جماعت اسلامی کے امیرسید منور حسن کے ’’شہادت‘‘ کے بارے میں بیان پر پاک فوج کی طرف سے آنے والا شدید رد عمل پاکستانی حکمرانوں کے سیاسی اور ریاستی ڈھانچے کے گہرے خلفشار کی غمازی کرتا ہے۔ معافی کے مطالبے پر جماعت اسلامی کی طرف سے فوج پر ’’سیاست میں مداخلت‘‘ کا الزام مضحکہ خیز ہے۔تاریخی طور پرجماعت اسلامی امریکی سامراج سے قریبی مراسم رکھنے کی شہرت رکھنے والی ملک کی سب سے منظم اسلامی پارٹی ہے۔ 1960ء ، 70ء اور 80ء کی دہائیوں میں جماعت اسلامی پاکستان میں دائیں بازواور مذہبی تنظیم کے طور پر سرگرم رہی۔ 1956ء کی جنگ سویز میں جمال عبدالناصر کی برطانیہ، فرانس اور اسرائیل کے خلاف فتح کے بعد عرب سوشلزم کا نعرہ پورے مشرق وسطیٰ میں گونجنے لگا تھا۔ مختلف انقلابات کے ذریعے شام، عراق، یمن اور دوسرے عرب ممالک میں بائیں بازو کی پارٹیاں برسر اقتدار آئیں۔ بائیں بازو کی ان حکومتوں نے سرمایہ داری کا خاتمہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن کے عمل کا آغاز کیا جس سے مشرق وسطیٰ میں سامراجی مفادات اور رجعتی بادشاہتوں کو براہ راست خطرات لاحق ہوگئے۔سرمایہ داری اور سامراجی استحصال کے خلاف اس انقلابی بغاوت کا راستہ روکنے کے لئے سی آئی اے نے جدید مذہبی بنیاد پرستی کو پروان چڑھانے کا عمل شروع کیا۔ انڈونیشیا سے مصر تک مالی اور سیاسی امداد کے ذریعے مذہبی بنیاد پرست سیاسی جماعتوں کو فعال رد انقلابی قوت کے طور پر مضبوط کیا گیا۔اس رجحان کا اصل خالق 1950ء کی دہائی میں امریکی صدر آئزن ہاور کا وزیر خارجہ جان فاسٹرڈ لس تھا۔ڈلس خودایک عیسائی بنیاد پرست تھا اور کیمونزم سے سخت نفرت کرتا تھا۔مصرکی اخوان المسلمون اور انڈونیشیا کی شراکت الاسلام اور نہضت العلماء(جس نے 1965ء میں دس لاکھ سے زائد کمیونسٹوں کے قتل عام میں سفاکانہ کردار ادا کیا) کو اسی دور میں منظم اور مضبوط کیا گیا تھا۔پاکستان میں اس پالیسی کا محورومرکزجماعت اسلامی تھی۔ 1968-69ء میں سرمایہ دارانہ نظام اور حکمرانوں کے خلاف ابھرنے والی محنت کش عوام کی طبقاتی تحریک کی شدت اور نوعیت پاکستان کے مشرقی (موجودہ بنگلہ دیش) اور مغربی حصے میں یکساں تھی، لیکن مولانا بھاشانی اور دوسرے بائیں بازو کے رہنمائوں کی تحریک سے دستبرداری کے بعد مشرقی بنگال میں یہ تحریک طبقاتی بنیادوں سے ڈی ریل ہو کر قومی آزادی اور علیحدگی کے خطوط پر استوار ہوگئی اور مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کے ہتھے چڑھ گئی۔جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیموں الشمس اورالبدر نے مشرقی پاکستان کی خانہ جنگی میں بھرپورکردار ادا کیا۔ میجر جنرل حکیم ارشد قریشی اپنی کتاب ’’دی انڈو پاک وار‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’فوجی کارروائی کے آغاز کے بعد جماعت اسلامی کے امیر مولانا طفیل نے ہمارے کیمپ کا دورہ کیا۔ مولانا ان رضاکاروں کی کارکردگی کے بارے میں بہت فکر مند تھے جو مقامی طور پر ان کی جماعت میں سے بھرتی کیے گئے تھے۔انہیں یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ وہ (خانہ جنگی میں)شاندار کردار ادا کررہے ہیں۔مولانا نے ہنستے ہوئے کہا کہ ہمارے جانبازوں نے کڑے وقت میں ہمیشہ پاکستانی فوج کا دلجمعی سے ساتھ نبھایا ہے‘‘۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت نے بڑے پیمانے کی نیشنلائزیشن اور سفر سے لے کر علاج اور تعلیم جیسے شعبوں میں عوامی فلاح و بہبود کے لیے ملک کی تاریخ کی سب سے زیادہ ریڈیکل اصلاحات کا آغاز کیا۔جماعت اسلامی نے ان اصلاحات کے خلاف جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ہراول دستے کا کردار ادا کیا۔ جماعت نے آمر ضیاء الحق کی نہ صرف بھرپور حمایت کی بلکہ اس کی بی ٹیم کا کردار ادا کیا۔گلیوں محلوں میں بائیں بازو کے سیاسی کارکنوں کو پکڑ کر تشدد کا نشانہ بنانے کے حوالے سے اس کی ذیلی تنظیموں کا کردار پولیس سے کم نہ تھا۔ 27اپریل 1978ء کو (سوویت فوجوں کی مداخلت سے ڈیڑھ سال قبل) خلق پارٹی کے لیڈر نور محمد ترکئی کی قیادت میں برپا ہونے والے افغانستان کے ثورسوشلسٹ انقلاب نے پورے خطے میں سرمایہ داری، جاگیر داری اور سامراجی مفادات کے لیے بڑا خطرہ پیداکردیا تھا۔افغانستان کے مفلس اور استحصال زدہ عوام کی بہتری کے لیے بڑے پیمانے پر اقدامات کرنے والی کمیونسٹ حکومت کے خلاف جب سی آئی اے نے ’’جہاد‘‘ کا آغاز کروایا تو اس کی قیادت افغانستان میں جماعت اسلامی کی ذیلی تنظیم حزب اسلامی کو دی گئی جس کے سربراہ گلبدین حکمت یار تھے،لیکن جب اس ’’جہاد‘‘ کے لیے منشیات کی سمگلنگ جیسے مجرمانہ طریقوں سے بھاری سرمایہ آنا شروع ہوا تو کئی دوسرے فرقے اور گروہ بھی موٹا مال بنانے کے لئے بہتی گنگا میں کود پڑے ۔مذہبی رہنما راتوں رات سائیکل سے اتر کر لینڈکروزر گاڑیوں کے مزے لینے لگے۔سوویت فوجوں کے انخلا کے بعد جب سامراجی مالی امداد بند ہوئی تو بہت سے جہادی گروہ امریکہ کے بھی دشمن ہوگئے؛ تاہم جہادی نیٹ ورک اور منشیات پر مبنی اربوں ڈالر کا کاروبار قائم رہا جس کی حصہ داریوں پر مختلف مذہبی گروہوں کی باہمی لڑائی شروع ہوگئی۔ اسی طرح پاکستانی ریاست کے امریکہ نوازاورامریکہ دشمن دھڑوں کا باہمی تضاد صورتحال کو مزید پیچیدہ بناتا چلا جارہا ہے۔بائیں بازو کی بڑی سیاسی قوت کی عدم موجودگی میں عوام میں سامراج مخالف جذبات کو سیاسی طور پر کیش کروانے میں مذہبی پارٹیوں کے درمیان شدید کشمکش موجود ہے۔سیاسی مقابلہ بازی کی اس کیفیت میں شعلہ انگیز بیان بازی ہرمذہبی رہنما کی مجبوری ہے،منور حسن کا حالیہ بیان بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ماضی میں فوج اور فوجی آمریتوں کی بی ٹیم کا کردار ادا کرنے والی جماعت اسلامی فوج سے تصادم کی مہم جوئی پر اتر آئی ہے۔اس کے باوجود جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی پارٹیوں کی عوام میں حمایت انتہائی کمزور اور محدود ہے۔ جماعت اسلامی اگر متنازع بیان واپس لیتی ہے تواسلامی بنیاد پرست عناصر کے غضب کا نشانہ بنے گی بصورت دیگر فوج کی خفت مول لینی پڑے گی۔ یہ لفظی تصادم اگرچہ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا؛ تاہم موجودہ صورت حال اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ اس ملک کا سیاسی اور معاشی بحران اتنا شدید ہے کہ ریاست اور اس کے مستند حلیفوں کے درمیان بھی ٹکرائو پیدا ہورہا ہے۔ ایک دوسرے سے متحارب ریاستی اور ’’نیم ریاستی‘‘قوتیں، مذہبی جماعتیںاور امریکی سامراج ، لبرل اور سیکولر حکمران سرمایہ دارانہ نظام کی حفاظت اور دوام پر متفق اور متحد ہیں کیونکہ ان سب کے سیاسی، مالیاتی اور سماجی مفادات اس سے وابستہ ہیں۔جونہی اس نظام کو عوام کی کسی انقلابی تحریک سے خطرہ لاحق ہوگا تو یہ تمام تر رد انقلابی قوتیں فوراً یکجا ہو کر میدان میں آجائیں گی۔یہ ناراضگیاں سطحی اور عارضی ہیں۔ محنت کش عوام کو ان میں الجھنے کی بجائے اپنی نجات کے لیے اس استحصالی نظام کے خلاف طبقاتی طور پر متحد اور سیاسی طور پر منظم ہونا ہوگا۔