"DLK" (space) message & send to 7575

کشمیر کے رستے زخم

لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ میں پانچ بھارتی فوجیوں کی مبینہ ہلاکت نے ایک بار پھر اس خونی تنازعے کو منظر عام پر لا کھڑا کیا ہے جس نے پچھلی چھ دہائیوں سے کشمیر کے عوام کو کرب میں مبتلا کر رکھا ہے۔اس واقعے نے گل سڑ کر متروک ہو چکے سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے مذاکرات کے ذریعے کشمیر اور پورے جنوبی ایشیا میں’امن‘ اور ’ترقی‘ کی تمام تر کوششوں کی ناکامی کو عیاں کیا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے سیاستدانوں کی جانب سے ’صلح صفائی‘ کی لفاظی کا خالی پن ایک بار پھر آشکار ہوا ہے۔ اس طرح کے ہر واقعے کے بعد الزام تراشی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ یہ ایک معمول بن چکا ہے۔ بھارتی فوج نے الزام لگایا ہے کہ پاکستانی فوج نے پونچھ کے علاقے میں گھس کر اس کے فوجیوں کو نشانہ بنایا جبکہ آزاد کشمیر کے وزیراعظم نے بھارتی فوج پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے میر پور کے علاقے میں گھس کر چار شہریوں کو اغوا کر لیا۔ بھارتی فوج کے ایک اعلیٰ افسر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ منگل کے روز پاکستانی فوج کے کمانڈوز نے کنٹرول لائن عبور کر کے پونچھ سیکٹر میں گشت پر مامور بھارتی فوج کے دستے کو نشانہ بنایا۔ بھارتی افسر نے مزید کہا کہ ایک اورواقعے میں ادھم پور کے علاقے میں پاکستانی فوجیوں کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک بھارتی فوجی زخمی ہوا ہے جبکہ پاکستانی فوجی حکام نے تمام بھارتی بیانات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی جانب سے فائرنگ نہیں کی گئی۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پر رونما ہوا ہے جب دونوں ممالک ’امن مذاکرات‘ کی تیاری میں مصروف ہیں۔ مقبوضہ جموں کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ ’’ایسے واقعات پاکستان کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے یا بہتر کرنے کی بجائے پاکستانی حکومت کی نیت پر سوالات کو جنم دیتے ہیں۔‘‘بھارتی وزیر دفاع اے کے انتھونی نے پارلیمنٹ کو بتایا ہے کہ ’’بھارتی حکومت نے سفارتی ذرائع کے ذریعے سے پاکستان سے سخت احتجاج کیا ہے۔‘‘ 2003ء میں پاکستان اور بھارت میں کشمیر کو عبوری طور پر تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی کا معاہدہ طے پایا تھا لیکن اس کے بعد بھی دونوں ممالک ایک دوسرے پر ’’بلا اشتعال‘‘ کارروائیوں کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ ان مبینہ کارروائیوں میں دونوں اطراف سے درجنوں فوجی اور عام شہری اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔جنوری 2013ء میں بھی لائن آف کنٹرول پر ہونے والی فائرنگ کے نتیجے میں تین پاکستانی اور دو بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ دونوں ممالک نے ان واقعات کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے کی کوشش کی تھی تاہم دو طرفہ تعلقات میں تلخی کے مختصر عرصے کے بعد مشترکہ طور پر تنائو کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیاتھا۔ 1989ء میں شروع ہونے والی مسلح بغاوت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں ہزاروں لوگوں کو ریاستی دہشتگردی کا نشانہ بنا کر قتل کیا چکا ہے۔1947ء کی تقسیم کے بعد سے کشمیر کے تنازعے پر دونوں ممالک کے درمیان ایک چھوٹی اور تین بڑی جنگیں ہوچکی ہیں۔تقسیم کے وقت انگریزوں اور مقامی حکمران طبقے کی جانب سے وضع کردہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہوسکا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ایک خونی تقسیم تھی جس میں پانچ ہزار سال سے زیادہ پرانی تہذیب کو کاٹ دیا گیا۔ اس کے نتیجے میں پھوٹنے والے مذہبی اور لسانی فسادات میں27لاکھ بے گناہ افراد ہلاک ہوئے۔ موجودہ لائن آف کنٹرول اقوام متحدہ کی نگرانی میں 1948ء کی جنگ بندی کے بعد پاکستانی اور بھارتی افواج کے زیر قبضہ علاقوں کی بنیاد پر قائم ہوئی تھی۔ تین جنگوں ، اقوام متحدہ کی درجنوں قرادادوں اور دونوں ممالک کے حکمرانوں کے درمیان ہونے والے ان گنت مذاکرات کے باوجود صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ کشمیر کے استحصال زدہ عوام آج بھی اذیت سے دوچار ہیں۔پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات کے تمام تر دعووں کے برعکس کشمیری عوام غربت اور محرومی کا شکار ہیں۔المناک بات یہ ہے کہ دونوں ممالک نے اس ایشوکو دفاعی بجٹ، ہتھیاروں کی خریداری اور مراعات میں اضافے کے لیے استعمال کیا۔ اس کے علاوہ سامراج اس مسئلے کو خطے میں اپنے مفادات کی ترویج کے لیے استعمال کرتا رہا ہے۔دونوں ممالک کی اشرافیہ اس تنازعے کو ختم نہیں کرنا چاہتی کیونکہ یہ انہیں سامراجی اسلحہ ساز صنعت سے مہنگے اسلحے کی خریداری کا جواز فراہم کرتا ہے۔ اس خریداری سے اسلحہ ساز صنعت بھاری منافع جبکہ اشرافیہ موٹے کمیشن بناتی ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ عالمی آبادی کا 22فیصد رکھنے والے ان دو ممالک میں دنیا کی 44فیصد غربت پلتی ہے جبکہ پاکستان اور بھارت کا شمار جدید اسلحہ خریدنے والے دنیا کے پہلے پانچ ممالک میں ہوتا ہے۔قومی سلامتی کے نام پر دونوں ممالک ایٹمی قوتیں بن چکے ہیں۔ تاہم دونوں ممالک کو اسلحہ بیچ کر ہوشربا منافع کمانے والے سامراجی ممالک دو ایٹمی قوتوں کے درمیان کھلی جنگ بھی نہیں چاہتے کیونکہ ایسی جنگ کی صورت میں خطے میں ہونے والی ہولناک تباہی ان کی سرمایہ کاری اور اثاثوں کو بھی غرق کر دے گی۔حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک نہ تو جنگ کرسکتے ہیں اور نہ دیرپا امن قائم رکھ سکتے ہیں۔ہر ’امن مذاکرات‘ کے بعد جنگی دھمکیوں کا عہد آتا ہے، جس کے بعد پھر مذاکرات شروع ہوجاتے ہیں۔ امن مذاکرات امن کی ضمانت دینے سے عاری ہیں جبکہ جنگ کی دھمکیاں کبھی کھلی جنگ پر منتج نہیں ہوں گی۔ جب تک بحران کا شکار سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے یہ منافقت، یہ خونی چکر جاری و ساری رہے گا اور خطے کے عوام کو تاراج کرتا رہے گا۔دونوں ممالک کے حکمران عوام کی توجہ حقیقی مسائل اور ان کی وجوہات سے ہٹا کر طبقاتی جدوجہد کو ماند کرنے کے لیے قومی اور مذہبی تعصبات کو پروان چڑھاتے ہیں۔ ہندو اور مسلمان بنیاد پرست ایک دوسرے کی بنیاد پر برصغیر کی سیاست میں سرایت کیے ہوئے ہیں۔ کشمیر کے عوام برباد ہورہے ہیں۔قومی آزادی کی منزل ساٹھ سال پہلے کی نسبت اور بھی زیادہ دور ہوچکی ہے۔لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف سے اٹھنے والی حالیہ عوامی تحریکوں میں سماجی و معاشی مسائل اور طبقاتی جدوجہد کے نعرے زیادہ واضح ہو کر سامنے آئے ہیں۔ اس نظام کو اکھاڑ کے ہی کشمیر کے مظلوم عوام قومی آزادی حاصل کر سکتے ہیں۔خطے کی دوسری مظلوم قومیتوں کے پاس بھی صرف یہی واحد راستہ ہے۔پچھلے ساٹھ سالوں نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے حکمران طبقات قومی جمہوری انقلاب کا ایک بھی فریضہ پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے ہیں۔تیسری دنیا کی سرمایہ داری میں سکت نہیں ہے کہ یہ سماج کو جدید انفراسٹرکچر فراہم کر کے سماجی اور معاشی مسائل کا خاتمہ کر سکے اور ان مماک میں قومی جمہوری انقلاب کے فرائض سوشلسٹ ریاست کے تحت منصوبہ بند معیشت کے ذریعے ہی پورے کئے جاسکتے ہیں۔مظلوم قومیتوں کے سامنے طبقاتی جدوجہد ہی وہ واحد راستہ ہے جو انہیں قومی آزادی کی منزل تک لے جا سکتا ہے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں