یہ ہسپتال ایک عام آدمی کا ہسپتال بھی ہو گا۔ ایک مزدور مجھے دس روپے دیتا ہے تو وہ کسی بڑے آدمی کے دس لاکھ پہ بھاری نظر آتے ہیں۔ پاکستان میں ایک کروڑ لوگ ہیپاٹائٹس کے مریض ہیں اور بارہ لاکھ لوگوں کو جگر کی پیوند کاری درکار ہے۔ رنگ‘ نسل‘ مذہب‘ صوبائیت اور فرقہ واریت سے بلند۔ گردے اور جگر کی بیماریوں کا یہ ہسپتال خدمت کا ایک نیا باب کھولے گا۔ یہاں کسی مریض پر علاج کا دروازہ اس لیے بند نہیں ہو گا کہ اس کی جیب خالی ہے‘‘۔ ذوالفقار راحت‘ حافظ شفیق الرحمان‘ حفیظ خان اور بہت سے لوگ ڈاکٹر سعید اختر کی گفت گو سن رہے تھے۔ ہر دل سے ان کی کام یابی کے لیے دعا نکل رہی تھی۔
''ہم کون ہیں؟ کیوں ہیں؟ اس رزق میں دوسروں کو شریک کیوں نہیں کرتے جو کسی نے ہمیں عطا کیا‘‘۔ پاکستان کی مٹی سے فیض یاب ہو کر بہت سے لوگ امریکا پہنچے۔ چھوٹے گھروں سے بڑے بڑے گھروں تک یہاں تک کہ انہوں نے جہاز بھی خرید لیے لیکن وہ سب ڈاکٹر سعید اختر نہ بن سکے۔
ایک دیوار ہے زندگی
کوئی شوریدہ سر چاہیے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں