صدر اوباما کا اسرائیل اور ’فلسطینی علاقوں‘ کا پہلا دورہ خطے میں کشیدگی کو ختم کرانے کی خاطر امریکی سامراج کی منافقانہ اوربے ہودہ سفارتکاری کی ایک اور شدید ناکامی ہے ۔اس دورے نے اوباما کی شدید کمزوری کو بے نقاب کر کے رکھ دیا ہے جو صیہونی جارحیت پسندوں اور امریکی دائیں بازو کو خوش کرنے کے لیے بے شرمی کے ساتھ اپنی بات سے پیچھے ہٹتے ہوئے ان کے آگے جھک گیا۔وہ بار بار یہ کہتا رہا کہ امریکہ اسرائیل کا بہترین اتحادی ہے اور وہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے فلسطینی عوام کے خلاف جرائم کی حمایت جاری رکھے گا۔فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست اور قبضے کے خاتمے کے خواب کی تعبیر پہلے سے کہیں دور ہو چکی ہے۔ نمائش سے بھرپور انتہائی اعلیٰ سطح کے اس دورے میں ایک اور امریکی صدر وہی پرانا ناکام پیغام دے رہا تھاجو کئی حوالوں سے ظالم اسرائیلی ریاست کو جبر جاری رکھنے کا اجازت نامہ تھا۔ اوباما کی آمد سے قبل جلدی میں بنائی گئی اسرائیل کی نئی مخلوط حکومت بنیادی طور فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی آبادکاری کے حامیوں پر مشتمل ہے جو رجعتی حکمران اشرافیہ کی درندگی اور تکبر کی علامت ہے جو بڑے پیمانے پر زمین خالی کروانے، گرفتاریوں، غیر قانونی بستیوں کے شہری جنگل بنانے اور کئی نسلوں تک فلسطین پر قبضہ جاری رکھنے پر تلے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ، امریکی سامراج اور نام نہاد عالمی برادری کے منافقانہ اعلانات کے باوجوداسرائیلی حکومتیں مستقبل کی فلسطینی ریاست کے مرکز مغربی کنارے میں کافی اندر جا کر یہودی بستیاں تعمیر کرتی رہی ہیں کہ ان کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔اسرائیلی سرپرستی میں کام کرنے والی مغربی حمایت یافتہ فلسطینی اتھارٹی نے ’امن مذاکرات‘ کی بحالی کے لیے صرف ایک شرط عائد کی ہے کہ نئی یہودی بستیوں کی تعمیر روک دی جائے۔اوباما نے فلسطین کے برائے نام صدر محمود عباس کو غیر مشروط طو رپر امن مذاکرات بحال کرنے کو کہا ہے۔ اسرائیل میں16لاکھ ،مغربی کنارے میں26لاکھ اور غزہ کی پٹی میں رہنے والے 17لاکھ فلسطینی عملی طور پر صیہونی ریاست کے کنٹرول میں رہنے پر مجبور ہیں۔ انہیں راستوں میںرکاوٹیں، ناکہ بندیوں پر تذلیل، ٹیلی وژن چینلوں کی بندش، فلسطینی علاقوں کو چیرتی ہوئی کنکریٹ کی دیوار، پر تشدد گرفتاریوں اور نسلی امتیاز کا سامنا ہے جو فی الحقیقت جنوبی افریقہ میں1990ء میں ختم ہونے والی نسل پرستی سے بھی بد تر ہے۔1960ء اور1970ء کی دہائیاں فلسطین کی تحریکِ آزادی میں مسلح جدوجہد کا دور تھا‘ لیکن یہ طریقہ صیہونی ریاست کا خاتمہ کرنے میں ناکام ہو گیا۔اس ناکامی نے فلسطینی رہنمائوں کو اقوام متحدہ اور مغربی سامراج کے زیر ِ اثر ’ مذاکرات کے زریعے حل‘ کو قبول کرنے پر مجبور کر دیا۔1967ء کی مشرقِ وسطیٰ کی جنگ کے بعد کے46برسوں میں بے شمار امن معاہدے اور مذاکرات ہو چکے ہیں لیکن فلسطینیوں کی تکالیف میں کوئی کمی نہیں آئی۔ 22نومبر1967ء کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد نمبر242 منظور کی جس میں ’’اسرائیلی مسلح افواج کے حالیہ جھڑپوں کے دوران قبضہ کیے گئے علاقوں سے انخلا‘‘ کا مطالبہ کیا گیاتھا۔قریباً نصف صدی گزر جانے کے بعدانخلا کی بجائے مزید علاقوں پر قبضہ ہوچکا ہے۔اقوام متحدہ متعدد قرار دادیں منظورکر چکی ہے لیکن بدمعاش اسرائیلی ریاست ان پر عمل تو درکنار ان پر کان تک نہیں دھرتی۔اکتوبر1973ء کی جنگ کے بعد نومبر1977ء میں مصری صدر انور سادات اور اسرائیلی وزیر اعظم بیگن کے درمیان امریکی صدر جمی کارٹر کی سرپرستی میں کیمپ ڈیوڈ معاہدہ طے پایا۔فلسطین کے مسئلے کو نظر انداز کر دیا گیا۔1991ء کی میڈرڈ کانفرنس، 1993ء کا اوسلو معاہدہ،2000ء کے کیمپ ڈیوڈ مذاکرات، 2001ء میں بننے والا یورپی یونین ، امریکہ ، روس اور اقوام متحدہ پر مبنی چار فریقوں کے گروپ کا امن منصوبہ ،2002ء کا سعودی امن منصوبہ، 2003ء کا جنیوا معاہدہ، 2007ء میں سربراہ اجلاس اورسامراج اور اس کے اقوام ِ متحدہ جیسے بے وقعت اداروںکی کئی اور سفارتی کوششیں فلسطینی کاز کو ذرا سا بھی آگے بڑھانے میں مکمل طور پر اور بری طرح ناکام ہو چکی ہیں۔ اوباما ایک مربتہ پھر فلسطینی اور صیہونی لیڈروں کے درمیان امن مذاکرات کی بحالی پر زور دے رہے ہیں اور دو ریاستوں پر مبنی حل کا گھِسا پِٹا اور بے کار حل پیش کیا جا رہا ہے۔ اگر فلسطینیوں کو ایک ’آزاد‘ ریاست دے بھی دی جائے تو یہ کٹی ہوئی اور ٹوٹی ہوئی ریاست ہو گی اور اسرائیلی ریاست کی معاشی اور عسکری قوت کے سائے تلے اس کا اقتدار اور حاکمیت کسی میونسپل ادارے سے زیادہ نہ ہو گی۔دائیں بازو سے تعلق رکھنے والا ا سرائیل کا موجودہ وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو دو ریاستوں پر مبنی حل کے بارے میں قطعاً پر جوش نہیں۔ اس کا اصرار ہے کہ اسرائیل کو وادیِ اردن پر لازمی کنٹرول کرنا چاہیے اور اس کے ساتھ فلسطینیوں کی فضائی حدود پر بھی جس کی بدولت وہ در حقیقت اسرائیل کی قید میں ہوں گے۔نیتن یاہو کے پیش رو اہود اولمرٹ نے حال ہی میں کہا کہ’’نیتن یاہو نے کبھی کھل کر دو ریاستوں پر مبنی حل کی حمایت نہیں کی‘‘۔ تباہ کن معاشی بحران ، افغانستان اور عراق میں فوجی شکستوں اور ایران، لاطینی امریکہ اور چین وغیرہ میں سفارتی ناکامیوں کے بعد امریکی سامراج ٹراٹسکی کے الفاظ میں’’مٹی کے پیروں والا دیو‘‘ ہے۔اسرائیل کے جارحیت پسند حکمران اس حقیقت کو سمجھتے ہیں اور اوباما کی جانب ان کا رویہ اس کا اظہار ہے۔ جہاں فلسطینی عوام اسرائیل کے مظالم سہ رہے ہیں وہیں رجعتی عرب بادشاہوں ، آمروں اور بے پناہ دولت مند شیخوںنے بھی ان سے غداری اور تذلیل کی۔ داخلی مخالفتوں کو کچلنے کے لیے ان کو بیرونی حیلے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے قائدین مغربی اور اسرائیلی سامراج کے ساتھ ساز باز میں ملوث ہیں اور کرپشن میں ڈوب کر بے پناہ دولت مند ہو چکے ہیں۔2011ء کے موسم بہار میں شروع ہونے والے عرب انقلابات کی لہر کے دوران اور اس کے بعد اس حکومت کے خلاف کئی لڑاکا اور غصے سے بھرپور مظاہرے کیے گئے۔ غزہ17لاکھ کی آبادی کے لیے ایک قید خانہ ہے۔ اگر حسنی مبارک ظالم تھا تو مرسی اس سے بھی زیادہ بے رحم ثابت ہوا ہے۔9مارچ کو اکانومسٹ لکھتا ہے: ’’مصری حکومت نے حال ہی میں غیر معمولی طور پر سخت ا قدام اٹھاتے ہوئے مصری سرحد پر واقع زیر زمین سرنگوں سے غزہ کو اشیا کے نقل و حمل روک دی۔ جنوری کے اواخر میں مصری فوج کے انجینئروں نے ان سرنگوں میں گندا پانی چھوڑ دیا اور ان میں سے درجنوں کو منہدم کر دیا… اسرائیل کے پٹھو ہونے کے الزامات کو رد کرنے کی کوشش میں حماس کے کچھ قائدین مزید سخت مذہبی زبان استعمال کر رہے ہیں… تیونس کی طرز پر ایک بغاوت کو ابھارنے کی کوشش میں غزہ میں کچھ لوگوں نے خود سوزی کی ہے۔حالیہ مظاہر ہ جس میں مرد اور خواتین آزادانہ گھل مل رہے تھے، غزہ کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہر تھا۔‘‘ دو ریاستوں پر مبنی حل فلسطینیوں پر ظالمانہ اور مجرمانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ایک پردہ ہے۔اسرائیلی ریاست اور سامراج کے ہاتھوں تخلیق اور پلنے وا لی سا مراجی حمایت یافتہ مطلق العنان عرب حکومتیں اور بادشاہتیںکبھی بھی ایک فلسطینی ریاست کو قائم نہیں ہونے دیں گی۔ یہ مکمل طور پر ایک خواب و خیال ہے۔قاہرہ، تیونس، عمان، بحرین، یروشلم اور حیفہ کی سڑکوں پر نظر آنے والی طاقت نے رجعتی اسرائیلی ریاست اور خطے میں موجود دیگر جابر حکومتوں کا تختہ الٹنے کا ایک اور راستہ دکھایا ہے۔اسرائیل کی آبادی کا دس فیصد سے زیادہ حصہ سماجی و معاشی تبدیلی کے لیے سڑکوں پر تھا۔یروشلم سے لے کر واشنگٹن تک اقتدار کے ایوان لرز گئے تھے۔ اسرائیلی محنت کشوں اور نوجوانوں کی عرب بہار میں بڑے پیمانے کی شرکت نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطین کی قومی آزادی کا راستہ اسرائیل میں طبقاتی جدوجہد سے ہو کر گزرتا ہے۔