30 ستمبر کی آدھی رات کو واشنگٹن میں کیپٹل ہل (Capitol hill) پر کانگریس کے دونوں ایوانوں میں امریکی سیاست دانوں کے مابین تکرار انتہا پر تھی۔ ہر رکن دوسرے کو سرکاری بجٹ پاس نہ ہونے پر حکومتی اداروں کی بندش کا مورد الزام ٹھہرا رہا تھا۔ اس تالہ بندی کے نتیجے میں آٹھ لاکھ سرکاری ملازمین کو فوری طور پر معطل کر دیا گیا جبکہ 13 لاکھ سے زائد محنت کشوں کو بغیر اجرت کے کام کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ سلسلہ دس روز سے جاری ہے۔ امریکی فوج کے سوا ہر شعبے، ایجنسی اور ادارے (بشمول خلائی ایجنسی ناسا) کے ملازمین معطل ہیں۔ صرف انتہائی لازمی شعبوں میں مخصوص ہنر رکھنے والے ملازمین کو فارغ نہیں کیا گیا‘ مثلاً انٹرنیشنل خلائی سٹیشن میں موجود خلابازوں کو آکسیجن اور دوسری تکنیکی ضروریات فراہم کرنے والے سائنسدان اور انجینئر وغیرہ۔ امریکی ریاست تین قسم کے سیاسی اداروں پر مشتمل ہے۔ ان میں وائٹ ہائوس (صدر اور اس کی کابینہ) سینٹ (ایوان بالا جس کے ممبران چھ سال کے لئے چنے جاتے ہیں) اور ایوان نمائندگان (ایوان زیریں جس کے نمائندے دو سال کے لئے منتخب ہوتے ہیں) شامل ہیں۔ اس وقت وائٹ ہائوس میں موجود صدر کا تعلق ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے اور سینٹ میں بھی اسی سیاسی جماعت کو اکثریت حاصل ہے، لیکن ایوان نمائندگان میں اکثریت ریپبلکن پارٹی کے پاس ہے۔ امریکی ریاستی اخراجات کا مکمل بجٹ آخری بار 1997ء میں منظور ہوا تھا۔ اس کے بعد کے 16 سالوں میں جزوی اور عارضی بجٹوں کے ذریعے ہی کام چلایا جاتا رہا۔ 2008ء سے شروع ہونے والے عالمی سرمایہ داری کے کریش (Crash) نے امریکی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ اس بار ایوان نمائندگان میں اکثریت رکھنے والی ری پبلکن پارٹی نے جزوی یا ثانوی بجٹ کی منظوری دینے سے انکار کر دیا ہے۔ ری پبلکن پارٹی نے صحت کے شعبے میں اوباما کی جانب سے کی جانے والی کمزور اور سطحی اصلاحات (اوباما کیئر) کو روکنے کی شرط عائد کی ہے۔ اس سے لاکھوں امریکی مزدوروں کو روزی روٹی کے لالے پڑ گئے ہیں جبکہ دوسری طرف ’’بچت‘‘ کا درس دینے والے پارلیمانی ارکان کی فی کس تنخواہ 18625 ڈالر ماہانہ ہے۔ اسلحہ ساز کمپنیوں اور دوسری کارپوریٹ اجارہ داریوں سے لابنگ کی بنیاد پر ملنے والے کروڑوں ڈالر کے کمیشن اس کے علاوہ ہیں۔ حکومتی بندش کا سب سے بڑا خطرہ یہ ہے کہ امریکی ریاست 17 اکتوبر تک اپنے قرضوں کی ادائیگی میں ناکامی پر دیوالیہ پن کا شکار ہو سکتی ہے۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کے درمیان تنازع کا اہم پہلو حکومتی قرضوں کی حد (Debt Ceiling) بڑھائے جانے پر اختلاف بھی ہے کیونکہ امریکی ریاست کا قرضہ پہلے سے طے شدہ حد سے تجاوز کر چکا ہے اور امریکہ پچھلے 50 سال میں دنیا کے سب سے زیادہ قرضے دینے والے ملک سے تبدیل ہو کر سب سے بڑا مقروض بن چکا ہے۔ امریکی ریاست کے قیام کے بعد سے 1980ء تک کے دو سو سالوں میں امریکہ کا ریاستی قرضہ ایک ہزار ارب ڈالر تھا لیکن اس کے بعد کے صرف 33 سالوں میں یہ قرضہ بڑھ کر 17ہزار ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور اس میں 2.7 ارب ڈالر روزانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ امیروں پر ٹیکس لگانے کی بجائے قرضے لے کر یا غریب عوام پر ٹیکس لگا کر ریاستی معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ قرض کا یہ پہاڑ کھڑا کرنے میں عراق اور افغانستان کی جنگوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے۔ دنیا بھر میں سرمایہ دارانہ جبر اور سامراجی استعمار پر فوجی اخراجات نے امریکی معیشت کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے۔ امریکی سرمایہ داری میں اب اتنی سکت نہیں رہی کہ وہ سامراج کے سیاسی اور فوجی عزائم اور جنونی مہمات کو جاری رکھ سکے۔ لاک ہیڈ مارٹن، ایپل اور مائیکروسافٹ جیسی اجارہ داریوں کی معاشی قوت امریکی ریاست سے بڑھ چکی ہے۔ امریکہ کا ’’دفاعی بجٹ‘‘ دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اس فہرست میں اپنے بعد آنے والے 15 ممالک کے مجموعی دفاعی بجٹ سے زیادہ رقم امریکہ ہر سال اسلحے اور جنگوں پر خرچ کر رہا ہے۔ 2008ء کے بعد سے عالمی معیشت میں امریکہ کا حصہ 32 فیصد سے کم ہو کر 23 فیصد رہ گیا ہے جبکہ اس کے فوجی اخراجات دوگنا ہو چکے ہیں۔ 2008ء میں پینٹاگان (امریکی وزارت دفاع) صرف عراق جنگ پر ہر 5 سیکنڈ میں ایک امریکی شہری کی اوسط سالانہ آمدن سے زائد رقم خرچ کر رہی تھی۔ یہ درست ہے کہ امریکہ کو دنیا بھر کی ریزرو کرنسی یعنی ڈالر چھاپنے کے معاملے میں دیوہیکل معاشی فوقیت حاصل ہے جس کی وجہ سے وہ پچھلے کچھ عرصے میں بے دریغ قرضے بھی لیتا رہا ہے لیکن مصنوعی بنیادوں پر ڈالر چھاپ کر معیشت کو ایک مخصوص حد تک ہی چلایا جا سکتا ہے۔ یہ حد اب پار ہو چکی ہے۔ عالمی سرمایہ داری کی نمائندگی کرنے والا جریدہ اکانومسٹ اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ قرضوں کی عدم ادائیگی ایک مالیاتی ہارٹ اٹیک کا موجب بن جائے گی‘‘۔ امریکی وزارت خزانہ کے بیان کے مطابق ’’یہ عدم ادائیگی کبھی نہ دیکھی گئی۔ یہ بربادی کو جنم دے گی۔ قرضوں کی منڈیاں منجمد ہو جائیں گی، ڈالر کی قدر بری طرح گر جائے گی، شرح سود آسمان سے باتیں کرنے لگے گی اور اس کے منفی اثرات پوری دنیا میں پھیل جائیں گے۔ یہ صورتحال 2008ء کے واقعات سے بھی زیادہ بھیانک اور سنگین ہو گی‘‘۔ امریکہ کے امیر ترین افراد میں سے ایک، وارن بفٹ نے کہا ہے: ’’یہ صورتحال ایٹمی جنگ سے زیادہ ہولناک ہو گی‘‘۔ ڈیموکریٹس اور ری پبلکنز کے مابین حالیہ سیاسی تصادم 2008ء سے شروع ہونے والی معاشی تنزلی کی عکاسی کرتا ہے لیکن جدلیاتی طور پر دیکھا جائے تو یہ سیاسی تصادم مزید معاشی اور مالیاتی بحرانوں کو جنم دے گا۔ امریکہ کے ایک عظیم مفکر گورویڈال نے ایک مرتبہ کہا تھا: ’’امریکہ میں صرف ایک پارٹی ہے جس کے دو دائیں بازو ہیں (ری پبلکن اور ڈیموکریٹ)‘‘۔ ان دونوں سرمایہ دارانہ پارٹیوں کا بنیادی اختلاف اس بوسیدہ نظام کو بچانے کے چور رستے پر ہے۔ ڈیموکریٹک پارٹی اور اوباما میٹھی چھری سے امریکی محنت کشوں کا گلا کاٹنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس بحران، خسارے اور قرضوں کا بوجھ آہستہ آہستہ امریکی عوام پر ڈالا جائے۔ دوسری طرف ری پبلکن پارٹی امریکی عوام کو ایک ہی وار سے ذبح کر دینا چاہتے ہیں۔ قرضوں کی عدم ادائیگی سے ہونے والے معاشی دیوالیہ پن کا خوف و ہراس پھیلا کر وہ امریکی عوام سے مزید ’’قربانی‘‘ کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ امریکی عوام حکمران طبقے کی اس معاشی بربریت کا کیا جواب دیں گے؟ وہ کتنی مزاحمت کر سکیں گے؟ حالیہ سروے کے مطابق امریکی کانگریس پر صرف 10فیصد امریکی شہری اعتماد کرتے ہیں جن کا تعلق امریکہ کے امرا اور اوپر کے درمیانے طبقے (Upper middle class) سے ہے۔ امریکی محنت کش جدوجہد اور انقلابی تحریکوں کی سنہری روایات کے امین ہیں۔ امریکہ میں مضبوط ٹریڈ یونین موجود ہیں جو اس صورتحال میں متحرک ہو سکتی ہیں۔ امریکی نوجوانوں اور محنت کشوں میں دونوں سرمایہ دارانہ پارٹیوں کے مقابلے میں امریکی لیبر پارٹی کی تشکیل کی تحریک بھی ابھر رہی ہے۔ ٹریڈ یونین قیادت زیادہ تر ڈیموکریٹ پارٹی کی دم چھلا ہے لیکن عام محنت کشوں میں غم و غصہ بڑھ رہا ہے۔ امریکی عوام میں بے روزگاری کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور علاج، رہائش اور اعلیٰ تعلیم تک عام شہری کی رسائی مشکل ہوتی چلی جا رہی ہے۔ پچھلے سال 26000 امریکی شہری ہیلتھ انشورنس نہ ہونے کی وجہ سے انتقال کر گئے تھے۔ ایک فیصد امریکی ملک کی 50 فیصد دولت پر قابض ہیں جبکہ نیچے کے 50 فیصد شہریوں کے تصرف میں صرف ایک فیصد دولت ہے۔ اس معاشی اور سماجی تفریق میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ 2011ء میں ابھرنے والی ’’آکو پائی وال سٹریٹ‘‘ تحریک امریکی عوام کے غم و غصے کی صرف ایک جھلک تھی جس کے دوران ’’99 فیصد بمقابلہ 1 فیصد‘‘ کا نعرہ پورے امریکہ میں گونج اٹھا تھا۔ آنے والے دنوں میں طبقاتی کشمکش کے نئے طوفان امریکی سماج کو جھنجھوڑ کر رکھ دیں گے۔ امریکی ثقافت کے ہر پہلو کی طرح محنت کشوں کا شعور بھی ’’فاسٹ‘‘ انقلابی ہو گا۔ لیون ٹراٹسکی نے کئی دہائیاں پیشتر لکھا تھا: ’’امریکہ کا سوشلسٹ انقلاب فولاد کی وہ بھٹی ہے جس میں پک کر انسانیت کا مستقبل تابناک ہو گا‘‘۔