کیا غربت ختم ہو سکتی ہے؟

احسان الحق نے گفت گو شروع کی تو ایک خاموشی سی طاری ہو گئی۔ لاہور کا ایک خوب صورت ہوٹل‘ تیس سے زیادہ مہمان۔ پروفیسرز‘ مالیاتی امور کے ماہر اور حکومت کے لوگ۔ موضوع وہی پرانا کہ لوگوں کو غربت کی دلدل سے کیسے نکالا جائے۔ احسان الحق ان میں سب سے کم پڑھا لکھا تھا لیکن اس نے سب کو خاموش کر دیا۔ جب اس نے ہاتھ کھڑا کرکے کہا کہ وہ بھی کچھ کہنا چاہتا ہے تو لوگ اس کی طرف متوجہ ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ 
''ہم دو میاں بیوی اور ہمارے تین بچے ہیں۔ والدہ بھی حیات ہیں اور ہمارے ساتھ ہی رہتی ہیں۔ چند سال پہلے میں کیٹرنگ کا کاروبار کرتا تھا۔ کرسیاں‘ میز‘ شامیانے اور کراکری۔ تھوڑا سامان‘ جسے میں نے بہت محنت سے بنایا‘ کرائے پہ چلا جاتا اور مجھے اچھی خاصی آمدنی ہو جاتی۔ ہمارا دو مرلہ کا اپنا گھر ہے جو والدہ نے پیسہ پیسہ جوڑ کے بنایا۔ اس کے علاوہ ہمارا کوئی اثاثہ نہیں۔ ایک بار عید کے موقع پر ہم گائوں گئے ہوئے تھے کہ پیچھے ایک حادثہ ہو گیا۔ لاہور میں میری دکان میں آگ لگ گئی اور سب کچھ جل کے راکھ ہو گیا۔ شامیانے‘ کرسیاں‘ میز‘ برتن... کچھ بھی باقی نہ بچا۔ میں واپس لوٹا تو میرے سامنے راکھ کا ایک ڈھیر تھا۔ میری برس ہا برس کی کمائی۔ میری امیدوں کا محل‘ جو اب مسمار ہو چکا تھا۔ میں دیوانوں کی طرح چلّانے لگا۔ آگ تو کئی روز پہلے بجھ چکی تھی لیکن میرے آنسوئوں نے اسے اور بھڑکا دیا۔ میں بہت رویا اور پھر میری آواز سینے میں گھٹ کے رہ گئی۔
مجھے لگا‘ اس راکھ میں میرے بچوں کا مستقبل گم ہو چکا ہے۔ جس گھر میں خوشیاں گونجتی تھیں وہاں خوف‘ مایوسی اور بھوک خیمہ زن ہو چکی تھی۔ کچھ لوگوں کا قرض دینا تھا۔ چند ہی دنوں بعد وہ بھی چکر لگانے لگے۔ مجھے کچھ سمجھ نہ آئی کہ کیا کروں‘ کدھر جائوں۔ عزت کے ڈر سے موٹر سائیکل بیچی اور قرضوں سے جان چھڑائی کہ یہی راستہ نظر آرہا تھا۔ قرض ادا ہوا تو بھوک نے آ گھیرا۔ پہلی بار احساس ہوا کہ بچوں کو کھانا نہ ملے تو دل پہ کیا سانحہ گزرتا ہے۔ ایک دوست کے پاس پہنچا جس پہ مجھے بہت بھروسہ تھا۔ میں خوفزدہ تھا کہ کہیں منہ نہ موڑ لے لیکن اس نے مایوس نہ کیا۔ جیب سے دس ہزار روپے نکالے اور کہنے لگا: کچھ دن تو چل جائیں گے‘ جب چاہو واپس کر دینا۔ ایک بار پھر میری آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ دنیا اتنی بھی سرد مہر نہیں۔ 
میں نے اس دس ہزار میں سے تئیس سو روپے کا راشن خریدا اور یوں روٹی پکنے لگی۔ بقیہ رقم میرے پاس تھی۔ ماں نے کہا: ہمت نہ ہارو‘ دن بدلتے ہوئے دیر نہیں لگتی۔ اکبری منڈی جا کے کچھ مصالحے لے آئو۔ میں انھیں لفافوں میں پیک کرکے تمھیں دوں گی۔ مجھے ایک دھچکا سا لگا۔ اچھا بھلا کاروبار‘ اور اب یہ حالت۔ میں اکبری منڈی پہنچا اور باقی بچی ہوئی رقم یعنی سات ہزار سات سو روپے سے مصالحے خرید لایا۔ ماں‘ بیوی اور بچے... سب نے مل کر مصالحوں کو لفافوں میں ڈالا۔ ان کے ہاتھوں میں بہت نفاست تھی۔ ماں نے کہا: جائو اور جا کر بازار میں فروخت کر آئو: دیکھنا ریلوے لائن کے اس پار دوسرے محلے میں جانا‘ گھر کے پاس بازار میں شاید کوئی واقف مل جائے‘ تمھیں اچھا نہ لگے گا۔ میں نے ہمت پکڑی۔ اس طرح کے کام کا تجربہ تو تھا نہیں لیکن خدا پہ بھروسہ ضرور تھا۔ شام ہوئی تو سارے لفافے بک چکے تھے۔ اگلے دن بھی ایسا ہی ہوا اور اس سے اگلے دن بھی۔ دکانداروں کو ہمارے مصالحے اچھے لگے۔ چند ہی دنوں میں میرا اعتبار بیٹھ گیا۔ میرا چالیس روپے کا لفافہ بیالیس روپے میں بکنے لگا۔ یہ میری دوسری کام یابی تھی۔ میں کئی کئی میل پیدل چلتا اور بیسیوں دکانوں پہ جاتا۔ آہستہ آہستہ کام میں اور نفاست آ گئی۔ میری خوش اخلاقی بھی کام آئی۔ علی الصبح جب میں لفافے لے کے گھر سے نکلتا تو ایک اور شے بھی میرے ساتھ ہوتی‘ ماں کی دعا۔ بس اسی کا اثر تھا کہ میرے راستے کشادہ ہوتے گئے۔ مجھے یوں لگا جیسے سارا شہر میرے ساتھ ہے۔ ایک سال گزرا‘ کچھ رقم جمع ہوئی تو دوست کو واپس کرنے گیا۔ اس نے کہا: کچھ دیر اور رکھو‘ ابھی تو تمھارا کاروبار شروع ہوا ہے۔ میرا دوست میرا کام دیکھ کے خوش ہوتا رہا۔ دوسرے سال بھی اس نے قرض واپس نہ لیا بلکہ میرا کام دیکھ کے پندرہ ہزار اور دے دیے۔ میں گرم مصالحوں کی پیکنگ کا ماہر بن چکا تھا۔ میرا نام مارکیٹ میں عام ہونے لگا۔ راکھ کا ڈھیر اور میری چیخ و پکار۔ وہ لمحہ یاد آتا تو آنسو نکل آتے لیکن انھی آنسوئوں کے جلو میں ایک نئی دنیا تعمیر ہو رہی تھی۔
میں کہانی کو طول نہیں دینا چاہتا۔ آخری بات بتاتا ہوں کہ اب میرے پاس نو لوگ کام کرتے ہیں۔ یہ سب مصالحہ پیک کرتے ہیں اور میں سارا دن مارکیٹنگ میں مصروف رہتا ہوں۔ میرے بچے سکول جاتے ہیں۔ ماں کا بہترین علاج ہوتا ہے۔ میں نے ایک پرانا رکشا خرید لیا ہے۔ سواری بھی اور باربرداری بھی۔ اکبری منڈی سے سامان خریدا‘ پیکنگ کی اور پھر مارکیٹ میں فروخت کیا۔ محنت‘ دیانت‘ خوش اخلاقی اور ایفائے عہد... یہ چار اصول میرے کاروبار کی بنیاد ہیں۔ اب میں ایک وین اور کچھ مشینری خریدنا چاہتا ہوں۔ یہ مل جائے تو میں بہت آگے جا سکتا ہوں۔ میری مصالحہ جات کی اپنی فیکٹری ہو گی‘ انشاء اللہ۔ اگر میں اس روز جلا ہوا سامان دیکھ کے آنسو بہاتا رہتا اور میرا دوست مجھے دس ہزار روپے نہ دیتا تو شاید آج بھیک مانگ رہا ہوتا۔ میرے بچے چھوٹا بن کر کسی ورکشاپ پر کام کر رہے ہوتے۔ اب وہ بہترین سکول میں جاتے ہیں ۔ میرا گھر خوشیوں اور مسکراہٹوں سے بھر چکا ہے۔ حاصلِ گفت گو یہ ہے کہ اگر آپ لوگوں کو غربت سے نکالنا چاہتے ہیں تو میرے دوست کی طرح ان کے ساتھ کھڑے ہو جائیں۔ غریب کو بھیک نہیں دوستی چاہیے‘‘۔ احسان الحق خاموش ہو گیا۔ 
احسان الحق خاموش نہیں ہوا بلکہ اس نے ان سب کو خاموش کر دیا۔ کیا کوئی شخص سات ہزار سات سو روپوں سے کاروبار شروع کر سکتا ہے۔ ایسا کاروبار جو تین برس میں نو ملازمین تک جا پہنچے یعنی نو اور گھروں کی غربت کا سامان اور پھر یہ بھی کہے کہ میں چاہتا ہوں کہ کسی کو کچھ رقم دوں اور کہوں جائو کاروبار کرو۔ جب آسانی ہو تو واپس کر دینا۔ 
احسان الحق نے بہت خوب صورتی سے لوگوں کو بتا دیا کہ کام یابی کا راز کیا ہے۔ خود پہ یقین‘ محنت‘ دیانت‘ خوش اخلاقی‘ وعدے کی پاسداری اور پھر یہ عہد کہ ایک دن کسی اور کا ہاتھ بھی تھامنا ہے۔ ''چھوٹے چھوٹے خواب ہی ایک روز بڑا خواب بنتے ہیں‘‘۔ احسان الحق کی اس بات میں مایوس اور بد دل نوجوانوں کے لیے بہت سے راز پوشیدہ ہیں... ایک راز ہمارے لیے بھی ہے۔ کیا ہم احسان الحق کے دوست جیسا بن سکتے ہیں‘ جس نے مشکل کے وقت اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ آدھے لوگ‘ آدھے لوگوں کا ہاتھ تھام لیں تو کیا غربت ختم نہیں ہو سکتی۔
آئیے ہم بھی عہد کریں کہ اس رمضان میں ایک شخص کو اپنے پائوں پہ کھڑا ہونے میں مدد دیں گے۔ بہت سے احسان الحق ہمارے منتظر ہیں۔ ہمیں تو صرف ایک کا ہاتھ تھامنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں