تیرا لٹیا شہر بھنبھور

اس شخص کا نام بہرام ڈی آواری ہے۔ یہ پاکستان کی پارسی کمیونٹی کا سربراہ ہے۔ اس نے اپنی کہانی شروع کی تو متحیّر کرنے لگا۔ سچ کی اپنی طاقت ہوتی ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کے والد نے انشورنس ایجنٹ کے طور پر کام کا آغاز کیا۔ یہ پچھلی صدی کے اوّلین دن تھے۔ ممبئی اور کراچی‘ یہ دونوں شہر اس وقت چند لاکھ افراد پہ مشتمل ہوں گے۔ انشورنس کا کاروبار بے حد مشکل ہوتا ہے۔ اس وقت تو اور بھی مشکل تھا لیکن والد صاحب محنت کے عادی تھے۔ آگے بڑھتے رہے۔ جب بھی وہ کسی بڑے کاروباری کو ملتے اس کی عادات کا جائزہ لینے لگتے۔ انھیں ان خوبیوں کی تلاش تھی جو کاروبار میں کامیابی کا زینہ بنتی ہیں۔ انھیں بہت سے لوگوں سے ملنے کا موقعہ ملا۔ ہر رنگ‘ نسل اور مذہب کے لوگ۔ اس مشاہدہ کا حاصل یہ تھا کہ کامیاب لوگوں میں دو خوبیاں ہوتی ہیں‘ محنت اور دیانت۔ انھوں نے دونوں خوبیاں اپنا لیں۔ ساٹھ کی دہائی میں وہ ہوٹلنگ کی صنعت کی طرف متوجہ ہوئے اور آج ان کا خاندان اس صنعت میں ایک معتبر نام ہے۔ کراچی کا آواری ٹاور‘ بیچ لگژری اور لاہور کا آواری ہوٹل انہی کی ملکیت ہے۔ پاکستان میں ہوٹلوں کے علاوہ دبئی اور ٹورنٹو میں بھی ان کے ہوٹلز ہیں۔ بہرام آواری پاکستان کے لیے ایشین گیمز میں دو بار گولڈ میڈل جیت چکا ہے۔
اب آتے ہیں اس کہانی کی دوسری طرف۔ بدامنی‘ اغوا‘ لوٹ مار‘ تشدد‘ بھتہ۔ ملک میں امن و امان کی صورت حال خراب ہوئی تو بہرام آواری دل برداشتہ ہونے لگا۔ اسے کئی بار اس ملک سے باہر جا کر آباد ہونے کا موقعہ ملا لیکن وہ ڈٹا رہا۔ اس نے یہیں رہنے کا فیصلہ کیا۔ ''مجھے اپنا کاروبار پاکستان میں ہی کرنا ہے‘‘۔ اس بات کے مخاطب تو اس کے بچے اور اہلِ خانہ تھے لیکن ایک اور بات جو اس نے کہی وہ پورے پاکستان کے لیے ہے۔ '' پاکستان کے سبز جھنڈے پہ سفید پٹی اقلیتوں کی نمایندگی کرتی ہے۔ یہ اس امر کا اعلان ہے کہ یہ ملک اقلیتوں کے حقوق کا محافظ بھی ہے‘‘۔ بہرام ڈی آواری کا کہنا تھا کہ ''1947ء میں صرف کراچی میں پچیس ہزار پارسی آباد تھے لیکن آج پورے ملک میں صرف سولہ سو پارسی رہتے ہیں‘‘۔ یہ لوگ کہاں چلے گئے‘ کیوں چلے گئے؟ کہتے ہیں کہ جبر کے ماحول میں پرندے بھی دم گھٹ کے مر جاتے ہیں۔ یہ تو پھر انسان ہیں۔ ریشم کی طرح ملائم‘ پھول کی طرح نازک۔ لوگ اس طرح گھر چھوڑ کے جانے لگیں تو بستیاں ویران ہو جاتی ہیں۔ بہرام ڈی آواری کا یہ فقرہ بہت اہم تھا:
"We should take care of white on our flag"
ہم خود کو مسلمان کہتے ہیں۔ امن اور سلامتی کے پیامبر۔ ہم برصغیر میں اقلیت میں تھے۔ گویا یہ ملک ایک اقلیت نے بنایا‘ اس خوف سے کہ کہیں اس اقلیت کا تشخص‘ اس کی اقدار‘ اس کا عقیدہ نہ مٹ جائے۔ وہ اقلیت جب اکثریت بنی تو تحمل کی روش برقرار نہ رکھ سکی۔ عیسائی بستیوں میں آگ کیوں لگتی ہے۔ ہندو اور سکھ خود کو غیر محفوظ کیوں سمجھتے ہیں۔ پارسی ہجرت کیوں کر جاتے ہیں اور غیر مسلم تشدد کی چکی میں کیوں پستے ہیں۔ بہرام آواری سے ملاقات کے اگلے ہی روز کہیں سے ایک اندوہناک خبر آئی۔ امریکا سے آنے والے ایک ڈاکٹر کو سرِ عام قتل کر دیا گیا۔ وہ شخص چند روز سے ایک فری میڈیکل کیمپ چلا رہا تھا۔ بہت سے لوگوں نے اس سے دوا لی‘ کیا مسلم کیا غیر مسلم‘ لیکن افسوس زخموں پہ مرہم رکھنے والا خود اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ مقتول ڈاکٹر کی بیوی اور معصوم بچہ اس کا بہتا ہوا لہو دیکھتے رہے۔ وہ کھل کے رو بھی نہ سکے۔ کوئی انھیں دلاسا دینے کے لیے بھی تیار نہ ہوا۔ میرے کانوں میں بہرام آواری کی درد بھری آواز گونجتی ہے:
"We should take care of white on our flag"
بہت سال پہلے قائد اعظم نے کہا تھا: ''سنو! آج پاکستان بن گیا۔ آج تم سب آزاد ہو۔ جائو اپنے چرچ‘ اپنے گوردوارہ‘ اپنے مندر میں۔ آج کے بعد عقیدے کی بنا پر کوئی تفریق نہ ہو گی‘‘۔ مجھے تحریک ِ پاکستان کے ایک اور رہنما کی بات یاد آئی۔ ''اقلیتوں کی جان‘ مال‘ آبرو اور خون ہماری اپنی جان‘ مال‘ آبرو اور خون سے زیادہ عزیز ہے کہ وہ پاکستان کے برابر کے شہری ہونے کے علاوہ اکثریت کی پناہ میں ہیں۔ ان سے ہمارا سلوک ہمارے کردار کی گواہی بن جائے گا‘‘۔ کیا ہم یہ سب بھول گئے... کسی لوک شاعر نے کہا تھا ''سسیئے بے خبرے‘ تیرا لٹیا شہر بھنبھور‘‘ (سسی‘ بے خبر! تیرا شہر لٹ گیا کیا تجھے ابھی بھی خبر نہیں)۔ 
کن نیندوں محوِ خواب ہے اے چشمِ گریہ ناب
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں