"DLK" (space) message & send to 7575

منظم انتشار

راولپنڈی میں محرم الحرام کے موقع پر ہونے والے خونریز تصادم میں کئی انسانی جانیں مذہبی بنیاد پرستی کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ مذہبی فرقہ واریت پر مبنی نفرتوں کی یہ سنگینی پاکستانی معاشرے میں پھیلتے ہوئے انتشار کی غمازی کرتی ہے۔ یہ انارکی اور خونریزی اتنی بھی خود رو اور اچانک نہیں جتنی حکومتی عہدہ داراور میڈیا اسے بنا کر پیش کررہے ہیں۔پس منظر میں بہت سے مالیاتی مفادات اور ریاستی و غیر ریاستی عناصر کارفرما ہیں۔ ریاستی سرمایہ داری کے مشہور ماہر اور بھارت میں امریکہ کے سابقہ سفیر جان کینتھ گلبرتھ نے بھارتی سیاست کے بارے میں ایک بار کہا تھاکہ ’’یہ دنیا کا سب سے منظم انتشار ہے‘‘۔ پاکستانی ریاست، سیاست اور سماج بھی ارادتاً پیدا کردہ اور مرتب بد نظمی اور انتشارمیں مبتلا ہے۔گزشتہ تین دہائیوں سے مذہب کی بنیاد پر قتل وغارت گری جاری ہے اوراس سلسلے میں بنیادپرستوں کوریاست کے بعض حصوں کی اشیر باد حاصل ہے۔ پاکستانی ریاست نے یہ پالیسی امریکی سامراج کے اشارے پر شروع کی تھی۔ 80ء اور 90ء کی دہائی میں پاکستان میں ماسکو نواز اور بیجنگ نواز بائیں بازوکے خاتمے سے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو رجعت پسندی نے پُرکیا اورضیاء الحق نے اپنے اقتدار کو طول دینے کے لیے مذہبی بنیاد پرستی کوخوب استعمال کیا۔ امریکیوں نے اس آمر کو افغانستان میں ’جہاد‘ کو چلانے اور اس خطے میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے آلہ کار بنایا، خاص طور پر سر د جنگ کے آخری برسوں میں امریکہ کی یہ پالیسی شدت اختیار کر گئی کیونکہ انہیں خود سوویت یونین کے انہدام کی توقع نہیں تھی۔ مختلف فرقہ وارانہ گروہوں اور بنیاد پرستوں کے کئی دھڑے ایسے ہیں جن کے نہ صرف امریکی سامراج بلکہ اس خطے کی مختلف اسلامی ریاستوں کے ساتھ ہمیشہ سے قریبی مراسم استوار رہے ہیں۔ تصادم تب ہوتا ہے جب مختلف فرقہ وارانہ گروہوں کی سرپرستی کرنے والی سامراجی قوتوں کے تضادات شدت اختیار کر جاتے ہیں ۔اس طرح ’مقدس جنگجوؤں‘ کے کسی گروہ کو جب سامراجی پشت پناہی ملتی ہے تو اس کے اندر ’مالِ غنیمت‘ کی تقسیم اور حصہ داری پر دھڑے بندی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ سامراجی طاقتیں اورحکمران،انقلابی تحریکوں کو ڈی ریل کرنے کے لیے بھی بنیاد پرستی کو استعمال کرتی ہیں۔2011ء میں مشرقِ وسطیٰ میں جب عوامی آتش فشاں پھٹا اور اس خطے میں سامراج کے مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو مذہبی پارٹیاں اپنے آقاؤں کی خدمت گزاری کے لیے پیش پیش نظر آئیں۔جیسے ہی انقلاب کے زلزلے نے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلانا شروع کیا اور لوگ اپنے سماجی و معاشی مسائل حل کروانے سڑکوں پر آئے تو سامراج نے مذہبی بنیاد پرستوں سے مذاکرات کا آغاز کر دیا۔ مصر اور تیونس میں اسلامی بنیاد پرستوں سے ان کے معاملات جلد طے پا گئے جبکہ لیبیا کے معاملے میں انہوں نے راتوں را ت القاعدہ کے ہزاروں جنگجوئوں کو ’آزادی پسند جنگجوؤں‘ کی صفوں میں شامل کروا دیا۔شام میں بھی عوامی تحریک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر منقسم کر کے خونریز خانہ جنگی کا آغاز کروا دیا گیا۔ پاکستان میں ہمیشہ سے مذہبی فرقہ واریت کے جغادری اپنے نظریات کا پرچار کسی ندامت اور پشیمانی کے بغیر کر تے رہے ہیں۔نفرتوں کی یہ دکانیں آج بھی سجی ہیں۔ کھلم کھلا‘ جہاد کے نام پر دہشت گردی اوربے گناہ انسانوں کے قتلِ عام کی حمایت کی جاتی ہے۔ سماجی اور معاشی بدحالی کے شکار عوام کا جینادوبھر کر دیا گیا ہے۔پاکستانی ریاست کے کچھ دھڑے عوامی تحریکوں کو دبانے اورسماجی انتشار پیدا کر کے کسی ممکنہ انقلابی موج کا رخ موڑنے کیلئے ان عناصر کو استعمال کرنے کے عادی ہو چکے ہیں۔سماجی نفسیات پر باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت فرقہ وارانہ زہرانڈیلا جاتا ہے۔تعلیمی نصاب اور چنگھاڑتے ہوئے لائوڈ سپیکروں سے لے کرذرائع ابلاغ تک، بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر فرقہ واریت کو تقویت دی جاتی ہے۔عمومی طور پر اس خون ریزی سے معاشرے میں خوف، بیگانگی اور رجعت کے رجحان پروان چڑھتے ہیں۔قومیت، رنگ و نسل، زبان اور ذات برادری کی طرح مذہبی تعصب اور فرقہ واریت بھی محنت کش عوام کو تقسیم کرنے کے موثر ہتھکنڈے ہیں۔ ’لبرل‘ اور قدامت پرست کرداروں کے تنازعے پر مبنی ناٹک کو بھی بوقت ضرورت استعمال کیا جاتا ہے۔لال مسجد کے عسکریت پسندوں سے لے کر درجنوں لوگوں کے قتل کا فخریہ اعتراف کرنے والوں کو سزا دینے کی کسی میں جرأت ہے نہ نیت۔ دورِ حاضر میں مذہب کو کاروبار کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایک دوسرے کے خلاف مذہبی منافرت کا زہر اگل کر چندہ جمع کرنے کی ایک دوڑ لگی ہوئی ہے۔بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ہمارے آزاد خیال، سیکولر اور جمہوری حکمران بھی سماجی بغاوتوں کا رخ موڑنے کے لیے مذہبی تعصب کا ہی سہارا لیتے ہیں۔’اعتدال پسند‘ اور ’شدّت پسند‘ ملائوں کے درمیان لکیر بہت ماند پڑ چکی ہے۔بڑے بڑے مذہبی اجتماعات میں حاضری دینے والے سرمایہ دار،جرنیل،بیوروکریٹ اور سیاستدان دراصل حکمران طبقے کی رجعتی سوچ کو واضح کرتے ہیں۔کیامذہبی مبلغین اعتدال پسند ہیں؟سرکاری دانشور اور مذہبی پیشوا جس امت کی بات کرتے ہیں اس میں فرقہ واریت کا زہر سرایت کر چکا ہے ۔مختلف فرقوں کے اَن داتا فرقہ واریت کے ذریعے ارب پتی بن گئے ہیں ،انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ کتنی معصوم جانیں ضائع ہوں گی، کتنا لہو بہے گا؟ سرمائے کے اس نظام میں مذہب کے کاروبار کا حتمی مقصد بھی سرمائے کا حصول ہے لیکن اس آگ اور خون کے کھلواڑ میں مرنے والوں کی اکثریت غریب طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ مذہبی تہواروں اور مختلف فرقوں کے مقدس دنوں میں فرقہ وارانہ تصادم کے خطرے بڑھ جاتے ہیں۔ان مذہبی تہواروں کے دوران مختلف فرقوں کے ملائوں کی چاندی ہوجاتی ہے۔ٹیلی وژن پر لامحدود ائیر ٹائم ملتا ہے جسے وہ اپنی شخصیت کے تسلط کو قائم کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اپنے فرقے پرکنٹرول کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اشتعال انگیزی اور انتہا پسندی کے رجحانات کو ہوا دی جاتی ہے۔ برسوں سے چلے آرہے یہ تنازعات اب بھی حل ہونے والے نہیں ہیں۔فرقے کم ہونے کی بجائے بڑھتے جارہے ہیں۔انتہاپسندی نئے فرقوں کو جنم دیتی ہے اور یہ نئے فرقے مذہبی پیشوائوں کو نئے کاروبارکے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ مذہبی تعصبات درحقیقت معاشرے کے بہائو اور ارتقا میں ایک جمود اور ٹھہرائو کی غمازی کرتے ہیں۔فطرت ٹھہرائو کو پسند نہیں کرتی۔ٹھہرا ہوا پانی بھی بدبودار ہوجاتا ہے۔ اسی طرح معاشی، سیاسی اور سماجی طور پر ٹھہرے ہوئے معاشروں میں جنم لینے والی پراگندگی، گھٹن اور ذلت انتشار، نفسا نفسی اور ماضی کے تعصبات کو ابھارنے کا باعث بنتی ہے۔ موجودہ نظام اس معاشرے کو آگے بڑھانے میں کامیاب دکھائی نہیں دیتا۔محنت کشوں کا سیلاب ہی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں