دہشت گردی کی درندگی ہو یا مہنگائی غربت اور بیروزگاری کی اذیت ، نا خواندگی اور لاعلاجی کا ظلم ہو یا ریاستی جبر میں معصوم انسانوں کے جسموں کے بے حرمت لاشے ویرانوں میں پھینکے جا رہے ہوں، یا پھر بجلی، پانی اور سینی ٹیشن کی اذیت ناک کیفیت ہو ۔ پاکستان کی وسیع تر آبادی جن عذابوں کا شکار ہے اس سے ان کی زندگی ایک جبر مسلسل کی سزا بن چکی ہے۔ فوجی آمریتیں وحشت کا سامان کرکے، ناکامی اور نامرادی کا شکار ہو کر ماضی کا ایک بھیانک باب بن گئی ہیں۔ معیشت دیوالیہ ہے، ریاست بے بس ، لاچار ، بے نیاز اور سماج سے بیگانہ ہو چکی ہے۔ثقافت کا زوال قدروں، رویوں، اخلاقیات اور رشتوں کی آسودگی کی بجائے تلخیوں، حسداور منافرتوں کا ایک عذاب بن چکا ہے۔ صحافت اور دانش شرمناک حد تک گر گئے ہیں۔ کہیں خوشی کا کوئی پیام ،کوئی خبر نہیں ہے۔ اس نظام میں بہتری کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ایک بھگدڑ، ایک کہرام ہے، ایک بے ہودہ دوڑ ہے ۔ پیسے کے لئے، طاقت کے لئے، مفادات کے لئے۔ ہر کوئی اس دوڑ میں دوسروں کو روندتے ہوئے اکیلے ہی بھاگتا چلا جارہا ہے۔ دولت ، جائیداد اور لوٹ مار میں اضافے کے علاوہ کوئی مقصد نہیں رہ گیا۔ نوجوان کسی مستقبل کی آس سے محروم ہیں۔ مزدور استحصال کی شدت سے کراہ رہے ہیں۔ محنت کش عوام افسردگی، اکتاہٹ ، تعفن اور پراگندگی کے جبر میں اپنی روح اور احساس، جسموں اور زندگیوں سے بیزار ہیں۔ سیاست نظریات سے عاری ہو چکی ہے۔ ضمیر، افکار اور شعور کی ایسی تنزلی پسماندہ ترین معاشروں میں بھی اس سے پہلے دیکھنے کو نہیں ملی تھی،جہاں ہزاروں بچے بھوک اور غذائیت کی قلت سے مرتے ہیں، جہاں بزرگ قابل علاج بیماریوں سے بھی جاں بحق ہو جاتے ہیں، جہاں خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں سکینڈلوں کی شکل میں کمائی کا ذریعہ بنتی ہیں۔جہاں انسانی بربادیاں این جی اوز کے لئے منافع بخش کاروبار بن جاتی ہیں، جہاں سڑکوں پر پڑی لاشوں اور مرتے انسانوں کے بہتے لہو سے نظریں چرا کر انسان اس نفسا نفسی کی دوڑ میں اتنے آگے بڑھ جاتے ہیں، جہاں گھائل انسانی جسم روح کو لرزانے میں بھی ناکام ہو جاتے ہیں۔ بلکتے ہوئے بچوں اور مرتے ہوئے بزرگوں کی آہیں معاشرے کے شعور اور ضمیر کو جھنجوڑنا چھوڑ دیتی ہیں۔ ایسے سماج میں جہاں جھوٹ سچ بن جائے، غداری قابلِ ستائش قرار پائے، بدعنوانی دیانت داری بن جائے، فریب اور دھوکہ دہی سیاست کے بنیادی اصول اور کامیابی کے راستے بن جائیں۔۔۔ ایسے معاشرے انسانی سماج کہلانے کے بھی مستحق نہیں رہتے۔ آج یہاں ہر طرف درندگی کا دور دورہ ہے۔ سامراج کی جارحیت ہو یا بنیاد پرستی کی بربریت ، دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، لیکن یہ سکہ روپیہ نہیں بلکہ ڈالر ہے اور سارا کھیل اسی سکے کے گرد کھیلا جارہا ہے۔ یہی سکہ سیاست اور معیشت کی رائج الوقت کرنسی بن گیا ہے۔ بدعنوانی ، کرپشن اور لوٹ مار ہی آج کی سیاست کے نظریات ہیں۔