قدیم روم کا غلام دارانہ سماجی واقتصادی نظام دم توڑنے لگا تو معاشرہ شدید اضطراب، بے چینی اور خلفشار کا شکار ہوگیا۔ نتیجتاً سماج کے اوپر مسلط شہنشاہوں کو نیچے سے بغاوت کا خطرہ لاحق ہوا۔ اس جھنجلاہٹ میں ان رومن شہنشاہوں نے افریقہ سے اناج درآمد کرنے کی بجائے شیر منگوانے شروع کردیئے اور روم کے کلازیم (شہر کے سب سے بڑے سٹیڈیم وتھیٹر) میںان کو غلاموں پر چھوڑ کر خونریزی کا ایک ہولناک تماشا شروع کروایا گیا۔ غذائی قلت اور محرومیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے عوام کو ان وحشت ناک تماشوں میںذہنی طور پر غرق کرنے کاکھیل شروع کردیا گیا، لیکن یہ گھنائونا کھلواڑ بھی زیادہ دیر چل نہیںسکا اور ناگزیر طور پرسلطنت روم کا انہدام ہو کر رہا۔ پاکستان میںجنرل ضیاء الحق کی آمریت میںبھی ظلم ودرندگی کا ایسا ہی بازار گرم ہو اتھا جب ملک بھر میںلگنے والی ٹکٹکیوں پر نوجوانوں اور محنت کشوں کو باندھ کر کوڑے برسائے گئے، بائیں بازو کے سینکڑوں انقلابیوں کو اس نظام کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکا دیا گیا۔ہزاروں کو ملک کے طول وعرض میںپھیلی ہوئی اذیت گاہوںمیں پابند سلاسل کردیا گیا۔ اس تاریک عہد میں روم کلازیم کے تماشوں کی طرح مذہب کے ساتھ ساتھ کرکٹ کے تماشے کو حب الوطنی کے جذبات ابھارنے اور حقیقی سماجی تضادات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے بے دریغ استعمال کیا گیا۔ روم کے شہنشاہوں کی طرح ضیاء الحق کا بھی عبرتناک انجام ہوا ۔ اس کے بعد 25 سالوں میں حکمرانوں کا یہ کھلواڑ جمہوری اور آمریتی ادوار میں مسلسل جاری رہا، گو اس کی نوعیت اور واردات کے طریقے بدلتے رہے۔ نان ایشوز کا ایک لامتناہی سلسلہ زور وشور سے جاری رہا جس میںفنکار بدلتے رہے لیکن کھیل کا مقصد صرف عوام کے سلگتے ہوئے مسائل سے ان کی توجہ لایعنی ایشوز کی جانب مبذول کروا کے ظلم، استحصال اور حکمرانوں کی لوٹ مار کا سلسلہ جاری رکھناتھا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اورحالیہ ڈرامہ مشرف کی واپسی کے گرد تخلیق کیا جارہا ہے۔ سیاست دان، میڈیا اور سرکاری دانشور اس میں مشغول بھی ہیں اور خوش بھی۔ کیونکہ آج کی مسلط سیاست کے پاس عوام کے مسائل کا نہ کوئی حل ہے اور نہ ہی سرمایہ دارانہ نظام میں ایسا ممکن ہے۔یہاں بنیادی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ محلاتی سازشوں کا معمہ بنا کہ مشرف کو واپس کون لایا اور وہ کیوںآیا؟ معاملہ کوئی اتنا پیچیدہ بھی نہیںہے۔ فوجی یا سویلین حکمرانوں کوجتنا عظیم اور ذہین بناکر پیش کیا جاتاہے وہ عموماً اتنے ہی کند ذہن اور عقل وفہم سے عاری ہوتے ہیں۔ مشرف کی سوچ پہلے ہی کسی اور جنم میں رکی ہوئی تھی، پھر اس کو ’’فیس بک‘‘ اور ’’سوشل میڈیا‘‘ میں مقبولیت کا زعم لے ڈوبا۔ مشرف کے دور میں ہونے والی تیز اور بڑی شرح نمو سے ’’ملک‘‘ نے تو ترقی کی لیکن اس کے باسیوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری، کوئی آسانی پیدا نہیں ہوئی کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام میں ’’ترقی ‘‘کا مطلب بالادست طبقات کی دولت میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔ اس نظام میں معاشی شرح نمو میں اضافے سے امارت اور غربت کی لکیر مزید گہری اور محنت کش عوام کی حالت بدتر ہوجاتی ہے ۔ مشرف دور میں بھی یہی ہوا۔