بارہواں ڈاکہ

یہ ہمارے دفتر میں گیارہواں ڈاکہ ہے۔
اخوت‘ دنیا میں قرضِ حسنہ کا سب سے بڑا ادارہ۔ بقول شخصے اس گئے گزرے دور میں عظمت رفتہ کی کہانی۔ سولہ سال قبل جب اس کام کا آغاز ہوا تو کسے خبر تھی کہ سفر کہاں پہنچے گا۔ بس ایک جنون تھا اور دیوانگی۔ قرآن کی یہ آیت بھی روبرو تھی کہ جس نے صرف ایک شخص کی زندگی بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔ لاہور کی ایک کچی بستی۔ خستہ حال گھر اور بیری کا ایک درخت۔ وہ پہلا قرضہ جو ایک بیوہ کو ملا‘ جس سے اس نے سلائی کی دو مشینیں خریدیں۔ شب و روز محنت‘ نالہ ٔ نیم شب‘ آہِ سحرگاہی۔ بیوہ کو خدشہ تھا کہ بچے نشے کی دلدل میں گر جائیں گے اور بیٹی غلط راہ پہ چل نکلے گی۔ ایک خاندان غربت سے بھی بچ گیا اور جرم سے بھی۔ کیا خبر تھی یہ بات قبول ہو جائے گی۔ قبولیت ہی اصل مرحلہ ہے۔ بس پھر کیا تھا۔ حلقہ در حلقہ۔ ایک زنجیر سی بننے لگی۔ ایک سے دو‘ دو سے دو ہزار اور پھر لاکھوں خاندان۔ بہت سے لوگوں نے ہاتھ تھاما اور دس سال میں چند قرضے ایک لاکھ قرضوں تک پہنچ گئے۔ بارش کا پہلا قطرہ اور پھر رم جھم۔ زندگی یوں ہی بدلتی ہے۔
کسی نے کہا: حکومت کو بھی ساتھ چلنا چاہیے۔ ضرورت مند ایک لاکھ تو نہیں۔ یہ تو ہر گلی کوچے میں ہیں۔ عزت اور آبرو کے ساتھ زندہ رہنا ان کا بھی حق ہے۔ یوں سفر کی اگلی منزل شروع ہوتی ہے۔ ایک ارب‘ دو ارب‘ چار ارب‘ سات ارب۔ وزیر اعلیٰ پنجاب نے قرضِ حسنہ کا سب سے بڑا فنڈ بنا دیا۔ وزیر اعلیٰ خود روزگار سکیم... سیاست سے بلند بلا سود قرضے‘ مسجد سے رشتہ‘ رضا کاریت اور لینے والے کو دینے والا بنانے کا عزم۔ پنجاب کے بعد گلگت بلتستان‘ فاٹا‘ کے پی‘ سندھ‘ لیاری‘ کوئٹہ... عمل درآمد کی ذمہ داری اکثر جگہ اخوت کو سونپ دی گئی۔ وہی جنوں اور دیوانگی‘ وہی شوق اور وارفتگی۔ راستہ مگر آسان نہ تھا۔ کانٹے نہ ہوں تو مسافر کا امتحان کیسے ہو۔
پچھلے ڈیڑھ سال کی کہانی زیادہ صبر آزما ہے۔ چند روز پہلے کچھ منہ زور بچے گھر سے نکلے‘ پستول اٹھائے اور ہمارے دفتر پہنچ گئے۔ ماں باپ کی تربیت نہ تھی یا فشار خون بڑھ گیا‘ کچھ تو تھا کہ انسانیت مات کھا گئی۔ ہمارے دفتر میں یہ گیارہواں ڈاکہ تھا۔ کراچی‘ ملتان‘ لاہور‘ راول پنڈی‘ پشاور کے بعد اب فیصل آباد۔ ہائے یہ منہ زور بچے۔ ان لوگوں کو بھی لوٹنے سے باز نہیں آتے جو محبت بانٹتے ہیں۔ مواخات کے علم بردار ہیں۔ اس واردات کے دوران سٹاف کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی کنپٹی پہ پستول رکھے گئے۔ انہیں گالیاں دی گئیں۔ جی بھر کے بدسلوکی کی گئی اور پھر غریبوں کی جمع پونجی لوٹ کر دفتر بند کر دیا گیا۔ یہ سب ہوا مگر اخوت کے ساتھیوں کو شکست نہ ہوئی۔ ''جو کارزار حیات میں آیا ہی لٹنے کے لیے ہو اسے کون شکست دے گا‘‘۔ خون سے لت پت ساتھیوں نے یہ کہا اور پھر سے کام میں جت گئے۔ شاید انہیں علم تھا کہ کسی ضرورت مند کے گھر کا چولہا سرد ہے۔ ایک نوجوان کا پیغام آیا: ''ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ ان سے بھی نہیں جن کے سامنے یہ ظلم ہوا اور انہوں نے نگاہیں تک پھیر لیں۔ جس معاشرے میں نیکی کا گلا گھونٹ دیا جائے وہاں باقی کیا رہ جائے گا‘‘۔
