ملک کی 66سالہ تاریخ میں ہر سربراہ مملکت کا دورۂ امریکہ سب سے زیادہ توجہ طلب ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں رائج معاشی، سماجی اور اقتصادی نظام کا عالمی سطح پر حتمی آقا امریکہ ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد امریکہ تاریخ کی سب سے طاقتور معاشی و سیاسی قوت اور عالمی پولیس مین بن کر ابھرا تھا۔اس سے پیشتر یہ کردار بڑی حد تک برطانوی سامراج ادا کرتا تھا۔دوسری عالمی جنگ کے دوران ماسوائے پرل ہاربر پر جاپانی فضائی حملے کے، امریکی سرزمین جنگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہی تھی لیکن جنگ کے پانچ سال سے زائد عرصے کے دوران امریکہ میں حالت جنگ کے ایمرجنسی قوانین نافذ رہے۔ ان جبری قوانین کے ذریعے امریکی محنت کشوں کے حقوق سلب کئے گئے اور ان کے بھرپور استحصال سے بڑے پیمانے پر صنعتی پیداوار کی شکل میں قدر زائد کا ذخیرہ جمع کیا گیا۔ عالمی جنگ کے اختتام تک یورپ اور جاپان برباد ہوچکے تھے۔ جنگ کی تباہ کاریوں سے برطانیہ اوریورپ کی دوسری سامراجی قوتوں کی معاشی، صنعتی اور عسکری طاقت مفلوج ہو چکی تھی چنانچہ عالمی سرمایہ داری کو بچانے اور سوویت یونین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدودکرنے کے لئے امریکی وزیر خارجہ جیمز مارشل نے یورپ اور جاپان کی تعمیر نو کا منصوبہ پیش کیا جسے ’’مارشل پلان‘‘ کہا جاتا ہے۔ مارشل پلان کے تحت جنگ کے دوران اکٹھی ہونے والی امریکی صنعتی پیداوار کو یورپ اور دوسرے تباہ حال ممالک میں صرف کرکے امریکی سرمایہ داروں نے بے پناہ مالی فائدہ اٹھایا اور یوں امریکہ دنیا کا امیر ترین ملک بن گیا۔ساری سرمایہ دارانہ دنیا اس کی مقروض ہوچکی تھی؛ چنانچہ امریکہ نے عالمی پولیس مین اور غالب سامراج کا رتبہ حاصل کر لیا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سوویت یونین کی منصوبہ بند معیشت اور مغربی سرمایہ داری کے درمیان تضاد نے سرد جنگ کی شکل اختیار کر لی اور دنیا سیاسی و سفارتی طور پر دو بلاکوں میں تقسیم ہوگئی۔سوویت یونین کے اثرو رسوخ کو توڑنے اور انقلاب کے خطرے کے پیش نظر امریکی سامراج نے جنوبی کوریا، ہانگ کانگ، فارموسا (تائیوان)، جاپان اور مغربی یورپ میں بھاری امداد، فوجی ڈسپلن اور مضبوط معاشی منصوبہ بندی کے ذریعے معاشی ترقی کرائی۔ خاص کر یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کی اصلاحات کے ذریعے محنت کشوں کے حالات زندگی کو بہتر کیا گیا، بصورت دیگر وہ انقلابی بغاوت کے رستے پر چل نکلتے۔تاریخ گواہ ہے کہ سامراجی قوتوں کا یہ وتیرہ رہا ہے کہ وہ جنگوں کے ذریعے بربادی کراتی ہیں اور اس دوران اسلحہ بیچ کر بھاری منافعے کمائے جاتے ہیں۔ جنگ کے بعد ’’امن‘‘ کا مرحلہ آتا ہے جس میں سامراج کی صنعتیں ’’تعمیر نو‘‘ کے ذریعے اپنی پیداوار کھپا کر منافعے کماتی ہیں۔ 1916ء میں پہلی عالمی جنگ کے دوران لینن کی کامریڈ انیسا آرمنڈنے سوال کیا تھاکہ ’’یہ جنگ کتنی خوفناک ہوتی ہے نا؟‘‘،پُر اطمینان لہجے میں لینن کا جواب تھا ’’جنگ ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہے…‘‘ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی سامراج نے بے دریغ اور بلا خوف و خطر استحصال، جارحیت اور لوٹ مار کا سلسلہ شروع کیا۔ تاہم اس تمام تر مالیاتی اور عسکری جارحیت کے باوجود بھی سامراج اپنے حجم کے مطابق ترقی اور شرح منافع حاصل نہیں کرپایا کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام تاریخی طور پر متروک اور معاشی و اقتصادی طور پر مفلوج ہوچکا تھا۔امریکی اور یورپی معیشتیں پرانی طرز پر قرضوں کے سہارے مصنوعی بنیادوں پر چلتی رہیں۔ 2008ء میں قرضوں کا یہ پہاڑ زمین بوس ہوگیا اور سرمایہ دارانہ نظام عالمی سطح پر تاریخ کے سب سے بڑے کریش کا شکار ہوا۔ عالمی سرمایہ داری اس بحران سے ابھی تک نہیں نکل سکی ۔امریکہ اس وقت اپنے مجموعی پیداواری اثاثوں سے زائد کا مقروض ہے۔اگر ڈالر کو عالمی کرنسی کی حیثیت حاصل نہ ہوتو امریکہ ایک رات میں دیوالیہ ہوجائے، لیکن ڈالر کو عالمی کرنسی کے طور پر برقرار رکھنے میں بھی خلیجی ممالک، جاپان اور چین کا کلیدی کردار ہے جنہوں نے امریکی قرضے کو ٹریژری بانڈز کی شکل میں خریدا ہوا ہے۔بیک وقت مخاصمت اور مصالحت کے اس تضاد اور معیشت کی عالمگیریت کے باعث سامراج کو مالیاتی بحران سے نکلنے کے لئے جس تیسری عالمی جنگ کی ضرورت ہے اس کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں؛ چنانچہ وہ عراق، افغانستان، افریقہ اور دوسرے خطوں میں محدود جنگیں لڑنے یا لڑانے تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔عراق کو برباد کر کے پسپائی اختیار کرنے کے بعد اب افغانستان سے بچ نکلنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان کے حکمران اس ملک میں سرمایہ داری کے تاریخی فرائض ادا نہیں کر سکے ۔ پاکستانی سرمایہ داری نیم مردہ حالت میں ہے چنانچہ اپنے منافعوں اور اقتدار کو قائم رکھنے کے لئے یہاں کے حکمران طبقات ہمیشہ سے ہی سامراجی قرضوں اور امداد کے محتاج رہے ہیں۔پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کا جاہ وجلال، رتبہ اور حیثیت کسی بھی طور برطانوی وائسرائے سے کم نہیں۔پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان نے سوویت یونین کا طے شدہ دورہ منسوخ کر کے امریکہ یاترا کارخ کیا تھا اور شروع سے ہی بوسیدہ سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھنے کے لئے سامراجی اطاعت کی پالیسیاں اختیار کی گئیں۔ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پاکستانی خارجہ پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اتحادیوں میں سے ہم امریکہ کے سب سے بڑے اتحادی ہیں۔‘‘ لیکن پاکستان کے حکمرانوں اور اعلیٰ ریاستی افسران کے ساتھ جب سامراجی آقا انتہائی حقارت اور رعونت کے ساتھ پیش آتے ہیں تو انہیں چین کاراستہ یاد آجاتا ہے۔سب سے پہلے چین کی طرف جھکائو کی پالیسی ایوب خان نے ہی اپنائی تھی۔بائیں بازو کی اصلاحات اور امریکی سامراج کے سامنے مزاحمت کرنے کی تگ و دو میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی چینی بیوروکریسی سے رجوع کیا تھا لیکن سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کا مکمل خاتمہ نہیں کیا گیا جس کا نتیجہ سامراج کی ایما پر بھیانک مذہبی آمریت کے ہاتھوں ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کی صورت میں برآمد ہوا۔ نواز شریف کا حالیہ دورۂ امریکہ بھی ماضی کے حکمرانوں کی امریکہ یاترائوں کے سلسلے کی کڑی ہے۔پاکستانی حکمران امریکہ سے بھاگ کر دوسری علاقائی طاقتوں کی آغوش میں جانے کی کتنی ہی کوشش کر لیں، امریکی سامراج کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ المیہ یہ ہے جس نظام کے یہ نمائندہ ہیں اس کے استحصال کو جاری رکھنے کے تمام تانے بانے آخر کار واشنگٹن سے جاملتے ہیں۔امریکی حکمران ان کی جتنی بھی تذلیل کر لیں انہیں ہر صورت میں امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑتے ہیں۔حالیہ دورے میں نواز شریف کو ملنے والے پروٹوکول سے ہی سامراجی آقائوں کے سامنے پاکستانی حکمرانوں کی وقعت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ وکی لیکس اور دوسرے ذرائع نے کئی بار انکشاف کیا ہے کہ ڈرون حملوں کے حوالے سے پاکستانی حکمرانوں نے امریکی حکام کو یقین دلایاتھا کہ ’’ہم ڈرون حملوں پر احتجاج کریں گے لیکن آپ یہ حملے جاری رکھیں۔‘‘یہ پالیسی اب بھی جاری ہے۔امداد یا قرضوں کی بات کی جائے تو امریکہ نے صرف 1960ء کی دہائی میں بغیر سود کے کچھ گرانٹس دی تھیں۔ اس کے بعد سے خود قرضوں کی بیماری میں مبتلا یہ سامراج انتہائی بھاری شرح سود اور تلخ شرائط پر قرضے دیتا یا آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک وغیرہ سے دلواتا ہے۔ یہ امداد اور قرضے بھی پرانے قرضوں پر سود کی ادائیگی یا مغربی ملٹری انڈسٹریل کمپلیکس کے انتہائی مہنگے اسلحے پر صرف ہو کر سامراجی منافع خوری کا حصہ بن جاتے ہیں۔اس دورے میں کوئی بنیادی تنازع یا مسئلہ حل نہیں ہوا کیونکہ تمام تر سیاسی، معاشی اور سفارتی مسائل کی جڑ سرمایہ داری کا نامیاتی بحران ہے جو شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے۔اس نظام میں عوام مقامی حکمرانوں اور سامراج کے ہاتھوںلٹتے رہیں گے۔پاکستان سمیت تیسری دنیا کا کوئی بھی ملک سامراجی نظام یعنی سرمایہ داری کا خاتمہ کئے بغیر سامراج کی گرفت سے آزاد نہیں ہوسکتا ۔بصورت دیگر خود مختاری، قومی سالمیت اور آزادی کے نعرے، دعوے اور وعدے صرف پُرفریب لفاظی تک ہی محدود رہیں گے۔حالات نشاندہی کررہے ہیں کہ عوام کو مصنوعی حب الوطنی اور قوم پرستی کے چنگل میں اب زیادہ لمبے عرصے تک جکڑ کر نہیں رکھا جاسکتا!