کوئٹہ میں طالبات اور نرسوں کا بنیاد پرستوں کے ہاتھوں وحشیانہ قتل غمازی کرتا ہے کہ تیزی سے برباد ہوتے ہوئے اس سماج میں وجود زن کس قدر خوفناک اور سنگین خطرات سے دوچار ہے۔مذہبی رجعتیت کا جبر اس ملک میں کروڑوں عورتوں کی زندگیوں کو عذاب میں مبتلا کیے ہوئے ہے۔ المیہ یہ ہے کہ عورتوں پر تشدد مثلاً غیرت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی اور تیزاب پھینکنے کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے لیکن ان واقعات کے خلاف بڑے پیمانے پر کسی قسم کی کوئی تحریک نظر نہیں آتی۔ جنونی مُلا اور رجعتی سیاستدان براہِ راست یابالواسطہ طریقے سے جاہلانہ رویوں کی حمایت کرتے نظر آتے ہیں جس سے اس طرح کے مکروہ جرائم کرنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ ’اسلامی نظریاتی کونسل‘ کی جانب سے جنسی زیادتی کے مقدمے میںڈی این اے ٹیسٹ کو ضعیف شہادت قرار دینا عقل سے ماورا اور دقیانوسی سوچ پر مبنی فیصلہ ہے۔ اس فیصلہ پر عمل سے خواتین کے جنسی استحصال کے واقعات بڑھیں گے۔ دوسری طرف آزاد خیال سیاسی و سماجی عناصر کی جانب سے ان اقدامات کے خلاف کی جانے والی سطحی کوششیں ناکام رہی ہیں۔ایک چوتھائی صدی گزر جانے کی بعد بھی ’جمہوری‘ حکومتیں آمر ضیاء الحق کے خواتین دشمن قوانین کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ مردانہ برتری پر مبنی سوچ اور رویے اس بوسیدہ معاشرے کے سماجی و ثقافتی رجحانات کا حصہ بن چکے ہیں۔ عورتوں پر تشدد اور جنسی امتیاز کی روک تھام کرنے والے ہر قانون کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے لیکن بے شمار قانون سازیوں کے باوجود عورتوں، خاص کر محکوم و محنت کش طبقے کی خواتین کی حالتِ زار بد سے بدتر ہورہی ہے۔ یہ محنت کش عورتیں دُہرے بلکہ تہرے جبر کا شکار ہیں۔ محنت کش عورتوں کو کام کرنے کی جگہ، معاشرے اور خاندان میں نہ صرف متعصبانہ رویوں کانشانہ بنایا جاتا ہے بلکہ جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔لہٰذا جنسی استحصال کی سماجی و معاشی وجوہات کو سمجھے بغیر محض جنسی بنیادوں پر خواتین کے استحصال کا نہ تو کوئی ازالہ کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی لائحہ عمل مرتب کیا جاسکتاہے۔ جنسی و معاشی استحصال سے آزادی کے لئے ہمیں طبقاتی سماج اور جنسی استحصال کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہو گا۔تاریخی طور پر عورت کی زیرِ دست سماجی حیثیت کا آغاز نجی ملکیت کے ظہور کے ساتھ شروع ہوا۔ آج پاکستان میں بڑی تعداد میں خواتین سیاست، کاروبار، فنونِ لطیفہ اور دوسرے شعبہ جات میں شہرت کما رہی ہیں لیکن ان میں سے تقریباً تمام کا تعلق حکمران یا درمیانے طبقے سے ہے۔ان کے مسائل، مصائب اورنصب العین، محنت کش عورتوں سے بالکل مختلف ہیں۔ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والی کوئی عورت اگر معاشی و سماجی طور پر بلند ہوتی بھی ہے تو وہ بالادست طبقے کا حصہ بن کر اپنی اصل طبقاتی بنیادوں سے منحرف ہو جاتی ہے۔آخر مادی و سماجی حالات ہی شعور کا تعین کرتے ہیں نہ کہ اس کا الٹ۔لبرل سوچ میں بھی عورت کی حیثیت ایک جنس سے زیادہ نہیں ہے۔اگر مذہبی سوچ عورت کو ذاتی ملکیت اور مطیع تصور کرتے ہوئے قید و بند کرتی ہے تولبرل اور سیکولر اشرافیہ اسے کاروبار اور منافعوں کی بڑھوتری کے لئے ایک آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔اگر رجعتی ذہنیت رکھنے والوں کا عورتوں پر ظلم و جبر غیر انسانی فعل اور غلامی ہے تو عورتوں کے جسموں کی تشہیر کر کے اشیاء بیچنے اور منافع کمانے کے لئے استعمال کرنا بھی ان کی تذلیل اور تضحیک ہے۔عورتوں کی طرف تعصب و تفریق پر مبنی رویے ان سماجی رشتوں سے برآمد ہوتے ہیں جو لالچ اور ہوس پر مبنی معیشت تخلیق کرتی ہے۔مالیاتی سرمائے کے زہر نے انسانی رشتوں، جذبوں، تعلقات اور احساسات کو مجروح کر دیا ہے۔لہٰذا یہ رویے جو سماجی نفسیات میں گہرا سرایت کر چکے ہیں دراصل اس سماجی نظام کی پیداوار ہیں جو انہیں پروان چڑھاتا ہے۔یہ رویے تب تک ختم نہیں ہو سکتے جب تک ان مادی حالات اور بنیادوں کا خاتمہ نہ کیا جائے جن پر یہ سماجی و اقتصادی نظام کھڑا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں گھریلو مشقت اور خواتین کی جانب سے کی جانے والی دوسری کئی طرح کی محنت کا کوئی معاوضہ نہیں ہوتا۔ یہ نظام بچوں کی نگہداشت اور اس طرح کے دوسرے بے شمار کام عورتوں سے بلا اُجرت کراتا ہے۔ یہی ان کے سماجی رتبے اور معاشی حالات میں ابتر ی کا باعث بنتا ہے۔ ولادی میرلینن نے ایک بار لکھا تھا ’’موجودہ سماج میں غربت اور جبر کی بہت سی صورتیں پہلی نظر میں پوشیدہ رہتی ہیں۔انتہائی اچھے عہد میں بھی پسماندہ علاقوں میں رہنے والے غریبوں، دستکاروں، مزدوروں اور ملازمین کے بکھرے ہوئے خاندان انتہائی مشکل حالات میں گزارا کرتے ہیں اور دو وقت کی روٹی بمشکل پوری کرتے ہیں۔ ایسے خاندانوں کی لاکھوں عورتیں ’گھریلوغلاموں‘ کی سی زندگی گزارتی ہیں۔ اپنے خاندان والوں کو روٹی اور کپڑا دینے کے لئے یہ خواتین ہر چیز پر ایک ایک پائی بچت کرتی ہیں۔تاہم اپنے کام کاج اور مشقت میں وہ بچت نہیں کر سکتیں۔یہی عورتیں سرمایہ داروں کے لئے شرم ناک حد تک کم اجرت پر کام کرتی ہیں تاکہ اپنے اور اپنے خاندان کے لئے روٹی کے چند مزید ٹکڑے کما سکیں۔‘‘ آج کے عہد میں امیر گھرانوں سے تعلق رکھنے والی زیادہ تر خواتین کی زندگی گھریلو ملازمین، فیشن کے رجحانات یا شادی بیا ہ کی تقریبات سے متعلق بحث مباحثے کے گرد گھومتی ہے۔ ٹی وی پر چلنے والے ڈرامے بھی عورتوںکے اس رائج الوقت قدامت پرستانہ کردارکو ہی تقویت دیتے ہیں ۔ عورت کی اطاعت کو مذہبی پیشوا ’’اچھے کردار‘‘ کا معیار قرار دیتے ہوئے مزید پروان چڑھاتے ہیں۔اس سب کا اصل مقصد استحصال پر مبنی نظام کی ضروریات کے مطابق عورتوں کے سماجی کردار کو برقرار رکھنا ہے۔ اس خاندانی ڈھانچے میں جکڑی عورت کی زنجیریں تب ہی ٹوٹ سکتی ہیں جب ذرائع پیداوار پر ملکیت کے رشتے بدلے جائیں۔معاشی طور پر بد حال اس ملک میں عورت کی اصل آزادی تب شروع ہو گی جب گھریلو مشقت کوجدید ٹیکنالوجی کے آلات کے ذریعے سہل بنا دیا جائے۔زندگی کو سہل بنانے والی جدید ایجادات سرمایہ دارانہ نظام کے زیرِ اثرسماج کے بالادست طبقات تک ہی محدود ہیں۔ بچوں کی نگہداشت اور دوسرے امورخانہ کی اشتراکیت اور ریاست کی اجتماعی ذمہ داری بن جانے سے آزادی نسواںکا عمل تیزی سے آگے بڑھے گا۔گھریلو تشدد کے زیادہ تر واقعات کا تعلق تلخ معاشی حالات سے ہے؛ لہٰذا قلت اور بے لگام مانگ پر مبنی سماج میںقوانین بنا دینے سے اس کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔اسی طرح فیکٹریوں میں کام کرنے والی خواتین کی اُجرت ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک میں بھی مردوں سے کم ہے۔ اُجرتی غلامی سے جسم فروشی تک لے جانے والا طبقاتی نظام عورتوں کا اصل دشمن ہے جہاں ان کابڑے پیمانے پر استحصال کیا جاتا ہے تاکہ اوپر بیٹھی ہوئی کچھ بڑی جونکوں کو چوسنے کے لئے زیادہ خون میسر آ سکے۔عورتوں کے استحصال کو جاری رکھنے کے لئے معاشرے پر جھوٹی اقدار اور اخلاقیات مسلط کی جاتی ہیں جو اس نظام کی ضرورت بھی ہے۔خاندان پر مردانہ تسلط بھی اسی نظام کی ضرورت ہے۔ لیون ٹراٹسکی کے مطابق ’’معاشرے کے تمام دھارے جس مرکزی نقطے سے گزرتے ہیں وہ ماں ہے۔اگر ماں آزاد نہیں ہوگی تو معاشرہ کبھی آزاد اور خوشحال نہیں ہو سکتا۔‘‘حقیقی معنوں میں آزادی نسواں کاحصول عورت کی معاشی و سماجی آزادی سے ہی مشروط ہے۔اس آزادی کے لئے طبقاتی جنگ لڑنا ہو گی۔ یہ فیصلہ کن جنگ محنت کش مرد و خواتین شانہ بشانہ لڑتے ہوئے ہی جیت سکتے ہیں۔