"DLK" (space) message & send to 7575

ترکی: انقلاب کی پہلی لہر

بّرِاعظم یورپ اور ایشیا کو ملانے والا ترکی کا شہر استنبول 2جون کی صبح خاموش تھا۔رات طوفانی واقعات سے بھرپور گزری تھی۔شہری اپنی مدد آپ کے تحت مظاہروں کا ملبہ اور بکھرا ہوا کوڑا کرکٹ صاف کررہے تھے۔ایسا لگ رہا تھا کہ رات کا عوامی طوفان ٹل گیا ہے۔اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے حکمران بھی سمجھنے لگے کہ ان کا بھیانک سپنا ختم ہو رہا ہے ،لیکن جوں جوں اتوار کا دن ڈھلنے لگااستنبول کے تقسیم اسکوائر پر مجمع بڑھنے لگا، شام تک لاکھوں مظاہرین ایک بار پھر اسلامی جمہوری حکومت (جسے وہ آمریت گردانتے ہیں)کے خاتمے تک جدوجہد جاری رکھنے کا اعادہ کر رہے تھے۔دو دن پہلے ترکی کی فضائوں میں بلند ہونے والے انقلابی نعروں سے تقسیم اسکوائر ایک بار پھر گونج رہا تھا ۔ہر طرف سرخ پرچم بلند تھے۔مظاہرین ’’حکومت مستعفی ہو جائے‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے بات کرتے ہوئے احتجاج میں شریک ایک نوجوان نے کہا ’’ہم آخر وقت تک یہیں رہیں گے۔ہم کہیں نہیں جارہے۔حکومت کے گرنے تک احتجاج جاری رہے گا۔ ہم حکومت کے مسلسل دبائو سے اکتا چکے ہیں۔‘‘ استنبول کی طرح انقرہ کے مرکزی چوراہے کیزیلے اسکوائر میں بھی اتوار کی دوپہر تک ہزاروں شہری جمع ہو چکے تھے جو انقلابی ترانے گا رہے تھے۔جب غصے سے بپھرے ہوئے اس ہجوم نے وزیراعظم اردگان کے دفتر کی جانب بڑھنے کی کوشش کی تو پولیس نے ان پر آنسو گیس کے شیلوں کی بوچھاڑ شروع کر دی۔استنبول اور انقرہ سمیت ترکی کے کئی دوسرے شہروں میں مظاہرے تا وقت تحریر جاری ہیںجن میں شدت آتی جارہی ہے اور یوں محسوس ہو رہا ہے کہ اس عوامی تحریک کے جلد ٹھنڈا پڑنے کے امکانات کم ہیں۔ ان احتجاجی مظاہروں میں ہزاروں نوجوانوں اور محنت کشوں کی شرکت معاشرے میں شدید تنائو اور بحران کی مظہر ہے۔تا دم تحریر ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق دو افراد جاں بحق جبکہ ایک ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں۔900 سے زیادہ افراد کو پولیس نے حراست میں لے لیا ہے۔ترکی کے وزیرِ داخلہ معمر گلر کے مطابق 48شہروں میں 90مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ’’ریاست کی جانب سے پر امن شہریوں پر تشدد شرمناک ہے۔‘‘ٹیلی ویژن کی فوٹیج میں مظاہرہ کرنے والے ایک شخص کو پولیس کی گاڑی کے نیچے کچلتا ہوا دکھایا گیا ہے۔سوشل میڈیا پر ریاستی تشدد کے ایسے درجنوں مناظر گردش کر رہے ہیں۔وزیر اعظم طیب اردگان نے تسلیم کیا ہے کہ پولیس نے ’’انتہا پسندی‘‘ سے کام لیا اور ہم سے کچھ غلطیاں بھی ہوئیں۔لیکن اردگان نے غیزی پارک میں تعمیرات کا کام جاری رکھنے کا عندیہ بھی دیا جس سے پتا چلتا ہے ترک حکومت کس حد تک اپنی روش پر قائم ہے۔ استنبول میں 27مئی کو تقسیم چوک کے قریب واقع غیزی پارک کو ختم کرنے کے منصوبے کے خلاف شہریوں نے پر امن دھرنا دیا۔ شہر کے مرکزی کمرشل علاقے میں بچ جانے والا یہ واحد سرسبز پارک ہے اور منصوبے کے مطابق اس کے 600درخت کاٹ کر سلطنت عثمانیہ کی فوجی بیرکوں کی تعمیر نو کرکے اسے شاپنگ سنٹر میں تبدیل کیاجانا تھا۔تاریخی مقامات اور تفریحی پارکوں کو منہدم کر کے پلازے بنانے کی پالیسی کے خلاف ترک عوام میں پہلے سے تحفظات پائے جاتے ہیں۔27مئی کو دھرنا دینے والے پر امن شہریوں پر پولیس نے دھاوا بول دیا اور انہیں بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ٹویٹر پر چلنے والا ایک پیغام صورتحال کی بہترین عکاسی کرتا ہے: ’’وہ جمہوریت کس کام کی ہے جو ایک تفریحی پارک کو تباہی سے نہ بچا سکے؟‘‘ اس سے پیشتر ترک پارلیمنٹ جس میں اسلامی جماعت فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی (AKP)کی اکثریت ہے، شراب کی خریداری پر پابندیوں کا متنازع بل منظورکر چکی تھی۔ اس کے علاوہ مردوخواتین کی سرِعام قربت پر پابندی کے حکم کی وجہ سے بھی نوجوانوں میں حکومت کے خلاف غصہ پنپ رہا تھا جو شہریوں کی نجی زندگی میں دخل اندازی بڑھارہی تھی۔ان پابندیوں کے خلاف ایک مظاہرے میں سو سے زائد جوڑوں نے سر عام بوس و کنار کر کے احتجاج کا انوکھا طریقہ اختیار کیا۔لیکن یہ تمام تر مسائل اور حکومتی اقدامات عوامی احتجاج کی بنیادی وجہ نہیں ہیںبلکہ ان واقعات نے محض عمل انگیز کا کردار ادا کیا ہے ۔طویل عرصے سے جاری موجودہ حکومت کی پالیسیوں اور معاشی و سماجی اقدامات سے ترک عوام تنگ آچکے ہیں۔سطح کے نیچے پکنے والے لاوے کو آخر ایک روز پھٹنا ہی تھا۔ پاکستان میں جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی جماعتیں ترکی میں اے کے پی پارٹی کی حکومت کو مثال کے طور پر پیش کرتی ہیں۔اس کو ’’اسلامی فلاحی ریاست‘‘ کا ایک نمونہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔نواز لیگ کے بھی اس حکومت سے گہرے مراسم ہیں۔ لاہور کے کئی منصوبوںمیں بھی ترک کمپنیوں نے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔حقیقت یہ ہے نواز لیگ اور جماعت اسلامی کی طرح اے کے پی بھی دائیں بازو کی پارٹی ہے جس نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف کی پالیسیاں جاری رکھی ہیں۔ عالمی معیشت پر تھوڑی سی نظر رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے طیب اردگان سے بہتر آئی ایم ایف کا حامی شائد ہی کوئی حکمران ہو۔ اپنے دور حکومت کے دوران طیب اردگان نے اس عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ مختلف نوعیت کے 19معاہدے کئے۔1985ء سے 2003ء تک ترکی میں مجموعی طور پر 8.4ارب ڈالرکی نجکاری کی گئی، جبکہ اردگان حکومت میں 2004ء سے 2012ء تک 36.4ارب ڈالر کی نجکاری کی اور2013ء میں 20ارب ڈالر کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ اس سلسلے میں ریاستی ملکیت میں موجود چار بڑے اور معاشی طور پرکلیدی اداروں کی نجکاری کے لئے پر تولے جارہے ہیں جن میں ریاستی آئل اینڈ گیس کمپنی، محکمہ ڈاک،زراعت سے وابستہ حکومتی ادارہ، چائے کی پتی بنانے والی ملک کی سب سے بڑی کمپنی شامل ہیں۔یکم جون کو تقسیم اسکوائر پر موجود احتجاج میں شریک ایک شہری نے الجزیرہ ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا :’’یہ حکومت معاشی ترقی کا چرچا کرتی ہے جبکہ حقیقت یہ ہے یہ ترقی جعلی ہے اور ملکی ادارے بیچ بیچ کر حاصل کی گئی ہے، نوبت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ اب بیچنے کو کچھ نہیں بچا۔‘‘ترکی کی شرح نمو اس وقت 3فیصد ہے اور یورپ میں سرمایہ داری کے بحران سے ترک معیشت کو بھی دھچکا لگا ہے۔طیب اردگان 2002ء سے وزیراعظم چلے آرہے ہیں اور 2014ء میں صدر بننے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں ، لیکن مذکورہ اقدامات کے باعث ان کی حکومت کے خلاف عوام کی نفرت بڑھتی جارہی ہے۔معاشی پالیسیوں سے ہٹ کر بھی طیب اردگان کی حکومت نے امریکی سامراج کی اطاعت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ عراق پر امریکی جارحیت کے معاملے میں ترک حکومت کے کردار سے سب واقف ہیں۔ حالیہ عرصے میں شام میں جاری امریکی اور عرب ریاست کی دخل اندازی میں بھی ترکی نے بھرپور تعاون کیا ہے اور شامی عوام کو قتل کرنے والوں کو ہر طرح کی امداد فراہم کی ہے۔طیب اردگان اسرائیلی ریاست سے مزید دوستی بڑھانے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں ۔اسرائیل کے ساتھ اردگان حکومت کے سفارتی تعلقات پر جماعتِ اسلامی اور دوسری مذہبی پارٹیوں کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ حالیہ تحریک اردگان حکومت سے نفرت اور بیزاری کا اظہار ہے جس میں بائیں بازو کے چھوٹے گروپ اور سیاسی جماعتیںسرگرم ہیں۔اس کے علاوہ کیمونسٹ پارٹی آف ترکی (TKP)کے جھنڈے ہر احتجاج میں واضح طور پر دیکھے جاسکتے ہیں؛ تاہم فی الحال یہ تحریک کسی قسم کی اجتماعی قیادت سے محروم ہے جس کے باعث اس کے بکھرنے کے امکانات بھی موجود ہیں۔اس تحریک کو ترکی میں انقلابی سفر کے پہلے قدموں سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ایک طویل عرصے کے بعد ترکی کے محنت کش اور نوجوان اپنا مقدر بدلنے کے لئے تاریخ کے میدان میں داخل ہوئے ہیں۔انہوں نے ریاست اور نظام کو للکارا ہے۔ترکی میں مزدور تحریک اور بائیں بازو کی شاندار روایات موجود ہیں۔ترک سماج ایک بار پھر کروٹ لے رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں