پہلے کیا محرومیوں میں کچھ کمی رہ گئی تھی کہ پٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافہ کر کے اس ملک کے نادار عوام پر مہنگائی کا نیا عذاب مسلط کر دیا گیا ہے؟یہ ایک ایسا معاشی حملہ ہے جس نے موجودہ حکومت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے حکمران طبقات کی بے حسی اور جابرانہ کردار کو ایک بار پھر بے نقاب کردیا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں سے لے کر بلوچستان میں خوفناک زلزلے سے پھیلنے والی بربادی اور ملک کے طول و عرض میں خون ریزی کرتی انتہا پسندوں کی دہشتگردی تک… ہر عذاب، ہر قہر، ہر تباہی صرف غریبوں کو ہی نشانہ بناتی ہے۔ قانون کی گرفت میں بھی یہی غریب طبقات اور افراد ہی آتے ہیں۔ منہ بولی قیمت ادا کرنے کی اہلیت رکھنے والے دولت مند، بڑے سے بڑا جرم کر کے بھی باعزت بری ہوجاتے ہیں۔ مسلسل کرب اور مصائب کا یہ سلسلہ رکنے کی بجائے اور بھی تلخ ہوتا چلا جارہا ہے۔ہر نئی حکومت پہلے سے معاشی و سماجی طور پر بدحال عوام پر زیادہ شدت سے معاشی بوجھ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ مہنگائی کی حالیہ لہر دراصل اس ملک میں دہائیوں سے جاری اس معاشی سرگرمی کا ہی تسلسل ہے جو تب بھی عوام کا معاشی قتل عام کر رہی تھی جب انتہا پسندوں اور مافیا گروہوں نے ابھی شدت نہیں پکڑی تھی۔ گزشتہ چھیاسٹھ سالوں میں پاکستانی عوام کی بدحالی میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔ اس طرح بہتر مستقبل کی مبہم سی امید بھی دم توڑ گئی ہے۔ پاکستانی عوام کی سماجی اور معاشی حالت خوفناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے اکٹھے کیے گئے اعدادو شمار دل دہلا کے رکھ دیتے ہیں۔ 82فیصد پاکستانی غیر سائنسی علاج (نیم حکیموں کا علاج، تعویز گنڈے وغیرہ) کروانے پر مجبور ہیں۔غذائی قلت کی وجہ سے44فیصد بچوں کی نشوونما نا مکمل ہے، یعنی پاکستان کے تقریباً نصف بچے ذہنی اور جسمانی طور پر کبھی مکمل انسان نہیں بن پائیں گے۔پاکستان میں زچگی کے دوران اموات کی شرح جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ہر 30منٹ میں ایک ماں نئی زندگی کو جنم دیتے ہوئے اپنی زندگی کی بازی ہار جاتی ہے، سالانہ پانچ لاکھ مائیں زچگی کے دوران ہلاک ہوجاتی ہیں۔ صحت پر حکومتی اخراجات جی ڈی پی کے 0.6فیصد سے بھی کم ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں 147ویں نمبر پر ہے۔تعلیم سے محروم بچوں کی شرح کے لحاظ سے پاکستان دنیا بھر میں دوسرے نمبر پر ہے جہاں اڑھائی کروڑ بچوں کو سکول میسر نہیں۔2اکتوبر کو شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان بزرگوں اور معمر افراد کے لئے بدترین ممالک کی فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔اکیسویں صدی کے اس جدید دور میں بھی ایک چوتھائی آبادی کو بیت الخلا کی سہولت میسر نہیں‘ 70فیصد عوام کو پینے کا صاف پانی مہیا نہیں۔پاکستان اکنامک واچ کے مطابق بیروزگاری کی شرح 50فیصد ہے اور ہر سال دس لاکھ مزید نوجوان بیروزگاروں کی اس فوج میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔ دوسری طرف چھوٹی قومیتوں پر جبر اور خواتین کے حقوق کی پامالی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ تمام تر قوانین موجود ہونے کے باوجود ملک کے طول و عرض میں لاکھوں کی تعداد میں کسان اور مزدور آج بھی جبری مشقت پر مجبور ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات اور ان کے نظام کی چھیاسٹھ سالہ کارکردگی کی یہ صرف معمولی سی جھلک ہے۔چند سطور یہاں کے محنت کش عوام کی محرومیوں اور حکمرانوں کی جانب سے استحصال کو سمیٹنے سے قاصر ہیں۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ کو کسی امید کی بجائے پیپلز پارٹی سے مایوسی اور بددلی کا ووٹ ملا تھا۔ یہ امیروں کے لئے امیروں کی حکومت ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ سرمایہ داروں اور جاگیر داروں کی روایتی پارٹی ہے جسے مسلمان اشرافیہ نے اپنے مالی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لئے قائم کیا تھا۔اپنی وفات سے ایک سال قبل سر علامہ محمد اقبال نے قائداعظم محمد علی جناح کو لکھے گئے ایک خط میں واضح طور پر بیان کیا تھا کہ ’’مسلم لیگ کو فیصلہ کرنا پڑے گا کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بالادست طبقے کی نمائندہ ہے یا عام مسلمانوں کی، جن کے پاس مسلم لیگ میں دلچسپی لینے کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ذاتی طور پر میرا خیال ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت عوام کے لئے پُرکشش نہیں ہوسکتی جسے عام مسلمانوں کی زندگی کو بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔نئے آئین کے تحت بالائی عہدے امیر طبقے کے بچوں کے تصرف میں ہیں جبکہ اس سے نیچے والوں پر وزراء کے دوست یار اور رشتہ دار قابض ہیں۔ہماری سیاسی جماعت نے عام مسلمانوں کی حالت زار میں بہتری کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں ہے‘‘۔ قیام پاکستان کے بعد اقبال کا یہ تجزیہ زیادہ درست ثابت ہوا ہے۔یہاں برسر اقتدار آنے والے فوجی حکمران مسلم لیگ کے لاحقے تبدیل کر کے اسے اپنی آمریتوں کو ’’جمہوری‘‘ رنگ دینے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔مسلم لیگ کی موجودہ حکومت اور اس کے عہدہ دار اپنی خواہش سے یہ اقدامات نہیں کر رہے ہیں، بلکہ یہ اس نظام کی ضرورت ہے جس کے وہ نگہبان ہیں۔ پاکستان کے حکمران طبقات روز اول سے ہی ایک جدید صنعتی انفراسٹرکچر اور صحت مند سرمایہ دارانہ ریاست قائم کرنے میں ناکام رہے ہیں۔غیر ہموار معاشی نمو نے صورتحال کو مزید بگاڑ دیا اور سماجی تضادات کو ابھارا ہے۔یہاں کے سرمایہ دار مالی طور پر نحیف اور تاریخی طور پر تاخیر زدہ ہیں۔ ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری، قرضہ خوری، کرپشن اور ریاست کو لوٹے بغیر وہ اقتصادی اور سیاسی طور پر اپنا وجود برقرار نہیں رکھ سکتے۔ ملکی سرمایہ داری تاریخی طور پر صحت مند بنیادوں پر معاشی نمو دینے سے قاصر رہی ہے۔دوسری طرف عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران نے صورتحال کو اور بھی پیچیدہ بنا دیا ہے۔ برازیل، بھارت اور چین سمیت نام نہاد ’’ابھرتی ہوئی معیشتوں‘‘ کی شرح نمو میں تیزی سے ہونے والی گراوٹ، جاپان اور یورپ میں بڑھتی ہوئی معاشی تنزلی اور کٹوتیاں،امریکی حکومت کا حالیہ شٹ ڈائون… یہ سب سرمایہ داری کے ا س نامیاتی بحران کی علامات ہیں جو شدید ہوتا چلا جارہا ہے اور جس کا کوئی علاج بورژوا ماہرین معیشت کے پاس نہیں ہے۔ ان حالات میں پاکستان جیسی معیشتوں کا کیا مستقبل ہو سکتاہے؟ محسوس ہوتا ہے کہ بے قابو ہوتے ہوئے افراط زر اور مہنگائی کے حکومتی اقدامات سے غربت میں مزید اضافہ ہوگا۔خوراک کی قیمتوں میں صرف 10فیصد اضافے سے مزید 34لاکھ پاکستانی خط غربت سے نیچے گر جاتے ہیں۔پٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے خوراک سمیت تمام تر ضروریات زندگی کی قیمتیں بڑھیں گی۔ معاشی انحطاط کا سلسلہ ابھی رکے گا نہیں، یہ صرف آغاز ہے۔ معیشت کے بڑھتے ہوئے قرضوں اور خساروں کا تمام تر بوجھ عوام پر ڈالا جائے گا۔مسئلہ کسی ایک حکومت یا سیاسی جماعت کا نہیں ہے۔ تمام تر حاوی سیاسی جماعتوں کا معاشی پروگرام ایک ہے۔ سبھی سیاسی رہنما آزاد منڈی کی معیشت پر یقین رکھتے ہیں اور سرمایہ داری کو حتمی و آخری نظام مانتے ہیں۔ ان حکمرانوں کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہیں اور وہ اس میں چھپی بے رحمی اور شدت کو ہر صورت میں قائم رکھنا چاہیں گے۔پاکستان کے محنت کش اور نوجوا ن وہ واحد قوت ہیں جو وحشت کے اس سلسلے کو توڑ کر معاشی شدت کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ اپنے مقدر کو اپنے ہاتھوں سے تراشنے کے لئے جب وہ تاریخ کے میدان میں اتریں گے تو سماج کو یکسر تبدیل کر دینے والی سیاسی قوت خود تخلیق کریں گے۔