نواز لیگ حکومت نے برسر اقتدار آتے ہی تیزی سے سرمایہ دارانہ پالیسیوں کا آغاز کیا ہے،اس سے لگتا ہے کہ یہ بہت جلدی میں ہے۔پی آئی اے کے 26فیصد شیئرز کی فروخت اور نئے مالکان کو انتظامی اختیارات کی منتقلی ،نجکاری کی پالیسی کا پہلا وارہے۔6.68ارب ڈالر کا قرضہ دینے کے ساتھ آئی ایم ایف نے 12ستمبر کواپنے ’’ نسخے ‘‘ نافذ کرانے کے لیے یہ بیان جاری کیا ہے: ’’درمیانے عرصے میں پاکستان کی معیشت کی کارکردگی خراب رہے گی …معیشت کی صحت کے لئے خطرات اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک مکمل اور دور رس ’اصلاحات‘ نافذ نہیں کی جاتیں…معاشی اور انتظامی شعبوں میں سپریم کورٹ کی مداخلتوں کا ریکارڈ موجود ہے جو اب غیر یقینی صورتحال کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘ یہ درست ہے کہ ایک لمبے عرصے سے کئی سرکاری ادارے خسارے اور نقصان کا شکارچلے آرہے ہیں۔مالیاتی ذرائع ابلاغ اس کا ایک ہی حل پیش کررہے تھے،نجکاری۔ بین الاقوامی سطح پر 2008ء میں شروع ہونے والے سرمایہ داری کے عالمی معاشی کریش سے نہ صرف یورپ، امریکہ اور دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے محنت کش عوام برباد ہورہے ہیں بلکہ ہر طرف سرمایہ کاری بھی ڈوب گئی ہے۔پاکستان میں پی آئی اے، سٹیل مل اور ریلوے جیسے دیو ہیکل ریاستی اداروں کو مکمل طور پر خریدنے والا کوئی خریدار موجود نہیں ہے۔ایسی ہی صورتحال 1980ء کی دہائی میں برطانیہ کی دائیں بازو کی حکومت کو درپیش تھی جب آنجہانی وزیراعظم مارگریٹ تھیچر نے برٹش ٹیلی کام کو صرف ایک پائونڈ کی کاغذی قیمت پر فروخت کردیا تھا۔تاہم ہمارے کمزور سرمایہ دار حکمرانوں کے لئے ایسا کرنا بھی ممکن نہیں ہے، اتنے بڑے خساروں سمیت پورے اداروں کو خریدنے والا انہیں کون ملے گا؟ نجکاری کی پالیسی قیامت بن کر پاکستان کے محنت کشوں پر ٹوٹے گی اور مہنگائی، بیروزگاری ، غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔پی آئی اے اور ریلوے کے کرائے مزید بڑھیں گے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بڑی نجکاری بینظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں ہوئی۔پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت میں بھی نجکاری کی وزارت اور پالیسی کو قائم رکھا گیا۔پیپلز پارٹی حکومت نے پی آئی اے کو 2011ء میں بیچنے کی کوشش کی جسے محنت کشوں کی مزاحمت نے ناکام بنادیا ۔پاکستان میں مزدور تحریک کی پسپائی اور ٹریڈ یونین قیادت کے دیوالیہ پن کی وجہ سے حکمرانوں کو بظاہر کسی بڑی رکاوٹ کا سامنا نہیں ہے لیکن ایک بار پھر عام محنت کشوں کے جانب سے آنے والا بڑا رد عمل حکمرانوں کو یہ فیصلہ واپس لینے پر مجبور کرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ نجکاری کے علاوہ تباہ حال اور فرسودہ سرکاری اداروں کا علاج کیا ہے؟یہ درست ہے کہ مختلف ادوار میں ریاست کئی اداروں کو قومی تحویل میں لیتی رہی ہے لیکن یہ سب اقدامات سرمایہ دارانہ نظام کی حدود و قیود کے اندر رہتے ہوئے کئے گئے۔اداروں کے انتظامی معاملات اور فیصلہ سازی میں محنت کشوں کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ اس کے باوجود یہ ایک ترقی پسندانہ قدم تھا اور ریاستی سرپرستی میں ایسے دیوہیکل اور کارگر صنعتی اور خدماتی ادارے تعمیر کئے گئے جن کا خواب پاکستانی بورژوازی اگلے سو سال میں بھی نہیں دیکھ سکتی۔ یہ قومی ادارے ایک وقت میں معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے تھے۔لاکھوں محنت کشوں کو روزگار فراہم کرنے والے یہ ادارے نہ صرف منافع بخش تھے بلکہ حکومتی آمدن کا اہم ذریعہ تصور کئے جاتے تھے۔پی آئی اے کی بات کریں تو اس کا شمار دنیا کی بہترین ائیر لائنوں میں ہوتا تھا ۔البتہ سرمایہ دارانہ معاشرے میں مالیاتی سرمائے کا زہر سماج کے ہر رشتے، ہر ادارے میں سرایت کر جاتا ہے۔ان اداروں میں ٹریڈ یونین قیادت رفتہ رفتہ بذات خود ایک مراعات یافتہ بیوروکریسی میں تبدیل ہو گئی۔یہ ٹریڈ یونین لیڈر مادی اور نفسیاتی طور پر حکمرانوں کی اخلاقیات، اقدار اور روایات میں ضم ہو کر ان کے مفادات کا آلہ کار بن گئے۔ٹریڈ یونین آخری تجزیے میں اسی نظام کا حصہ ہوتی ہے۔