موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی مہنگائی اور افراط زر میں مزید اضافہ شروع ہو گیا ہے۔ موبائل فون کے بیلنس پر ٹیکس سے لے کر ٹیلی وژن کی فیس میں اضافے سے پہلے ہی مہنگائی سے بدحال عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ بچت سکیموں اور بنکوں میں رکھی جمع پونجی پر ملنے والے منافع کے ذریعے درمیانے طبقے کے خاندان اور ریٹائرڈ ملازمین جو تھوڑی بہت آمدن حاصل کر لیتے تھے‘ اسے بھی اب منافعے میں کمی کے ذریعے ختم کیا جارہا ہے۔نہ صرف بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ کیا جارہا ہے بلکہ میٹروں کے نرخ بھی بڑھا دیے گئے ہیں، اور یہ اضافی رقم ان لوگوں سے بھی وصول کی جارہی ہے جو پرانے نرخوں پر کنکشن لگوا چکے ہیں۔اسی طرح عالمی مالیاتی اداروں کی عائد کردہ شرائط کے تحت نجکاری اور ڈائون سائزنگ کی پالیسیوں سے نہ صرف بیروزگاری میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ باروزگار افراد بھی کئی گھنٹے اضافی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک طرف بنکوں میں پڑی رقوم پر شرح منافع ، افراط زر سے بھی کم کر کے درمیانے طبقے کی آمدن پر وار کیا گیا ہے تو دوسری طرف حکمران طبقے کو کم شرح سود پر قرضے فراہم کیے جا رہے ہیں جس سے وہ اپنے کاروبار کے منافعوں میں اضافہ کر کے اپنی تجوریاں مزید بھریں گے۔ مسلم لیگ بنیادی طور پر سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی روایتی پارٹی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی سے نالاں ہو کر مایوسی کے عالم میں مسلم لیگ کو ڈالے گئے ووٹوں کا انتقام لیا جارہا ہے۔تاہم حکومتیں کبھی بھی اپنے شوق سے عوام پر معاشی و اقتصادی مظالم نہیں ڈھاتیں۔ ایسا نہیں ہے کہ حکمرانوں کے دلوں میں عوام کا احساس یا درد موجود ہوتا ہے بلکہ سخت معاشی پالیسیوں سے انہیںاپنی مقبولیت میں گراوٹ اور عوام کی طرف سے رد عمل کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔ حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو رعایا پر زیادہ کاری ضرب نہ لگائی جائے اور بوقت ضرورت اصلاحات کا ٹیکہ لگا کر عوام کو مدہوش رکھا جائے،مبادا کوئی بغاوت پھوٹ پڑے جس سے ان کی حکمرانی پرتعیش زندگی اور استحصالی نظام کا خاتمہ ہی کردے۔تو آخر کیا وجہ ہے آج پاکستان کی ہر حکومت انتہائی دائیں بازو کی عوام دشمن معاشی پالیسیاں اپنانے پر مجبور ہے؟اس کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ یورپ اور امریکہ کی حکومتیں بھی اپنے عوام پر تاریخ کی بدترین کٹوتیاں نافذ کرنے پر مجبور ہوچکی ہیں‘ ایسے میں معاشی طور پر پہلے سے تباہ حال پاکستان جیسے ممالک میں کسی حکومت سے کیا توقع کی جاسکتی ہے؟یہاں کی فوجی آمریتیں ہوں یا جمہوری حکومتیں، سب سرمایہ دارانہ نظام معیشت کی حدود میں کام کرتی ہیں۔جمہوریت یا آمریت دو الگ نظام نہیں بلکہ ایک ہی نظام کو چلانے کے دو مختلف طریقے ہیں۔مختلف تاریخی ادوار میں کسی نظام کے مختلف تقاضے ہوا کرتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کی قوت محرکہ منافع نہیں بلکہ شرح منافع ہے۔شرح منافع میں اضافے کی ہوس کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ اس پیاس کو جتنا بجھائو یہ اتنی زیادہ بھڑکتی ہے۔تاہم شرح منافع میں لامحدود اور مستقل اضافہ ممکن نہیں ہے۔خاص طور پر پیداواری شعبے میں ایک خاص شرح منافع سے آگے نہیں جایا جاسکتا۔ اس صورت میں اپنی دولت میں اضافہ جاری رکھنے کے لئے سٹہ بازی اور سٹاک ایکسچینج کے جوئے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یوں سرمائے کی پیداواری شعبے سے غیر پیداواری شعبے کی طرف حرکت کا سفر شروع ہوتا ہے، بیروزگاری بڑھتی ہے، قوت خرید کم ہوتی ہے اور خاص مقام پر پہنچ کر پوری معیشت دھڑام ہوجاتی ہے۔ 