جہاں ریاست اور فوج کا جبر تھا وہاں پچھلے پانچ سالوں میں اس مالیاتی سرمائے کے سہارے سماج پر براجماں اشرافیہ نے انسان کو کچل کر جمہوریت کے نام پر جو بربادی برپا کی ہے ، اس کا درد، اس کی تکلیف اور اذیت کیا کم ہے؟یہ استحصالی ریاستی اور سیاسی نظام وہ نیم مردہ جسم ہے جسے سامراجی قرضوں کی نحیف ڈرپ لگا کرمصنوعی طور پر زندہ رکھا گیا ہے اور اس کی حرکت قلب کو صرف اسی حد تک جاری رکھا جا رہا ہے کہ یہ اس سامراجی استحصال اورسامراج کے مقامی گماشتوں کے کمیشنوں کے سلسلے کو جاری رکھ سکے۔یہاں کی ریاستی، صحافتی اور سیاسی اشرافیہ کمیشن بنانے میں ہی مصروف ہے۔اس سے بڑھ کر ان کا کوئی نظریہ، کوئی مقصد نہیں ہے۔آج تمام پارٹیوں کے منشور ایک سے ہیں، معاشی پروگرام ایک ہیں۔ یہ سب اس بوسیدہ اور انسانی بربادی کے سرمایہ دارانہ نظام کو قائم اور جاری رکھنا چاہتے ہیں۔دوسری طرف عوام غربت کی اندھی کھائی میں گرتے چلے جارہے ہیں۔وہ ایک صدمے‘ ایک مجروح پن کا شکار ہیں۔حکمرانوں کی اذیت ناک بے رخی عوام کے اندر سلگتی ہوئی آگ کو اور بھڑکا رہی ہے۔ یہ حکمران شاید زخموں سے گھائل عوام کی بیگانگی اور خاموشی کو حتمی اور ابدی سمجھ بیٹھے ہیں۔ لیکن جس معاشر ے میں اتنا دکھ، اتنی محرومی اور اتنے عذاب ہوں وہاں کوئی استحکام نہیں آسکتا۔فی الحال حکمران اس خلفشار اور محنت کش عوام کی خود رو اور بکھری ہوئی تحریکوں سے زیادہ خوفزدہ نہیں ہیں کیونکہ وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ بھاپ نکلتی رہے گی اور لاوا پھٹے گا نہیں ، یہ منتشر تحریکیں اور ہڑتالیں ان کے کنٹرول میں رہیں گی۔ آپس میں لڑا کر نان ایشوز کے گرد محنت کشوں کو متذبذب اور بد گمان کرتے رہیں گے۔ ’قومی سلامتی‘ اور حب الوطنی کے رجحانات اور جذبات کو ابھار کر انہیں بے وقوف بناتے رہیں گے۔ جس کے پیٹ میں روٹی نہ ہو اس کی سالمیت کیسی؟جن کے بچے بھوکے مر جائیں، ذلت اور بربادی جن کا مقدر بن جائے، یہ وطن اور یہ ایٹم بم اس کے کس کام کا؟اتنی سفاکی اور اتنی ذلت کب تک چل سکے گی؟ حکمران طبقات کے ’دانشور‘ ان نام نہاد انتخابات کو عوام کی امیدوں کا مرکز بنانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن 11مئی کے انتخابات کے بعد کچھ نہیں بدلنے والا۔اربوں روپے کے اشتہاروں اور انتخابی مہم میں سرمایہ کاری کر کے الیکشن کی اس سٹہ بازی میں جیتنے والے کھربوں روپے کمائیں گے۔غربت، مہنگائی اور محرومی مزید شدت اختیار کرے گی۔ لیکن محنت کش عوام بھی آخر انسان ہیں! نسل انسانی میں سب سے بڑی حس ، حس بقاء ہوتی ہے۔موجودہ نظام اور اس کا بحران جس بربریت کی اندھی کھائی میں اس معاشرے کو غرق کرنے کی جانب جارہا ہے اس کے رد عمل میں اس کو بغاوت اورانقلاب کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ اندھیرا زیادہ دیر نہیں رہے گا۔محنت کش ابھریں گے ، تحریک پھیلے گی، یہ تاریخ کا قانون ہے۔ مسئلہ تحریک کے ابھرنے کا نہیں بلکہ اس کی تیاری کا ہے۔ وقت شاید کم ہے لیکن اس تحریک کی رہنمائی کے لئے ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر بھی لازم اور فیصلہ کن ہے۔