وہ مالکان اور منیجروں سے سودا کاری کر کے مزدوروں کے لیے رعایات اور سہولتیں حاصل کرتی ہے ، لیکن دو طبقات کے درمیان پر امن لین دین کا یہ عمل اسی وقت جاری رہ سکتا ہے جب نظام میں اصلاحات کی گنجائش موجود ہو اور مزدوروں کو چند سہولتیں دینے سے سرمایہ داروں کی شرح منافع متاثر نہ ہو۔ آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ نظام یہ صلاحیت کھو چکا ہے۔لینن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’سامراجیت:سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں ٹریڈ یونین اشرافیہ کا تجزیہ کچھ یوں کیا تھا: ’’دوسری انٹرنیشنل ( اصلاح پسندی) کی اصل بنیاد وہ مزدور اشرافیہ ہے جو اپنی آمدن اور نقطہ نظر کے لحاظ سے سرمائے کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے۔مزدور اشرافیہ کی یہی پرت بورژوازی کی سماجی بنیاد بھی ہے۔یہ لوگ مزدور تحریک میں حکمران طبقے کے آلہ کار ہیں، مزدوروں کے بھیس میں سرمایہ داروں کے مددگار ہیں، اصلاح پسندی اور قومی تعصب کا حقیقی منبع و ماخذ ہیں۔‘‘ مراعات یافتہ ٹریڈ یونین قیادت اور ریاستی اداروں پر بڑی تعداد میں براجمان بیوروکریٹوں اور’’ماہرین‘‘ کے مفادات ان اداروں کو موجودہ حالت میں قائم رکھنے سے مشروط ہیں۔بے روزگاری کے اس سمندر میں مختلف سیاسی پارٹیاں اپنے ’’ورکروں‘‘کو رشوت کے طور پر ان اداروں میں ملازمتیں دے کر ان کی وفاداریاں خریدتی ہیں، یا پھر برسراقتدار پارٹیاں مصنوعی طور پر آسامیاں پیدا کرتی ہیں جنہیں بیچ کر پارٹی عہدہ داران اپنی جیبیں گرم کرتے ہیں۔ نجکاری کے اس عمل کے دوران تین قوتوں کے مفادات ایک دوسرے سے متصادم ہیں۔ ایک طرف وہ سرمایہ دارہیں جو زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنا چاہتے ہیں، دوسری طرف ٹریڈ یونین اشرافیہ اور حکومتی بیوروکریسی ہے جن کی مراعات ان اداروں کے قومی تحویل میں رہنے سے وابستہ ہیں، تیسرا فریق ان اداروں کے محنت کش ہیں جن کے پاس اپنی قوت محنت بیچنے کے سوا زندہ رہنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔یہ نجکاری پاکستان کے بجٹ ،خزانے اور مالیاتی خسارے کبھی پورا نہیں کر سکے گی۔اس نجکاری کا فائدہ صرف سامراجی اجارہ داریوں اور سرمایہ داروں کو ہوگا۔حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے کسی بھی تعمیراتی یا معاشی منصوبے کا مقصد عوام کی فلاح نہیں ۔ اس نظام میں ہر معاشی یا پیداواری سرگرمی کی قوت محرکہ انسان کی سہولت نہیں بلکہ منافع اور شرح منافع ہوتی ہے۔ پی آئی اے کے ان ملازمین کے لئے یہ ایک لمحہ فکریہ ہے جو دوسرے مزدوروں کو شعوری یا لاشعوری طور پر اپنے آپ سے حقیر سمجھتے ہیں۔اس نظام میں جہاں رنگ، نسل، ذات پات، مذہب اور فرقے کے تعصبات محنت کشوں کے شعور پر مسلط کئے جاتے ہیں وہاں مزدوروں کے مابین اداروں اور اجرتوں میں اونچ نیچ کی تفریق بھی قائم کی جاتی ہے۔پی آئی اے کی نجکاری کا اعلان صرف آغاز ہے، سرمایہ داروں کی یہ حکومت آنے والے دنوں میں محنت کشوں پر مزید وحشیانہ حملے کرے گی۔کسی بھی ادارے کے مزدور تنہا اس بربریت کا مقابلہ نہیں کرسکتے ،پورے طبقے کو اکٹھا ہونا پڑے گا۔حکمرانوں کے ساتھ ساتھ غدار ٹریڈ یونین قیادتوں کے خلاف بھی لڑنا ہوگا اور ٹریڈ یونین کو اس طبقاتی لڑائی کے لڑاکا اداروں میں تبدیل کرنا ہوگا۔جب محنت کش یکجا ہو کر طبقاتی جدوجہد کے میدان میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے معاشی مطالبات سیاسی مطالبات میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔اسی کو انقلاب یا قبل از انقلاب کی سماجی کیفیت کہا جاتا ہے۔ ایسی انقلابی صورتحال اگر پاکستان میں پیدا ہوتی ہے محنت کشوں کی جدوجہد کا دھارا ایک مکمل معاشی، سماجی اور سیاسی تبدیلی کی طرف بھی بڑھ سکتا ہے۔طبقاتی جنگ کا میدان سجنے کو ہے۔ اس معرکے میں محنت کشوں کی فتح سے نہ صرف اداروں کے خسارے ختم ہوں گے بلکہ سامراجی اور مقامی حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت واپس چھین کر معاشرے کی تعمیر نو اور اس کے باسیوں کی نجات اور خوشحالی پر صرف کی جائے گی۔ اک کھیت نہیں، اک دیس نہیں …ہم ساری دنیا مانگیں گے!