مڈل کلاس کی ایک مخصوص اقلیتی پرت کے علاوہ پاکستان کے استحصال زدہ عوام میں اسے کبھی مقبولیت نہیں ملی۔ آج جمہوریت، آمریت اور آزاد عدلیہ کے جو نعرے لگائے جارہے ہیں وہ لوٹ مار میں حصہ داری پر حکمران طبقات کی باہمی چپقلشوں کا اظہار ہے۔ آمریتوںکے آسیب سے جن عوام کو دھمکایا جارہا ہے انہوں نے جمہوریتوں میں بھی محرومی اور ذلت ہی برداشت کی ہے۔ تاہم وہ لوگ جنہوںنے ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کی آمریتوں کو دیکھا اور برداشت کیا ہے وہ بہت بہتر سمجھتے ہیں کہ ا ن میں کیا فرق تھا۔ ضیاء الحق نے اسلامی بنیاد پرستی کے ذریعے ستم ڈھائے اورامریکی سامراج کی پشت پناہی سے سرمایہ دارانہ نظام کے مفادات کو تقویت دیتے ہوئے اس کے استحصال کو مزید المناک بنا کر رکھ دیا ۔ لیکن افغان ڈالر جہاد کے بعد کالے دھن کی سرائیت اور براہِ راست حکمرانی نے فوج کو اندر سے تضادات کا شکار کیا ۔ مشرف آمریت کی جمہوریت میں تحریک انصاف سمیت آج کی سیاست پر حاوی تمام سیاسی پارٹیاں شریک تھیںاور آمریتی جمہوریت کی مراعات سے ان سیاسی نمائندوں نے خوب مال بھی بنایا۔ اگر پچھلی حکومت نے5 سالوں میں عوام کا حشر کیا ہے تو موجودہ دائیں بازو کی پارٹیوں کے پاس بھی عوام کو اس اذیت ناک کیفیت سے نکالنے کا کوئی لائحہ عمل، طریقہ کار اور پروگرام نہیں ہے کیونکہ موجود ہ سماجی ومعاشی نظام مسلسل تنزلی کے عمل میں گرتا ہی چلا جارہا ہے اور عوام بد سے بد تر عذابوں میں گھرتے چلے جارہے ہیں۔ سرمایہ داری کا مزید شدت پکڑتا ہوا بحران محنت کش طبقات کی زندگیوں کو سہل بنانے کی بجائے مزید اذیت ناک ہی کرتاجائے گا۔ یہ درست ہے کہ سرمایہ دارانہ جمہوریت اپنی تمام تر حدود و قیود کے باوجود آمریت سے بہتر طریقہ حکمرانی ہے لیکن کسی نظام کو چلانے کا کوئی بھی طریقہ تب ہی کارگر ہو سکتا ہے جب نظام خود چلنے کے قابل ہو۔کوئی بھی نظام عوام کی زندگیاں تب ہی سہل بنا سکتا ہے جب یہ پیداواری قوتوں کو ترقی دینے کے قابل ہو اور وسائل کو آبادی کے وسیع تر حصے کے لئے بروئے کارلانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔سرمایہ دارانہ نظام یہ صلاحیت بہت عرصہ پہلے کھو چکا ہے۔ لینن نے سرمایہ دارانہ جمہوریت کی ان الفاظ میں تشریح کی تھی: ’’اگر ہم عام سوچ اور تاریخ کا مذاق نہیں اڑا رہے تویہ بات یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمیں طبقات کی موجودگی میں’’خالص جمہوریت ‘‘کا کہیں بھی نام ونشان نہیںملے گا۔ہاں البتہ ہم طبقاتی جمہوریت کی بات ضرور کر سکتے ہیں۔ ’’خالص جمہوریت‘‘ محنت کشوں کو بے وقوف بنانے کے لیے کسی لبر ل کا کاذب اور مکارانہ فقرہ ہے۔بلاشبہ سرمایہ دارانہ جمہوریت قرون وسطیٰ کے مقابلے میں ایک جدید تصور ہے مگر یہ سرمایہ داری کے زیر اثر ہمیشہ محدود، اپاہج، تنگ نظر،جھوٹی اورمنافقانہ ہے ۔یہ امیروں کیلئے تو ایک جنت ہے لیکن محنت کشوں اور غریبوں کے لیے ایک پھندہ، ایک لعنت اور ایک دھوکہ ہوتی ہے‘‘۔ جب تک اس سماج میں دولت کی بنیاد پر حاصل عزت ، مرتبت،حیثیت اور اہمیت کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک عوام کی جمہوریت کا ظہور ممکن نہیں۔ معاشرے اور سیاست میں مالیاتی سرمائے کی آمریت کاخاتمہ کرکے ہی حقیقی معاشی، سماجی، قومی، ثقافتی اور جمہوری آزادی حاصل ہوسکتی ہے۔ سرمائے کی آمریت کا خاتمہ خود سرمایہ داری کے خاتمے سے مشروط ہے۔