کوئٹہ میں خونریزی کے بعد مذہب کے نام پر دہشت گردی نے کراچی میںآگ اور خون کی ہولی کھیلنی شروع کر دی ہے۔ یہ تباہ کاری سماجی معمول بن گئی ہے۔ یہ اس نظامِ سرمایہ اور اس کی ریاست کے تاریخی استرداد کی غمازی کرتی ہے۔ لیکن اس بربادی کے پیچھے مالیاتی سرمائے کے کردار اور اس کی اقتصادی اور سماجی وجوہات کو تلاش کر کے مٹا دینے کی بجائے ہمارے حکمران اور اہل دانش سطحی اور گھٹیا تجزیوں میں محو ہیں‘ جو نہ صرف بے معنی ہیں بلکہ عوام کے زخموں کو مزید کریدنے کا باعث بن رہے ہیں۔ کھوکھلی بحثوں میں بے معنی سیاسی لفاظی کے تند و تیز شور کے باوجود سماج پر سیاسی لاتعلقی کی نحوست چھائی ہوئی ہے۔ اگرچہ مجبور عوام کی جانب سے خوفناک سماجی اور معاشی حملوں کے خلاف وقفے وقفے سے لا تعداد مظاہرے اور تحریکیں چلتی رہی ہیں لیکن ایک بڑے پیمانے کی عوامی تحریک لمبے عرصے سے سامنے نہیں آئی۔ اس نظام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر چکے‘ دانشور اپنی محدود سوچ کے تحت محنت کشوں اور عوام کو عاجز، غلام، بزدل، ناتواں اور کرپٹ ہونے کے الزامات دیتے ہیں۔ ان نام نہاد ’’دانشوروں‘‘کی اکثریت اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ طبقاتی جدوجہد کے ساتھ ساتھ تاریخ کا بھی خاتمہ ہو چکا ہے اور استحصال و جبر کے خلاف اب کبھی کوئی بغاوت نہیں اٹھے گی۔ یہ درست ہے کہ پچھلے سال نومبرمیں کراچی کے بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹ فیکٹری میں لگنے والی آگ کے بعد، جس میں سرکاری ذرائع کے مطابق بڑی تعداد میں خواتین سمیت 289 مزدور زندہ جل گئے تھے، ملکی سطح پر کوئی بڑا ردِّ عمل سامنے نہیں آیا۔ اگرچہ اس سانحہ پر ملک بھر میں عوامی پیمانے پر نہ سہی، لیکن زبردست مظاہرے ہوئے۔ اس سے بڑھ کر ان لاکھوں کروڑوں مزدوروں کے سینوں میں بھی عتاب اور انتقام کی آگ جل رہی ہے جو مظاہروں میں نہیں گئے۔اس دل خراش واقعے کو جلدی ہی مصنوعی اور رجعتی نان ایشوز کے نیچے دبا دیا گیا اور بارہ فروری کو سینکڑوں محنت کشوں کے قاتل فیکٹری مالکان پر سے قتل کے الزامات ہٹا لیے گئے، لیکن اس خوفناک جرم کو محنت کش طبقے کے شعور سے نہیں مٹایا جا سکتا۔ سول سوسائٹی کے دانشور‘ طبقاتی جدوجہد کی حرکیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ عوام کا شعور ہر وقت انقلابی یا ترقی پسند نہیں ہوتا، بلکہ یہ بہت قدامت پسندہوتا ہے،خصوصاً جمود، معاشی عدمِ تحفظ اور مختلف درجوں کی رجعت کے دور میں۔ عوام خود کو جمود کے حالات کے مطابق ڈھال لیتے ہیں کیونکہ ایسا کرنا نسبتاً آسان ہوتاہے۔ عام ادوار میں وہ رائج الوقت معاشی و سماجی نظام، اس کی اخلاقیات، اقدار، رسوم و رواج، روایات، ثقافت اور تعصبات کے ساتھ سختی سے چمٹے رہتے ہیں‘ لیکن دھماکہ خیز واقعات عوام کے شعور میں زبردست تبدیلیاں پیدا کرتے ہیں۔ میکانکی سوچ رکھنے والے بورژوا دانشوروں کے نقطہ نظر کے بر عکس انقلابی شعور لگاتار اور ہموار انداز میں آگے نہیں بڑھتا،انقلابی تحریک وہ مخصوص نقطہ ہوتی ہے جہاں جدلیاتی طور پرمقدار‘ معیار میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ یہ سماجی عمل بتدریج ارتقا کے ذریعے نہیں بلکہ مخصوص وقفوں کے بعد انقلابی چھلانگوں(leaps) کے ذریعے ہنگامہ خیز انداز میں جاری رہتا ہے اور تاریخ کو آگے بڑھاتا ہے۔کارل مارکس نے آج سے ڈیڑھ صدی قبل درست طور پر اس عمل کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا تھا کہ انقلابات تاریخ کا انجن ہوتے ہیں۔ سرکاری مورخین کی مرتب کردہ تاریخ کے بر عکس ایسی انقلابی بغاوتیں پاکستان کے محنت کش طبقات کی تاریخ اور روایات کا حصّہ ہیں جنہوں نے حکمران طبقات اور روایتی دانشوروں کو جھنجھوڑ کے رکھ دیا تھا۔ چوالیس برس قبل انہی ہفتوں اور مہینوں میں پاکستان ایک انقلابی طوفان کی لپیٹ میں تھا۔ راولپنڈی کے مضافات میں پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ کے ایک طالب علم کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے صرف ایک واقعے نے سطح کے نیچے پکتے ہوئے لاوے کو پھاڑ ڈالاتھا، مقدار معیار میں بدل گئی تھی۔ قیامِ پاکستان سے لے کر 65 برسوں میں، پاکستان کے محنت کش عوام کی تاریخ صرف 6نومبر 1968ء سے لے کر 25مارچ 1969ء کے دوران 139دنوں کی ہے جب شاہراہوں، فیکٹریوں،کھیتوں اور کھلیانوں میں عوام کا راج تھا۔ محنت کش طبقات اپنی تقدیر خوداپنے ہاتھوں سے بدلنے کے لیے تاریخ کے میدان میں آ چکے تھے۔ انقلاب جو کہ نوجوانوں اور طالب علموں کی جارحانہ تحریک سے شروع ہوا، بہت جلد محنت کش طبقے میں سرایت کر گیا۔ انقلاب کے ہراول دستے یعنی صنعتی پرولتاریہ کے تحریک کی قیادت سنبھالنے کے بعدانقلاب نے ایک فیصلہ کُن موڑ لیا اور ریاست اور نظام کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔فیکٹریوں، کارخانوں اور اداروں پر قبضے ہونے لگے، کسان پنچائتوں نے جاگیروں اور طلبا نے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں پر قبضہ کر لیا۔ خواتین جدوجہد میں پیش پیش تھیں۔تحریک جمہوری مطالبات سے تجاوز کرتے ہوئے بہت آگے بڑھ چکی تھی، عوام ہر قسم کے جنسی، نسلی، مذہبی اور علاقائی تعصبات کو مسترد کر کے طبقاتی جنگ کے میدان میں اُتر چکے تھے اور ملکیت کے رشتوں کو چیلنج کر رہے تھے۔ریاست تحلیل ہو کر فضا میں معلّق تھی۔ اقتدار عوام کے ہاتھوں میں تھا۔18 فروری 1969ء کی عام ہڑتال نے ریاست کومفلوج کر کے آمریت پر فیصلہ کُن وار کیا۔انقلاب کی قوت اور شدت کا اعتراف کرنے والا کوئی اورنہیں بلکہ پاکستان کی تاریخ کا سب سے مضبوط اور طاقتور حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان تھا۔ 25مارچ 1969ء کواقتدار سے علیحدہ ہوتے وقت اپنی آخری تقریر میں اس نے کہا’’انتظامی ادارے مفلوج ہو رہے ہیں۔ زیادہ تر سول افسران اپنی پوسٹیں چھوڑ چکے ہیں اور ریکارڈ جلا دیا گیاہے۔ عوم کے ہجوم اپنی مرضی سے گھیراؤ کر رہے ہیں، طاقت کے ذریعے اپنے مطالبات منوا رہے ہیں… ملک میں جاری ان حالات میں قومی اسمبلی کا اجلاس بلانا ممکن نہیں ہے۔ کچھ ممبران تو اجلاس میں آنے تک کی جرأت نہیں کر سکتے… حالات اب حکومت کے کنٹرول سے باہر ہو چکے ہیں… ملک کے تمام فیصلے سڑکوں پر کیے جا رہے ہیں‘‘۔ 1968-69ء کی تحریک کو انقلاب نہ ماننے والے شکایت کنندگان اور اصلاح پسندوں کے خلاف اس تقریر سے بڑی دلیل کیا ہو گی؟ سوشلسٹ انقلاب کی ناکامی کی وجہ عوام کی کوئی کوتا ہی نہیں تھی، وہ تو اسے حاصل کرنے لیے آخری حد تک چلے گئے تھے۔ انقلابی پارٹی اور مارکسی قیادت کے فقدان کی وجہ سے انقلاب منتشر ہو گیا اور اس کا رُخ پھیر دیا گیا۔ بائیں بازو کے بہت سے اہم گروپ اور تنظیمیں موجود تھیں لیکن نظریاتی کمزوریوں اور انقلابی کیفیت کے لیے تیا ر نہ ہونے کی وجہ سے یہ موقع ضائع کردیا گیا۔ آج ایک مرتبہ پھر ہمیں تحریک میں نسبتاً جمود اور طبقاتی جدوجہدکی کسی حد تک بے سمتی کا سامنا ہے۔ میڈیا، دانشور اور بالادست سیاستدان اپنے خوف کے تحت اس بحران اور بربادی کی حقیقی وجہ یعنی سرمایہ دارانہ نظام کے بارے میں بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی بھی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔روزگار،مفت علاج اور تعلیم تو بہت دُور کی بات ہے‘ یہ نظام عوام کو پینے کا صاف پانی اور مناسب خوراک فراہم کرنے سے بھی قاصر ہے۔سرمایہ دارانہ بنیادوں پرہونے والے انتخابات سے کوئی ’’تبدیلی‘‘ نہیں آسکتی اور نہ ہی کوئی مسئلہ حل ہو گا۔ جاگیر داری کا خاتمہ، جمہوریت، سیکولر ازم، انسانی حقوق، سماجی انصاف، صنفی مساوات اور قومی خودمختاری کے نعرے کوئی نئے نہیں‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سرمایہ داری کی موجودہ ناتواں کیفیت میں اس نظام کی حدود کے اندر رہتے ہوئے ان فرائض کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔ دوسری جانب محنت کش عوام روایت کا بار گراں اٹھائے ہوئے ہیں۔ ستم یہ ہے کہ ان کی روایت پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت سامراجی احکامات کی تعمیل میں سرمایہ دارانہ جبر کا آلہ کار بنی ہوئی ہے۔ دایاں بازو اور مذہبی جماعتیں اگر اقتدار میں آگئیں تو ان کی پالیسیاں عوام کے لیے اس سے بھی بڑا عذاب ثابت ہوں گی۔ نااُمیدی کے اس عالم میں عوام ممکنہ طور پرووٹ نہ ڈال کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرائیں گے۔ تاہم کسی عوامی تحریک اور متبادل کی عدم موجودگی میں ووٹ کاسٹ کرنے والے، انتخابات میں موجود لوگوں کو آزمائیں گے، لیکن جب بیلٹ کے ذریعے ہاتھوں سے ووٹ ڈال کر محنت کش عوام کو کچھ نہیں ملے گا تو پھر جلد ہی وہ اس وقتی نیند سے بیدار ہو کرلینن کے الفاظ میں اپنے پیروں سے ووٹ ڈالیں گے۔ طبقاتی جدوجہد کی ایک نئی لہر بھرپور قوت سے سامنے آئے گی۔ ایک نیا اور کہیں زیادہ پُرزور ’’1968-69ء‘‘ افق پر منڈلائے گا۔ مکمل سماجی و سیاسی تبدیلی کے لیے تیار،مستعد، منظم اورپر عزم موضوعی عنصر ہی اس انقلابی تحریک کی فتح کی ضمانت ہو گا۔