حالیہ انتخابات میں نواز لیگ کی فتح اور اسے ملنے والی اکثریت کا شُہرہ ہے، لیکن محنت کش طبقے اور محروم عوام کے سلگتے ہوئے مسائل کا ان انتخابات اور ان کے نتائج سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انتخابات کے نتائج ماضی کی طرح خفیہ ہاتھوں نے اپنی مرضی سے تیار کیے ہیں۔ خود مریم نواز نے اعتراف کیا ہے کہ ’’نتائج ہماری توقعات سے کہیں بڑھ کر ہیں‘‘۔ نواز شریف قومی مفادات کی نمائندگی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حکمران جن ’قومی مفادات‘‘ کا ڈھنڈوراپیٹتے ہیں وہ دراصل حکمران طبقے کے مفادات ہوتے ہیں جن پر وطن پرستی کالبادہ اوڑھا جاتا ہے۔ سماج میں جمود کی معروضی کیفیت اور اس کے نتیجے میں عوامی شعور میں نسبتاً پسپائی کو مد نظر رکھا جائے تو انتخابات کے نتائج زیادہ حیران کن نہیں ہیں۔سیاسی میدان میں موجود اشرافیہ کی اکثریت اس وقت کی سماجی، اخلاقی، معاشی اور ثقافتی تنزلی کی مجسم تصویر ہیں۔ فرانس میں1848ء کے صدارتی انتخابات میں لوئی بوناپارٹ کی غیر معمولی کامیابی پر کارل مارکس نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا: ’’فرانسیسیوں نے اتنی بڑی تعداد میں اس غیر ذمہ دار، احمق، بے ڈھنگے مفکر، دغا باز بھولے، جہالت میں عالی مقام، حساب کتاب میں مگن توہم پرست، ماضی کی چالاک اور بیوقوفانہ یادگار اور تاریخ ساز مسخرے کو اتنی بڑی تعداد میں ووٹ کیوں دیے؟ جواب بہت آسان ہے۔لوئی بوناپارٹ کے نابلد ہونے کی وجہ سے تمام طبقات کے لوگ اس میں اپنا اپنا عکس تلاش کررہے ہیں… چنانچہ فرانس میں سب سے سادہ لوح انسان سب سے پیچیدہ اہمیت کا حامل ہو گیا ہے‘‘۔ کارل مارکس کے یہ الفاظ165سال بعد پاکستان میں ہونے والے انتخابات اور ان کے نتائج کے بارے میں بھی درست معلوم ہوتے ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق قبائلی علاقوں سے منتخب قومی اسمبلی کے چھ ارکان کو بھی مسلم لیگ (ن) میں شامل کروادیا گیا ہے۔ حلقہ این اے41(وانا، جنوبی وزیرستان) سے سوشلزم کے نعرے پر الیکشن لڑنے والے آزاد امیدوار علی وزیر کی فتح دوبارہ ہونے والی پولنگ میں محض200ووٹوں کے فرق سے شکست میں تبدیل ہو گئی۔ اس سے پہلے 11مئی کو علی وزیر کی فتح کی خبریں تقریباً ہر بڑے ٹی وی چینل نے نشر کی تھیں۔ لیکن علی وزیر نے اس پسماندہ علاقے کے نوجوانوں کو جدید ترین انقلابی نظریات کے گرد متحرک کر دیا ہے اور علاقے میں عوامی بنیادیں حاصل کر لی ہیں، یہ حکمرانوں کے لئے کوئی نیک شگون نہیں ہے۔ شریف خاندان، ضیاء الحق کے دور میں پنجاب کے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور گورنر ، جنرل جیلانی کے توسط سے سیاست کے میدان میں داخل ہوا۔ 1970ء کی دہائی کے اوائل میں اس کے کاروبار کوذوالفقار علی بھٹو نے قومی تحویل میں لے لیا تھا۔ بعد میں ضیاء الحق کی مارشل لاء حکومت نے قومی تحویل میں لئے گئے دوسرے اداروں کی طرح شریف برادران کی فائونڈری بھی انہیں واپس کر دی۔ یہ وہی سیاہ عہد تھا جب آمرانہ حکومت مجبور طبقات ، پاکستان پیپلز پارٹی اور بائیں بازو کے کارکنان پر مظالم ڈھا رہی تھی۔ضیاء کی جابر حکومت کے خاتمے کے بعد بھی شریف خاندان سیاسی میدان میں موجود رہا جس کی بنیادی وجہ1988ء میں بے نظیر حکومت کی جانب سے پیپلز پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ منشور سے انحراف ، ریاست سے مصالحت اور نیو لبرل معاشی پالیسیوں کا نفاذ تھا۔ ان پالیسیوں کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی نیشنلائیزیشن کی پالیسی کو واپس لیتے ہوئے مسلم کمرشل بینک اور دیگر ریاستی اداروں کو کوڑیوں کے بھائو بیچ دیا گیا۔ان پالیسیوں کے نتیجے میں عوام میں پھیلنے والی مایوسی سے دائیں بازو کو اقتدار میں لوٹنے کا موقع مل گیا۔نواز شریف دائیں بازو کی سیاست کے بڑے لیڈر بن گئے۔ ان کے تیسری بار برسر اقتدار آنے کی بنیادی وجہ بھی پیپلز پارٹی کی قیادت کا نظریاتی اور سیاسی دیوالیہ پن ہے۔ موجودہ عہد میں میڈیا، اسٹیبلشمنٹ، چینی کارپوریٹ اشرافیہ، مشرق وسطیٰ کی بادشاہتوں اور امارتوں کی پشت پناہی کے باوجومسلم لیگ (ن)کی حکومت کے مستحکم ہونے کے امکانات بہت کم ہیں۔ ماضی میں دوبارنواز شریف کی حکومت کو برخاست کیا جا چکا ہے۔1993ء اور پھر 1999ء میں نواز شریف کی حکومتوں کو ہٹانے جانے کی وجہ معاشی بحران اور ریاست کے مختلف حصوں کے باہمی تنازعات تھے۔اس مرتبہ صورتحال پہلے سے بھی ابتر ہے۔ایک طرف معیشت زبوں حال ہے تو دوسری طرف پاکستانی ریاست کے مختلف حصوں اور سامراج کی پشت پناہی میں متعدد دہشت گرد گروہوں کے درمیان خونریز تصادم جاری ہے۔ عمران خان اور نواز شریف طالبان سے مذکرات کی بات کررہے ہیں لیکن ’طالبان‘ کوئی یکجا اکائی نہیں ہیں۔ کئی دھڑوں میں منقسم اور نہ ختم ہونے والی اندرونی لڑائیوں میں مصروف بنیاد پرست تنظیموں کی کوئی متحدہ قیادت یا نمائندگی نہیں ہے۔یہ متحارب گروپ کالے دھن میں زیادہ سے زیادہ حصہ بٹورنے کے لیے ریاست کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے بھی بر سرِ پیکار رہتے ہیں۔میاں صاحب سامراجی ڈرون حملوں پر بات کرنے سے بھی کتراتے ہیں کیونکہ انہیں اپنی بے بسی کا اندازہ ہے۔ الیکشن مہم کے دوران کئے گئے وعدوں کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔کچھ دن پہلے نواز شریف نے خود کہا ہے کہ ’’ہم قرضے اُتاریں یا لوڈ شیڈنگ ختم کریں؟ خزانہ خالی ہے۔‘‘مسلم لیگ (ن) معیشت کو بحال کرنے کی بات کرتو رہی ہے لیکن ان کے معاشی ماہرین کے پاس تیزی سے ڈوبتی اور بکھرتی اس معیشت کو ٹھیک کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں۔انہیں صرف بڑے پیمانے کی اقتصادیات ecnomics) (Macro میں استحکام کی فکر ہے جبکہ سماجی و معاشی بحران سے برباد ہوتے کروڑوں انسانوں کی تکلیف کی کوئی پروا نہیں۔یہ ملک دراصل سرکاری معیشت کے بل بوتے پر چل ہی نہیں رہا۔غیر سرکاری اور کالی معیشت کا حجم پاکستان کی سرکاری معیشت کا تین گنا ہے ۔ روس اور برازیل کے بعد یہ دنیا کی تیسری بڑی کالی معیشت ہے۔ سرکاری معیشت کی 2فیصد شرح نموکی نسبت 9فیصد شرح نموسے پھیلنے والی غیر سرکاری (کالی ) معیشت ٹیکس اور دوسری پابندیوں سے آزاد ہے۔اگر نواز شریف نے سرمایہ دارانہ معیشت کو بربادی سے بچانے کے لئے سرمایہ داروں پر ٹیکس لگانے جیسے اقدامات کیے تو وہ دولت اور اثاثے ملک سے باہر لے جانے میں دیر نہیں کریں گے۔ اسی طرح سعودیہ سے تیل کے حصول میںچھوٹ یا چین کی ’’امداد‘‘ سے بھی اتنا گہر ا معاشی گھائو بھر نہیںسکتا۔ آئی ایم ایف اور امریکی سامراج جن معاشی’’اصلاحات‘‘ کی شرائط پر قرضے دے کر خساروں کو سنبھالادینے کی کوشش کریںگے اس سے مہنگائی، غربت اور بیروزگاری مزید بڑھے گی۔ ہندوستان کے ساتھ زہر آلود تعلقات میں بہتری کے متعلق نواز شریف کو اندازہ ہے فوجی حکام ِ بالا،سامراجی اسلحہ کی صنعت اور اس تنازعہ سے مفادات پانے والی دوسری لابیاں بہت مضبوط ہیں۔ زیادہ سے زیادہ سطحی قسم کے کچھ اقدامات کا اعلان کیا جائے گا جبکہ ہندوستان پاکستان تعلقات کی بنیادی حقیقتیں جوں کی توں رہیں گی۔دونوں ریاستیںنہ تو جنگ لڑنے کا خطرہ مول لے سکتی ہیں اور نہ ہی پائیدار امن قائم کر سکتی ہیں۔ من موہن سنگھ اور نواز شریف دونوںنیو لبرل پالیسیوں کے پیروکار ہیںاور ان کی ترجیح اپنے ممالک کی بورژوازی کے منافعوں میں اضافہ ہے جن کے وہ نمائندہ ہیں۔دونوں ملکوں کے درمیان تجارت میں اضافے کے ذریعے معاشی شرح نمو میں اضافے کی کوشش کی جائے گی، اگرچہ کامیابی کی توقعات بہت کم ہیں۔ نواز شریف اس وقت برسر اقتدار آ رہے ہیں جب معیشت لمبے عرصے سے تباہ حالی کا شکار ہے جبکہ سماج تکلیف، بربادی اور بے اطمینانی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ سماجی و معاشی حالات کہیں ابتر ہو چکے ہیں اور سطح کے نیچے ایک بغاوت سلگ رہی ہے۔دائیں بازو کی معاشی اصلاحات پہلے ہی سے مفلوک الحال اور محروم عوام کی مفلسی میںمزید اضافے کا باعث بنیں گی۔اس کے جواب میں غیر معمولی پیمانے کی طبقاتی بغاوت بھی پھٹ سکتی ہے۔یہ سرمایہ دارانہ نظام اور ان طبقات کے لیے موت کا پروانہ بھی بن سکتی ہے۔