"DLK" (space) message & send to 7575

گلیمر میں لپٹی قدامت پرستی

خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت چند ہی ماہ میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی ہے۔ قومی وطن پارٹی کے چیئرمین اور سینئر وزیر سکندر شیرپائو نے ایک پریس کانفرنس میں حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے عمران خان پر کرپشن اور سفارش کے الزامات عائد کئے ہیں اور عمران خان کا ایک سفارشی خط میڈیا کو دکھایا ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی جانب سے بھی قومی وطن پارٹی کے وزرا کو برطرف کرنے کی وجہ بدعنوانی بتائی جا رہی ہے۔ کرپشن کے خلاف اتنا بڑا ’’سونامی‘‘ برپا کرنے والے آخر کار خود اس الزام کی زد میں آ گئے ہیں۔ تحریک انصاف کی مقبولیت دراصل مختلف رجحانات کی حامل درمیانے طبقے کی مختلف پرتوں پر مبنی ایک عارضی اُبھار تھا جس کا کسی سنجیدہ نظریے سے کوئی تعلق نہ تھا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے نظریے کو نئے رنگوں اور اصطلاحوں میں ڈھال کر اربوں روپے کی میڈیا کمپین کے ذریعے دائیں بازو کی مقبولیت پرستی کا کھیل رچایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کی سیاسی حمایت جس درمیانے طبقے پر مبنی ہے اس کا سماجی اور طبقاتی کردار متضاد اور متزلزل ہوتا ہے۔ انقلابی ادوار اور محنت کش طبقے کی تحریکوں کے اُبھار کے عہد میں درمیانے طبقے کا جھکائو محنت کشوں کی جانب ہو جاتا ہے جبکہ رجعت اور سیاسی جمود کے ادوار میں یہ حکمران طبقات کی پیروی، تقلید اور ان جیسا بننے کی خواہش میں مسلسل اضطراب زدہ رہتے ہیں۔ مڈل کلاس کے سماجی وجود کی طرح ان کے سیاسی مظاہر بھی غیرمستحکم اور متزلزل ہوتے ہیں۔ آفتاب شیرپائو پختونخوا کے وزیر اعلیٰ رہے ہیں اور ان کی قومی وطن پارٹی اسی کرپشن زدہ سرمایہ دارانہ نظام کی پروردہ ہے۔ کیا عمران خان کو پہلے قومی وطن پارٹی کے جنم اور ماضی کے ریکارڈ کا علم نہیں تھا؟ یا پھر جمہوری وطن پارٹی بھی تحریک انصاف میں شامل ہونے والے درجنوں کرپٹ اور موقع پرست سیاستدانوں کی طرح انقلابی غسل کر کے پاک صاف ہو گئی تھی؟ اس نظام میں اقتدار کے حصول کے لئے ہر قسم کی سودے بازی کرنی پڑتی ہے اور اسے قائم رکھنے کے لئے ضمیر، اصول اور نظریات بازار میں نیلام کئے جاتے ہیں۔ اس بحران زدہ نظام زر کی سیاست کا یہی اصول، طریقہ کار اور لائحہ عمل ہے۔ پختونخوا میں تحریک انصاف نے تمام تر نعرہ بازی اور لفاظی کے باوجود وفاق اور باقی صوبوں میں بننے والی مخلوط حکومتوں کی طرح اقتدار کے حصول کے لئے تمام اصولوں کو بالائے طاق رکھا تھا۔ پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کی کل 124 نشستوں میں سے صرف 53 تحریک انصاف کے پاس ہیں اور حکومت قائم رکھنے کے لئے اسے کم از کم 67 ممبران کی حمایت درکار ہے۔ قومی وطن پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کے بعد تحریک انصاف کے پاس بہت ہی معمولی اور نازک اکثریت رہ جائے گی۔ باقی رہ جانے والے اتحادیوں کی تو موجیں ہو جائیں گی کیونکہ حکومت برقرار رکھنے کے لئے ایک ایک ووٹ تحریک انصاف کے لئے قیمتی ہو گا۔ بلیک میلنگ بڑھے گی اور اس حوالے سے کرپشن اور لوٹ مار میں کمی کی بجائے اضافہ ہو گا۔ عمران خان کی تمام تر بیان بازی کے باوجود خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا خاتمہ تحریک انصاف کے لئے بڑا دھچکا ثابت ہو گا۔ پیسے کی سیاست میں زیادہ تر سیاسی کھلاڑی اپنی سرمایہ کاری سے زیادہ سے زیادہ مالی مفادات حاصل کرنے کے لئے حصہ لیتے ہیں۔ تحریک انصاف کی مقبولیت بڑھنے کے بعد عمران خان کافی حد تک ’عملیت پسند‘ ہو گئے تھے اور بڑے پیمانے پر موقع پرست اور کرپٹ عناصر کو اپنی جماعت میں خوش آمدید کہا تھا۔ تحریک انصاف کے پاس اس معاشی نظام کو بدلنے کا کوئی نظریہ ہے نہ ہی پروگرام اور لائحہ عمل۔ تحریک انصاف کی حکومت کے زیراثر خیبر پختونخوا کے عوام کی حالت زار میں رتی برابر بہتری نہیں آئی۔ تعلیم اور علاج سمیت بنیادی انسانی ضروریات کے شعبے میں کسی تبدیلی کا نام و نشان نہیں ہے۔ امریکہ مخالف نعرے بازی میں سب سے نمایاں صوبائی حکومت امریکی اور دوسرے مغربی ڈونرز سے پیسے لے خیرات کرنے میں مصروف ہے۔ یہ کام تو عمران خان سیاست میں آنے سے پہلے بھی بہت اچھا کر لیتے تھے تو پھر اس تمام تر زحمت کی کیا ضرورت تھی؟ تبدیلی کا کیا ہوا ہے؟ کیا خیبر پختونخوا میں حکمران طبقات کے فائیو سٹار تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کو ریاستی تحویل میں لے کر غریبوں کے لئے کھول دیا گیا ہے؟ کیا ٹیکس، بجلی اور گیس کی چوری کرنے والے سرمایہ داروں کو پکڑ کر ان کی جائیدادیں ضبط کر لی گئی ہیں؟ اگر ابھی تک کوئی خوش فہمی میں مبتلا ہے تو اس کا ازالہ وقت خود کر دے گا۔ موجودہ پھوٹ کا سب سے زیادہ فائدہ جماعت اسلامی کو ہوا ہے۔ عمران خان جماعت اسلامی کے صوبائی وزرا کے ’’مثالی کردار‘‘ اور ’’دیانتداری‘‘ کے قصیدے پڑھتے رہے ہیں۔ عمران خان کی بطور ’’غیرت مند مسلمان‘‘ شہرت کے بعد ہی تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کا فطری اتحاد قائم ہو گیا تھا۔ تعلیمی نصاب میں جہادی تعلیمات شامل کرنے سے مذہبی دہشت گردوں کی بالواسطہ یا بلاواسطہ حمایت تک، دونوں جماعتوں میں صرف نام کا فرق ہے۔ عمران خان کی سیاست میں دراصل جماعت اسلامی سے ملتی جلتی قدامت پرستی ہے اور انہوں نے رجعت کو گلیمر کے رنگین غلاف میں لپیٹ کر پیش کیا تھا۔ یہ چمک دمک، رنگ، فیشن اور میڈیا کمپین ’’سول سوسائٹی‘‘ (جسے قاضی سعید ’’شغل سوسائٹی‘‘ بھی کہتے ہیں) کی اکثریتی پرتوں کو تحریک انصاف کی طرف لے آئی۔ جماعت اسلامی کی نحیف سماجی بنیادیں اس کی نظریاتی کمرشلائزیشن سے مزید سکڑ گئی تھیں۔ عمران خان کی ’’گلیمرائزڈ سیاست‘‘کی شکل میں انہوں نے اپنے لیے ڈھال تشکیل کی اور اب اسے استعمال کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب جماعت اسلامی کھل کر رجعتی اقدامات کرنے پر اترے گی تو تحریک انصاف کی حمایت کرنے والی فیشن ایبل سول سوسائٹی کدھر جائے گی؟ جماعت اسلامی کا ماضی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ ایم ایم اے کی حکومت میں عورتوں کی تصویروں پر پابندی لگائی گئی تھی، حکومتی سرپرستی میں گاڑیوں سے ٹیپ اور ڈیک نکال کر توڑے جانے کی مہم چلائی گئی تھی اور ملا فضل اللہ جیسے دہشت گردوں کو سیاسی، مالی اور عسکری امداد کے ذریعے پروان چڑھایا گیا تھا۔ مذہبی لیڈروں کی حکومت سے تنگ آکر پختونخوا کے عوام نے اے این پی کو ووٹ دیے لیکن ان لبرل اور سیکولر لیڈروں نے معاشی جارحیت اور کرپشن کے ذریعے پختونوں کی وہ درگت بنائی کہ کسی متبادل کے فقدان کی وجہ سے انہیں مجبوراً تحریک انصاف کا رخ کرنا پڑا۔ اب بنیاد پرستی پر لبرل ازم کی پالش والی اس حکومت نے چند مہینوں میں ہی انہیں مایوس کر دیا ہے۔ جہاں تک کرپشن کا تعلق ہے تو ایک ایسے سماج میں اس کا خاتمہ ممکن نہیں جس کی اکثریتی معیشت کالے دھن اور بدعنوانی پر مبنی ہو۔ اقوام متحدہ کی نئی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 2012ء کی نسبت افیون کی پیداوار میں 49 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ طالبان اور دوسرے دہشت گرد منشیات کے ہر 10 کلوگرام میں سے ایک کلوگرام ’’ٹیکس‘‘ کی شکل میں وصول کرتے ہیں۔ منشیات کی یہ کالی دولت پاکستان میں پختونخوا سے ہی داخل ہوتی ہے اور اس کی پکڑ اس لئے ممکن نہیں کہ یہ کالا دھن ’’روک تھام‘‘ کرنے والے تمام اداروں کے اندر تک سرایت کر چکا ہے۔ مذہبی دہشت گردی اسی کالے دھن کی پیداوار ہے۔ نیٹو سپلائی روکنے کی بڑھک بازی کی حقیقت بھی سب جانتے ہیں۔ نیٹو سپلائی کے مخالفین کے بہت سے معاشی مفادات اس کے جاری رہنے سے وابستہ ہیں۔ طالبان کے بیشتر گروہ اس سپلائی کی مد میں بھتہ وصول کرتے ہیں اور نیٹو کے ٹرکوں میں ہی اسلحہ اور منشیات سمگل کیا جاتا ہے۔ تحریک انصاف جتنی تیزی سے ابھری تھی اتنی ہی جلدی ناکام اور بے نقاب ہو گئی ہے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ فی الوقت سیاسی جمود کا شکار ہے لہٰذا حکمران طبقات کی باہمی لڑائیوں اور درمیانے طبقے کی مصنوعی جذباتیت کے گرد کھیل تماشا کر کے عوام کو محدود رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ سب کچھ زیادہ عرصہ نہیں چلے گا کیونکہ مزدوروں اور دہقانوں کی سیاست کا وقت اب قریب آرہا ہے، ذلت کی انتہا اور برداشت کی حد ہو چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں