ہارورڈ یا ڈھڈی والا

نذیر احمد وٹو ایک بے لوث سماجی رہنما ہے‘ لوک دانش کا پروردہ۔ اس نے کسی بڑے ادارے سے تعلیم حاصل نہیں کی لیکن پھر بھی وہ زندگی کی حقیقت کو سمجھ گیا۔ زندگی کے معنی آشکار ہوئے تو وہ خدمت کے راستہ پہ چل پڑا۔ پڑے لکھے لوگ اسے اجڈ اور گنوار کہہ کر مخاطب کرتے ہیں لیکن وہ ایسا ریشم ہے جس کی نرمی ایک زمانے پر بھاری ہے۔ نذیر وٹو نے 35 سال قبل انجمن بہبود آبادی نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یہ ایک غیر سیاسی تنظیم تھی جو اپنی مدد آپ کے اصولوں کے تحت کام کرتی ہے ۔کچھ عرصہ بعد اس نے اختر حمید خان کا نام سنا۔ کسی نے اس کے کان میں کہا ''اختر حمید خان پاکستان کا سب سے بڑا آدمی ہے‘‘۔ نذیر وٹو بوریا بستر باندھ کر کراچی پہنچ گیا جہاں اختر حمید خان لوگوں کو خود انحصاری کا درس دیتے تھے۔ نذیر وٹو نے کچھ دن اختر حمید خان کے پاس گزارے اور انھیں اپنا مرشد مان لیا۔ مرشد تزکیہ نفس بھی کرتا ہے اور تالیفِ قلوب بھی۔ مرشد کوئی ایسا راستہ دکھاتا ہے جس پر چل کر انسان اپنی منزل تک پہنچنے میں کام یاب ہو جائے۔ 
مومن‘ مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔ نذیر وٹو کو ایک آئینہ مل گیا اور اس نے خود سے اپنے نقش و نگار سنوارنا شروع کر دیے۔ اورنگی پائیلٹ پروجیکٹ اس کا مدرسہ تھا اور اختر حمید خان استاد۔ یہاں سے فیض یاب ہونے کے بعد اس نے فیصل آباد میں اسی طرح کے کام کا آغاز کر دیا۔ صاف پانی کی فراہمی اور گندے پانی کی نکاسی‘ اس کے دو مقاصد تھے۔ اس نے لوگوں کو سمجھایا کہ حکومت پہ انحصار کی بجائے اپنے زور بازو پر بھروسہ کرو۔ پھر اس نے کدال اٹھائی اور گلی کوچوں میں سیوریج بچھانے لگا۔ شہر کی بیسیوںگلیاں‘ لاکھوں فٹ سیوریج کی لمبی لائین اور صاف ستھرا پانی۔ نذیر وٹو نے ترقی کا ایک متبادل نظریہ پیش کیا۔ اس کا کہنا تھا کہ لوگوں کو ترقی کے عمل میں شریک نہ کیا گیا تو کوئی بڑا کام کرنا ممکن نہیں۔ ترقی عام آدمی کی شرکت کے بغیر ہو ہی نہیں سکتی۔ حکومتیں لوگوں کو بھکاری بنا دیتی ہیں اور بھکاری کبھی ترقی نہیں کرتے۔
''غربت سے نجات کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ انسان محنت اور ایثار کا عادی ہو جائے۔ اگر ہم اپنا فرض پہچان لیں تو حقوق خود بخود ملنے لگیں گے‘‘۔ نذیر وٹو کا کہنا ہے کہ اس نے یہ ساری باتیں اختر حمید خان سے سیکھیں۔ ''شروع شروع میں جب ہم نے اپنے مرشد سے کہا کہ ہم یہ کر رہے ہیں‘ وہ کر رہے ہیں تو وہ مسکرا کے کہتا کہ کیا تم گدھے ہو جو سارا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادنا چاہتے ہو۔ لوگوں کو اپنا کام خود کرنے دو۔ تمھارا کام ان کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے‘ ان کا کام کرنا نہیں۔ لوگوں کو راستہ دکھائو ان کی بیساکھی نہ بنو‘ بس ان کے راستے میں پڑی ہوئی رکاوٹیں ہٹا دو۔ چلنے کی ذمہ داری ان کی اپنی ہے‘‘۔ لوگ سیاست دانوں کے پاس جاتے ہیں کہ ہماری نالی بنا دو‘ گلی تعمیر کر دو۔ سیاستدان مسکرا کے دیکھتا ہے اور ٹھیکیدار کو بلاتا ہے۔ حکومت کے افسر پہنچ جاتے ہیں اور پھر سارے وسائل کسی کی جیب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جو کام حکومت دس لاکھ میں کرتی ہے لوگوں کی شرکت سے وہی کام ایک لاکھ میں ہو سکتا ہے۔ 
''چنگا پانی‘‘ کے نام سے نذیر وٹو نے بھلوال میں ایک اور انوکھا کام کر ڈالا۔ کئی ہزار گھرانوں کو چوبیس گھنٹے صاف پانی کی فراہمی اور تمام تر اخراجات کی ذمہ داری بھی ان پر جو یہ پانی استعمال کرتے ہیں۔ ''جتنا پانی استعمال کروگے اتنا ہی خرچہ دینا پڑے گا‘‘۔ اس اصول پر عمل کرنے کے بعد پانی کا استعمال بھی کم ہوا اور محصولات کی وصولی بھی نوے فیصد سے بڑھ گئی۔ حکومت نے گہرے کنویں‘ پانی کی ٹینکی اور چھ انچ موٹے پائپ کی ذمہ داری اٹھائی اور چھوٹے پائپ کمیونٹی نے لگائے۔ ہر گھر میں کنکشن لگ گیا اور لوگ اسی طرح میٹر دیکھ کر بل دینے لگے جیسے بجلی کا بل ادا کیا جاتا ہے۔ مقامی افراد پہ مشتمل ایک کمیٹی شکایات کا ازالہ کرتی ہے اور ہر کنکشن میرٹ کے تحت جاری ہوتا ہے۔ نتیجہ کیا نکلا۔ کچھ ہی عرصہ میں پانی کا معیار بہتر ہو گیا‘ دستیابی یقینی بن گئی اور مالی بوجھ صارف نے بخوشی قبول کر لیا۔ ''ایسے کام کے لیے نذیر وٹو جیسے مخلص سماجی کارکن بھی درکار ہیں جو ہمارے درمیان نہیں‘‘۔ ایک صاحب نے دل جلے انداز میں کہا ''اگر کوئی معاشرہ ایسے لوگ فراہم نہیں کر سکتا تو پھر وہ ترقی بھی نہیں کر سکتا‘‘۔ میں اس کے سوا اور کیا جواب دے سکتا تھا۔ ایسے لوگ ہوں گے تو غربت کا بت پاش پاش ہو گا۔
نذیر وٹو اپنے باغیانہ خیالات کی وجہ سے حکومتی حلقوں میں مقبول نہ ہو سکا۔ غیر سرکاری تنظیمیں اور بڑے بڑے غیر سرکاری ادارے اس سے کترا کے گزر جاتے ہیں۔ اس لیے کہ وہ جھوٹ نہیں بولتا۔ لگی لپٹی رکھے بغیر بات کرتا ہے۔ زمانہ ساز نہیں۔ اس کے آبائواجداد انگریزوں کے خلا ف جنگِ آزادی کا حصہ بنے۔ یہ بغاوت اس کا ورثہ بھی ہے۔ ایک جاگیردارانہ ماحول میں نذیر وٹو کی آواز کہاں تک گونج سکتی ہے لیکن اس کے باوجود وہ بولنے سے باز نہیں آتا۔ چراغ جلاتا رہتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ ایسے بہت سے چراغ جلیں گے تو غربت کے اندھیرے دور ہوں گے۔ اجالوں کا سفر شروع ہو گا۔ میں جب بھی نذیر وٹو سے ملتا ہوں تو مجھے ایک حوصلہ ملتا ہے۔ ترقی کے فلسفہ کو سمجھنے کے لیے ہارورڈ جانا ضروری نہیں۔ اخلاص اور دردمندی ہو تو زندگی خود بھی راستہ بتا دیتی ہے۔ نذیر وٹو نے زندگی کی حقیقت کو'' ڈھڈی والا‘‘ میں بیٹھ کر سمجھ لیا‘ لیکن ہم بڑے شہروں میں رہ کر بھی اسے نہ سمجھ پائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں