"DLK" (space) message & send to 7575

’’اُبھرتی‘‘ معیشتوں کی لڑکھڑاہٹ

سرمایہ داری کے عالمی بحران میں آتی ہوئی شدت کے ساتھ ایک کے بعد دوسرے ملک میں عوامی مظاہروں کے طوفان امڈ رہے ہیں۔ اُبھرتی ہوئی معیشتوں (برازیل‘ ہندوستان‘ روس‘ چین)‘ جن پر 2008ء کے زوال کے بعد سرمایہ داری کے ماہرین تکیہ کیے ہوئے تھے کہ یہ نظام کاسہارا بنیں گی‘ ان5سالوں میںگراوٹ اور بحرانوں کا شکار ہوگئی ہیں۔ان میں ایشیا سے دو بڑے ممالک ہندوستان اور چین تھے جن سے سرمایہ داری کی بحالی کی امیدیں وابستہ تھیں لیکن ان میں تیزی سے سست روی آ رہی ہے۔چین کی شرح نمو گیارہ فیصد سے گر کر سات فیصد تک آ گئی ہے۔گزشتہ مالی سال کے دوران ہندوستان کی شرح نمو نصف رہ گئی ہے۔ ان معیشتوں میں سماجی و معاشی ترقی کے ناہموار اور مشترکہ کردار کی وجہ سے بلند شرح نمو کے دنوں میں بھی سماجی تضادات بڑھ رہے تھے۔امارت اور غربت کی تفریق میں چین جنوبی افریقہ کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔دوسری جانب ہندوستان دنیاکی 22فیصد آبادی کا مسکن ہے اور دنیا کی40فیصد غربت یہاں پلتی ہے جو کہ افریقہ کے غریب ممالک سے بھی بد تر ہے۔ غالب خیال یہ ہے کہ چین میں سرمایہ داری نے کروڑوں افراد کو غربت سے نجات دلائی جو کہ ایک مغالطہ ہے۔یہ درست ہے کہ چین میں بڑے پیمانے کی کارپوریٹ سرمایہ کاری نے متعدد صنعتی مراکز قائم کیے ہیں جن میں زیادہ تر بحرالکاہل کے ساحل پر ہیں ، اور اس سے دنیا کے سب سے بڑے پرولتاریہ کا جنم بھی ہوا ہے لیکن انہیں حاصل ہونے والے معیار زندگی سے چینی محنت کشوں کی ضروریات کی تکمیل کی بجائے احساسِ محرومی میں اضافہ ہوا ہے۔اس کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہونے والی ہڑتالوں کی شکل میں نکلا جو اگرچہ بکھری ہوئی تھیں لیکن ان میں فاکس کان کے محنت کشوں سے لے کر ریاستی اور غیر ریاستی قبضہ گروپوں کے خلاف کسان مظاہرین کی فتو حات شامل ہیں۔1978ء میںڈینگ ژیائو پنگ حکومت کی جانب سے سرمایہ داری کو استوار کروانے کے ساتھ کرپشن، جوئے، جسم فروشی اور سرمایہ دارانہ نظام کی دیگر خرافات بھی ساتھ آگئیں۔تین دہائیوں تک علاقائی اور طبقاتی تفریق کو بڑھانے والی تیز ترین ترقی کی بنیادی وجہ گزشتہ دور کی منصوبہ بند معیشت کی دین مضبوط انفرا اسٹرکچر اورسستی مگر ہنر مند لیبر تھی۔لیکن اب یہ شدید تنزلی کا شکار ہے۔ معاشی شرح ِنمو میں گراوٹ کے ساتھ سماجی بحران شدید ہوتا جا رہا ہے اور حکمران اشرافیہ نا امید اور بے چین ہوتی جا رہی ہے۔ ’کمیونسٹ پارٹی‘ جو نہ کمیونسٹ ہے اور نہ اب ایک پارٹی ہی رہی ہے بلکہ ایک اشرافیہ ہے جو سرمایہ دارانہ حکمران طبقے میں تبدیل ہو چکا ہے۔یہ نیچے سے اٹھتی ہوئی شورش سے بہت خوفزدہ ہیں۔ کوئی حادثہ نہیں کہ یہ لوگ بیرونی دفاع سے زیادہ داخلی سکیورٹی پر اخراجات کرتے ہیں۔شرحِ نمو کو بڑھانے کے لیے وہ کینئشن ازم( ریاستی سرمایہ کاری) کے کلاسیکی طریقوں کو استعمال کرتے ہوئے انفرا سٹرکچر کے منصوبوں پر بڑے پیمانے پر ریاستی اخراجات میں اضافہ کر رہے ہیں۔بیجنگ یونیورسٹی کے سرکاری ماہرِ معیشت کے مطابق ’’چین میں شرحِ نمو پانچ فیصد تک گرنے کی صورت میں ایک سماجی دھماکے کا بہت شدید خطرہ ہو گا‘‘۔ چین کے پاس زرِ مبادلہ کے کثیر ذخائر کی اکثریت امریکی ٹریژری بانڈوں کی شکل میں ہے جو امریکہ اور چین کے متضاد تعلقات کے ایک پہلو کو ظاہر کرتا ہے۔دوسرا پہلو چینی اشرافیہ کا بڑھتا ہوا سامراجی کردار ہے۔ چین افریقہ، ایشیا اور لاطینی امریکہ میں بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ چینی سرمایہ کاروں کے استحصالی کردار اور متکبرانہ برتائو کے خلاف مختلف ممالک کے عوام کے غصے اور نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔زیمبیا میں ایک چین مخالف لیڈر انتخابات میں کامیاب ہوا ہے جس کی مہم چینی کارپوریٹ سرمائے کے ہاتھوں لوگوں کی تذلیل کے خلاف تھی۔ افغانستان اور پاکستان سمیت کئی خطوں کی جغرافیائی سیاست میں چینی سامراج کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔ افغانستان میں یہ سب سے بڑا بیرونی سرمایہ کار ہے اور دنیا کی سب سے بڑی تانبے کی ایک کی کان اس کی ملکیت ہے۔حال ہی میں چین کے حکمرانوں نے شمالی افغانستان میں آمو دریا کے طاس کے حقوق کی خریداری کے لیے کرزئی حکومت سے معاہدہ کیا ہے۔لیکن چینی سرمایہ کاروں کو اس خطے میں چھپے اربوں بیرل کے ذخائرکا قبضہ حاصل کرنے کے لیے مقامی جنگجو سردار رشید دوستم کو بھی پیسے دینا پڑے۔چینی کارپوریٹ سرمائے کی مشرقِ وسطیٰ اور دیگر علاقوں میں منڈیوں کے حصول کی مہم کے باوجود امریکہ اور یورپ کی کساد بازاری نے چینی مصنوعات کی کھپت کو کم کر دیا ہے جو ان کے شرح ِ منافع کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔معیشت میں سست روی کی وجہ سے اندرونِ ملک کھپت میں کمی سے بھی پیداوار پر مزید بوجھ پڑا ہے۔بکھری ہوئی تحریکیں چینی نوجوانوں اور محنت کشوں کی ایک اجتماعی عوامی بغاوت میں بھی بدل سکتی ہیں جس کے اثرات دور دور تک محسوس کیے جائیں گے۔جیسا کہ نپولین نے کہا تھا ’’جب چین جاگے گا، دنیا لرز اٹھے گی‘‘۔ ہندوستان میں معاشی زوال کے ساتھ ساتھ شدید سیاسی اور سماجی بے چینی ہے۔اوڑیسہ، چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ، تامل ناڈ، آندھراپردیش، آسام ، منی پور اور دیگر ریاستوں کے 170 اضلاع پر محیط ’سرخ راہ داری‘ میں مائواسٹ باغیوں کی عملداری ہے۔ان وسیع دور افتادہ علاقوں میں ریاستی کنٹرول نہ ہونے کے برابر ہے۔کانگریس حکومت ایک کے بعد دوسرے کرپشن سکینڈل میں گھری ہوئی ہے۔پارلیمان میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے حکومت میں شریک اتحادی اسے بلیک میل کرتے رہتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی کانگریس حکومت پر سامراجی اداروں اور میڈیا کی جانب سے ہندوستان کی منڈی کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے لیے مزید کھولنے اور خوراک اور دیگر بنیادی ضروریات پر پہلے سے کم شدہ سبسڈیوں میں مزید کٹوتی کے لیے بہت دبائو ہے۔ ہندوستان کے بڑے سرمایہ دار گھرانے میڈیا‘ سیاسی جماعتوں اور حکومتوںکو کنٹرول کرتے ہیں۔ہندوستانی سرمایہ دار طبقے کا کردار اتنا رجعتی ہے کہ وہ ہندوبنیاد پرستوں پر انحصار اور ان کی حمایت کرتے ہیں‘ یہ مذہبی مگر مچھوں کو اپنے منافعوں اور استحصال سے فائدہ پہنچاتے ہیں۔اس وقت امبانی، ٹاٹا اور دیگر ہندوستانی اجارہ داروں کا پسندیدہ امیدوار نریندرا مودی ہے ، جو ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے انتہا پسند دھڑے کا لیڈر ہے۔گجرات کے وزیرِ اعلیٰ ہوتے ہوئے اس شخص نے 2002ء میں ہندوستان کے بد ترین فرقہ وارانہ قتلِ عام میںایک ہزار سے زائد مسلمانوں کے قتل کی پشت پنا ہی کی تھی۔جگمگاتا ہندوستان صرف سماج کی بالائی پرتوں اور درمیانے طبقے تک محدود ہے۔لیکن پیٹی بورژوازی بھی شرح نمو میں گراوٹ ، افراطِ زر اور مہنگائی کی وجہ سے تلملا رہی ہے۔1.2ارب کی آبادی کا دو تہائی حصہ غربت کی حد سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے جبکہ دوسری جانب آئی ایچ ایس جین کے مطابق ہندوستان دنیا میں سب سے زیادہ اسلحہ درآمد کرنے والا ملک ہے۔گزشتہ برس ہندوستان میں عام ہڑتال ہوئی جو دنیا کی سب سے بڑی ہڑتال تھی جس میں دس کروڑ سے زیادہ محنت کش شریک تھے۔یہ جدوجہد کی عظیم روایات کے حامل ہندوستانی پرولتاریہ کی بے پناہ انقلابی صلاحیتوں کا اظہار تھا۔ ترکی سے جاپان تک سارے ایشیا میں خلفشار اور بے چینی ہے۔1980ء کی دہائی کے اواخر تک جاپان سرمایہ دارانہ دنیا کی ترقی کا مرکز اور ماڈل تھا۔1990ء کی دہائی کی کساد بازاری کے بعد سے جاپان کی معیشت بحال نہیں ہو سکی۔دوسرے ایشین ٹائیگر1997ء کے کریش میں برباد ہو گئے تھے۔مشرقِ وسطیٰ جنگوں اور خون ریزی کی لپیٹ میں ہے اور2011ء سے سارے خطے میں انقلابی تحریکیں جاری ہیں۔ایران میں شدید معاشی اور سماجی بحران ہے۔ کئی خلیج ممالک عوامی بغاوت سے خوف زدہ ہیں اور شام میں جاری خانہ جنگی میں القاعدہ سے ملحق مذہبی جنونیوں کی مالی اور فوجی امداد کر رہے ہیں۔ایشیا کے بارے میں کوئی بھی حکمران طبقات کا ماہر پر امید تناظر نہیں دے سکتا۔سرمایہ داری میں رہتے ہوئے ان سلگتے ہوئے مسائل او ر معیشت کے شدید بحران کا کوئی حل ممکن نہیں۔یہ صرف بربریت ہی دے سکتا ہے۔ واحد سائنسی متبادل انقلابی سوشلزم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں