پرانی نسل کے لوگ‘ جنہیں پیپلز پارٹی کے جنم کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرنے کا موقع ملا‘ آج کی پیپلز پارٹی کو دیکھ کر ششدر رہ جاتے ہیں۔ 30 نومبر1967ء کو بننے والی پیپلز پارٹی میں محنت کش عوام کو ایک امید، راستہ، نجات اور منزل کے حصول کا ذریعہ دکھائی دیتا تھا۔ آج کی پیپلز پارٹی کی اقدار، اخلاقیات، ترجیحات، ثقافت، سیاست، تنظیم، طریقہ کار اور لائحہ عمل میں 1960ء اور 70ء کی دہائیوں والی پیپلز پارٹی کا شائبہ تک نظر نہیں آتا۔ لیکن یہ تبدیلی اچانک رونما نہیں ہوئی اور یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل ہے کہ یہ تبدیلی مقدار سے معیار میں بدل چکی ہے یا نہیں۔ یہ سوال انتہائی فیصلہ کن ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق عوام کے شعور اور ان کی سیاسی روایت کے باہمی رشتے سے ہے۔ کرسٹینا لیمب نے اپنی مشہور کتاب۔۔۔''ویٹنگ فار اللہ‘‘ میں لکھا تھا کہ آج اگر ذوالفقار علی بھٹو اپنی قبر سے آ کر اپنی پارٹی کو دیکھیں تو وہ اس کو پہچان ہی نہیں سکیں گے۔ یہ کتاب بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت (1989-91ء) میں لکھی گئی تھی۔ اس کے بعد تنزلی کا یہ سلسلہ نہ صرف جاری رہا بلکہ تیز تر ہو گیا۔ پارٹی قیادت نے کھل کر اس کے بنیادی سوشلسٹ پروگرام اور تاسیسی دستاویزات کے برعکس پالیسیاں اپنائیں۔ پارٹی کی مسند پر سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سامراج کے کاسہ لیسوں کے ساتھ ساتھ ضیاالحق کے قریبی حواریوں کو براجمان کیا گیا۔ پارٹی سے نہ صرف اس کے نظریات کی تطہیر کی گئی بلکہ اس کے کردار کو محنت کش طبقے کی پارٹی سے بدل کر حکمران طبقات، ریاست اور سامراج کی نمائندہ پارٹی بنانے کی کوشش بھی ہوئی۔ آج تمام سیاسی حلقے، ذرائع ابلاغ اور دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ پیپلز پارٹی مکمل طور پر حکمران طبقے کی پارٹی بن چکی ہے۔ دوسری طرف بچا کھچا 'بایاں بازو‘ ہمیشہ کی طرح آج بھی پیپلز پارٹی کو جاگیرداروں کی پارٹی قرار دیتا ہے۔ یہ تفریق اس لئے بھی کی گئی تھی کہ پاکستان میں ماسکو نواز یا بیجنگ نواز لیفٹ بنیادی طور پر مارکسزم کی بجائے سٹالنزم کے نظریات کا حامل تھا اس لیے کہ مرحلہ وار انقلاب کے سٹالنسٹ نظریے کے مطابق پاکستان جیسے ممالک کے انقلابات کا کردار سوشلسٹ نہیں بلکہ قومی جمہوری یا سرمایہ دارانہ ہو گا (یا ہونا چاہئے)۔ اسی نظریے کی بنیاد پر سابق بائیں بازو کے بہت سے سرگرم سیاسی کارکن مسلم لیگ جیسی انتہائی دائیں بازو کی پارٹی میں شامل ہو گئے۔ ان میں سے چند ایک تو موجودہ حکومت کی اہم وفاقی وزارتوں پر بھی براجمان ہیں۔ باقی ''نیم لیفٹ‘‘ نواز لیگ میں شامل تو نہ ہوئے لیکن شعوری یا لاشعوری طور پر وہ اس کی حمایت ضرور کرتے ہیں۔ ڈاکٹر مالک کے نواز شریف سے الحاق اور ان کے وزیر اعلیٰ بلوچستان بننے پر اس طرح کے ''لیفٹ‘‘ نے (جس کی بھاری اکثریت اب این جی اوز چلا رہی ہے) خوب جشن منایا تھا۔
یہاں سیاسی افق پر نمایاں ہر پارٹی نے کبھی جوشِ خطابت میں اور کبھی خوفزدہ ہو کر کہیں نہ کہیں، کبھی نہ کبھی ''انقلاب‘‘ کا نعرہ ضرور لگایا، اگرکسی پارٹی کی قیادت نے انقلاب کا نام لینے سے گریز کیا تو وہ پیپلز پارٹی ہے۔ پیپلز پارٹی میں انقلاب یا سوشلزم کا نام لینے کو ہی گناہِ کبیرہ بنا دیا گیا ہے۔ پارٹی کی شخصی قیادت کی یہ پوزیشن نیچے تک سرایت کر گئی ہے۔ پارٹی کی نچلی پرتوں میں بھی کرپشن اور خود غرضی معمول بن چکی ہے۔ پارٹی قیادت کو تسلیم کرنے اور اس کی پالیسیوں کے آگے جی حضوری کو ہی پارٹی میں رہنے کا معیار بنا دیا گیا ہے۔
چونکہ پیپلز پارٹی کبھی مارکسسٹ‘ لیننسٹ پارٹی نہ تھی اس لیے اس کے اندر بایاں بازو ہمیشہ نظریاتی طور پر متذبذب اور تنظیمی طور پر منتشر رہا۔ انفرادی طور پر پارٹی کے نظریاتی انحرافات کے خلاف آواز اٹھانے والے ہر شخص کو دائیں بازو کی پارٹی قیادت نے بڑی آسانی سے ''صاف‘‘ کر دیا۔ پارٹی سے نکالے جانے والے یہ لوگ تھوڑا بہت شور مچا کر یا تو سرمایہ دارانہ پارٹیوں میں چلے گئے یا پھر سیاست کو ہی خیرباد کہہ دیا۔ پیپلز پارٹی ایک انتخابی مشین بن کر رہ گئی اور نظریہ اقتدار کی ہوس کا شکار ہو گیا۔ پارٹی میں موجود مفاد پرست عناصر اپنی حیثیت کے مطابق سیاسی اور مالی مفادات حاصل کرنے کی اندھی دوڑ میں شامل ہو گئے۔ ملک میں نجکاری کی پہلی جامع پالیسی کا آغاز 1998ء میں پیپلز پارٹی حکومت نے کیا تھا، یہ سلسلہ چلتا رہا اور نظریاتی انحراف کی دو دہائیوں بعد بھٹو کی پارٹی، پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ والی پارٹی میں تبدیل ہوگئی۔
آج سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آیا پاکستان کے محنت کشوں
کے پاس کوئی انقلابی سوشلسٹ قیادت موجود ہے؟ اس سوال کا جواب یقیناً نفی میں ہے لیکن اس سارے عمل کو موضوعی طور پر دیکھنا بھی غلط اور غیر سائنسی تجزیہ ہوگا۔ معروضی طور پر دیکھا جائے تو پچھلی تین دہائیاں عالمی سطح پر سیاسی تنزلی، بائیں بازو کی ٹوٹ پھوٹ اور طبقاتی کشمکش کی پسپائی سے عبارت ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کی سیاست بھی عالمی سطح پر محنت کش طبقے میں پائی جانے والی مایوسی اور بددلی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ ان معروضی حالات کا دبائو پیپلز پارٹی کی قیادت پر بھی تھا۔ 1977ء میں چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کی معزولی کے فوراً بعد چین میں سرمایہ دارانہ رد انقلاب برپا ہوا۔ بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت (1988-90ء) کے دوران ہی دیوار برلن گری اور سوویت یونین کا انہدام ہوا۔ معروض میں اس طرح کے اتار چڑھائو تاریخ کے ہر عہد میں آتے ہیں، ایک رجعتی عہد میں سماجی سوچ اور عوامی شعور بھی تنزلی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پورا معاشرہ رجعت یا نیم رجعت پسندی کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ ایسے تاریک عہد ان قیادتوں اور سیاسی کارکنوں کا کڑا امتحان لیتے ہیں جو محنت کش عوام کی نجات یا نمائندگی کے دعوے دار ہوتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو جب ایسے ہی تلخ معروض کا سامنا کرنا پڑا تو پارٹی کے سوشلسٹ منشور اور نظریات پر ڈٹے رہنا تو درکنار، یوں محسوس ہونے لگا جیسے پارٹی قیادت اسی وقت کا انتظار کر رہی تھی۔ موقع پرستی کو پارٹی پالیسی بنا لیا گیا، پورے ذوق و شوق سے سرمایہ
داری اور اسٹیبلشمنٹ کو گلے لگایا گیا اور پارٹی کی بنیادکو سرمایہ دارانہ خطوط پر استوار کرنے کی واردات شروع کر دی گئی۔
آج تمام مذہبی، سیکولر، لبرل، جمہوری اور ''پروگریسیو‘‘ پارٹیاں سرمایہ دارانہ نظام کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہیں اور اس نظام کی لوٹ کھسوٹ کی سیاست میں پوری طرح حصہ دار اور سرگرم ہیں۔ نام نہاد بائیں بازو کی پارٹیاں یا ان کے سیاسی انضمام و اتحاد بھی سرمایہ داری میں اصلاحات کے سوشل ڈیموکریٹک نظریات تک ہی محدود ہیں۔ سوشل ڈیموکریسی اور اصلاح پسندی اگر یورپ اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماجوں میں ناکام ہو چکی ہے تو پاکستان جیسی گلی سڑی اور بوسیدہ سرمایہ داری میں اس سے بہتری کی امید رکھنا بدترین بے وقوفی ہوگی۔
محنت کش عوام جو فی الوقت سیاسی طور پر بیگانہ اور ماضی کے لسانی و مذہبی تعصبات کی بنیادوں پر منقسم ہیں، بالآخر طبقاتی بنیادوں پر یک جا ہو کر تاریخ کے میدان عمل میں ضرور داخل ہوں گے۔ یہ ایک کائناتی قانون ہے کہ ہر طبقاتی سماج میں طبقات پر مبنی کشمکش تمام تر پسپائیوں کے باوجود ابھر کر رہتی ہے۔ پاکستان کے محنت کش بھی اس متروک نظام اور اس کی وحشت و استحصال کے خلاف علم بغاوت ضرور بلند کریں گے۔ کیا ان انقلابی حالات میں یہاں کے مزدور، کسان اور نوجوان اپنی سیاسی روایت یعنی پیپلز پارٹی کو دوبارہ زندہ کریں گے؟ یا وہ قیادت کی بے حسی سے اکتا کر پیپلز پارٹی کے وجود کو ہی مسترد کر چکے ہیں؟ یہ سوال فیصلہ کن نوعیت کا حامل ہے۔ جواب اگرچہ پیچیدہ اور کٹھن ہے لیکن اس کے بغیر کوئی واضح انقلابی لائحہ عمل تخلیق نہیں کیا جا سکتا؛ تاہم ایک بات طے ہے کہ پارٹی کے ازسرنو سوشلسٹ جنم میں ہی اس کی بقا ہے۔