2008ء کا عالمی معاشی بحران امریکہ سے اسی طرح شروع ہوا تھا، جو اب یورپ کے بعد پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ نظام کے بحران کی شدت کے پیش نظر حکمران طبقات سماج پر مسلط اپنی سیاست،ریاست، صحافت اور ثقافت کے ذریعے محنت کشوں پر وحشیانہ معاشی حملے کرتے ہیں۔ ان حالات میں نیچے سے بغاوت کے خطرے کے پیش عوام کو نان ایشوز میں الجھایا جاتا ہے، انہیں میڈیا پر چلنے والے مختلف کھیل تماشوں میں محو رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔قومی، نسلی اور فرقہ وارانہ تعصبات اور تنازعات ابھار کر محنت کشوں کی طبقاتی یکجہتی کو توڑنے کی کوشش کی جاتی ہے، لیکن حکمرانوں کے یہ بیہودہ ہتھکنڈے ہمیشہ کے لئے کارگر نہیں رہ سکتے۔تاریخ گواہ ہے کہ ایسے وقت بھی آتے ہیں جب محنت کش، حکمرانوں کی سماجی زنجیروں کو توڑ کر تاریخ کے میدان عمل میں داخل ہوتے ہیں۔ایسے لمحات اور حالات ہی کو انقلاب کہا جاتا ہے۔لیکن انقلابات، تاریخ کے غیر معمولی ادوار ہوتے ہیں،اگر محنت کش کامیاب نہ ہوں تو پھر گہری پسپائی اور شکستوں کے عہد میں رد انقلاب کی شکل میں خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ آج حکمرانوں کے تمام تجزیہ نگار اور نام نہاد ماہرین معیشت پٹرولیم کی قیمتوں میں برق رفتار اضافے کی تمام بحث کو اس نقطہ پر آکر ختم کردیتے ہیں کہ ’’یہ تو بین الاقوامی مسئلہ ہے، اس کا کوئی حل نہیں، برداشت کرنا پڑے گا‘‘۔یہ حضرات دراصل امریکی سامراج کے وظیفہ خوار ’’فلسفی‘‘ فوکویاما کے ’’تاریخ کے خاتمے‘‘ کے اس مفروضے کے پجاری ہیںجس کے مطابق ظلم اور استحصال پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام ہی انسانیت کا آخری مقدر ہے۔’’عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافے‘‘ والی یہ دلیل انتہائی پرانی اور گھسی پٹی ہے اور زیادہ تر جھوٹ اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہوتی ہے، آج ایک منصوبہ بند معیشت کے تحت توانائی کے سستے ذرائع اپناکے اور اچھے معیار کی پبلک ٹرانسپورٹ اور ریلوے کا نظام قائم کرتے ہوئے تیل پر انحصار کم کرکے اس مسئلہ پر بڑی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ درست ہے کہ سرمایہ داری ایک عالمی نظام ہے اور آج کے عہد میں ہم بڑی حد تک عالمگیر معیشت اور منڈی میں جکڑے ہوئے ہیں، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کی طرح دنیا بھر کے محنت کش اور نوجوان اس نظام کی ذلت کا شکار ہیں۔وہ کونسی جگہ ہے جہاں اس نظام اور اس کے ظلم کے خلاف نفرت کی آگ عوام کے سینوں میں نہیں سلگ رہی؟ کارل مارکس نے آج سے ڈیڑھ صدی پہلے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’داس کیپیٹل‘‘ (سرمایہ) میں اس نظام کے مستقبل کا جو نقشہ پیش کیا تھا اس میں دو اہم پیش گوئیاں شامل تھیں: پہلی یہ کہ اس نظام کے ارتقا سے کم سے کم ہاتھوں میں زیادہ سے زیادہ دولت کا ارتکاز ہوگا اور نسل انسانی کی اکثریت غربت، بھوک اور محرومی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوجائے گی۔دوسری پیش گوئی یہ تھی کہ سرمائے کی بڑھتی ہوئی عالمگیریت اور اجارہ دارانہ کردار کی وجہ سے قومی ریاست کی افادیت کم ہوتے ہوتے آخر کار ختم ہوجائے گی۔آج یہ دونوں پیش گوئیاں حقیقت بن چکی ہیں۔تاہم مارکس نے یہ بھی کہا تھا کہ محنت کشوں کی بغاوت کے نتیجے میں کسی ایک ملک میں جنم لینے والا سوشلسٹ انقلاب، عالمی انقلاب کی طرف بڑھے گا۔ آج لاطینی امریکہ سے لے کے یورپ اور عرب تک ، دنیا کے ہر خطے میں غربت، بیروزگاری، استحصال اور گرتے ہوئے معیار زندگی کے خلاف عوامی بغاوتیں ابھر رہی ہیں۔ مارکس نے اس نظام کی وحشت کا حل بہت واضح طور پر د یا تھا: ’’فلسفیوں نے دنیا کی صرف تشریح کی ہے، مسئلہ اسے بدلنے کا ہے‘‘۔