اخوت کے ملازم جان ہتھیلی پہ رکھ کے کام کرتے ہیں۔ صبح شام‘ رات دن‘ سردی گرمی‘ ذات‘ برادری‘ رنگ‘ نسل‘ مذہب‘ سیاست۔ کوئی امتیاز نہیں برتتے۔ گلگت بلتستان سے بحیرۂ عرب کے ساحل تک‘ گلی کوچوں کی یہ آبلہ پائی کس لیے ہے؟ یہ سب ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کا خواب ہے۔ کسی بیوہ کے سر پہ آنچل‘ کسی یتیم کے سر پہ سایہ‘ کسی بے سہارا کا سہارا۔ ''ہم لوگ وہ کندھا ہیں جس پہ سر رکھ کے غریب اچھی زندگی کے خواب دیکھتے ہیں۔ ہم نے ان پندرہ لاکھ اہلِ وطن کے گھر پہ دستک دے کر کہا: تم اکیلے نہیں‘ ہم جو تمھارے ساتھ ہیں۔ زندگی تو وہی ہے جو ایثار سے عبارت ہے۔ قربانی اور مواخات ہے۔ باقی سب تو سراب ہے‘‘۔
آئیے ایک بار پھر اس مہیب واقعہ کی طرف لوٹتے ہیں۔ کچھ لوگ اس میں حکومت کی ناکامی تلاش کریں گے۔ یہ کام یقینا سب سے آسان ہے لیکن اس ضمن میں سب سے اہم رائے ہمارے دوست مرزا صاحب کی ہے۔ مرزا صاحب فلسفہ کے استاد تھے۔ آج کل ریٹائرڈ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناکامی کی یہ کہانی کہیں زیادہ گہری ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس واقعہ کی ذمہ داری ہم سب پہ عائد ہوتی ہے۔ وہ ماں باپ جنہوں نے پستول اٹھانے والے ان بچوں کو جنم دیا‘ وہ بہن بھائی جن کی گود میں یہ پروان چڑھے‘ وہ عزیز و اقارب جو ان کا رول ماڈل تھے‘ وہ اہل محلہ جنہوں نے ان کی غلطیوں کو درگزر کیا‘ وہ امام صاحب جن کی مسجد میں یہ دین کا سبق پڑھنے گئے‘ وہ استاد جو انہیں نیکی اور بدی کی تمیز سکھانے پہ مامور تھے‘ وہ سیاسی ڈھانچہ جو استحصال پہ کھڑا ہے‘ وہ سماجی تانا بانا جہاں غریب کا کوئی مقام نہیں‘ وہ گلا سڑا معاشی نظام جہاں کسی کو روزگار نہیں ملتا‘ وہ دولت مند جن کے عالی شان محل تکبر کی منہ بولی تصویر ہیں اور پھر وہ سرمایہ دارانہ نظام‘ دولت کا ارتکاز اور رُلا دینے والی غربت۔
مرزا صاحب کا کہنا تھا کہ ہر معاشرہ ایک اجتماعی ضمیر رکھتا ہے اور اجتماعی ضمیر انہی افراد سے وجود میں آتا ہے۔ آئیے‘ کسی کو الزام دینے کی بجائے اپنے اندر جھانکیں اور خود کو بدلنے کی کوشش کریں۔ اگر ایسا ممکن نہیں تو سر جھکا کر خاموشی سے گیارہویں ڈاکے کے بعد‘ بارہویں ڈاکے کا انتظار کریں۔ مرزا صاحب یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ مضطرب‘ مایوس‘ دل گرفتہ۔
شاید انہیں علم تھا کہ ہم خود کو بدلنے کی ہمت نہیں رکھتے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں