"DLK" (space) message & send to 7575

وینزویلا: انقلابِ مسلسل!

گزشتہ دنوں وینزویلا کے محنت کش عوام اورنوجوانوں نے ایک بار پھر انقلابی جوش و ولولے کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلدیاتی انتخابات میں یونائیٹڈ سوشلسٹ پارٹی آف وینزویلا (PSUV)کو شاندار فتح سے ہمکنار کیا ہے۔ انتخابات کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ آج بھی وینزویلا کے عوام رد انقلاب کے حملوں اور تمام ترمشکلات کے باوجود 2002ء میں ہوگو شاویزکی جانب سے شروع کیے گئے انقلابی عمل کا دفاع کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ سوشلسٹوں کو دائیں بازوکے 43 فیصدکے مقابلے میں 54 فیصد ووٹ ملے۔ PSUVاور اس کے اتحادیوں نے 196 جبکہ دائیں بازوکی اپوزیشن نے 53میونسپل نشستیں حاصل کیں۔ پچھلے چند مہینوں میں بولیوارین انقلاب کے حامیوں کی دائیں بازو پرانتخابی سبقت میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ اپریل میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں 1.49فیصد ووٹوں کی برتری کے مقابلے میں حالیہ بلدیاتی انتخابات میں PSUVکو 6.52فیصد زیادہ ووٹ ملے ہیں۔PSUVاور اتحادیوں کے 234جبکہ اپوزیشن کے 67میئر منتخب ہوئے ہیں۔ٹرن آئوٹ 58.92فیصد رہا جواس طرح کے انتخابات میں یورپ کے کئی ممالک سے زیادہ ہے۔
انتخابات کے نتائج نے انقلابی حکومت کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا کرنے والے سامراجی دانشوروں کے منہ بند کر دیے ہیں۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ کے مطابق ''یہ انتخابات دراصل بائیں بازو کے رہنما ہوگو شاویز کے جانشین ماڈورو کے لیے ریفرنڈم کا درجہ رکھتے تھے جس میں ان کی کامیابی نے ثابت کر دیا ہے کہ سوشلسٹ ملک کی سب سے بڑی سیاسی قوت ہیں‘‘۔ انتخابات کے بعد پر جوش حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے نکولس ماڈورو نے کہا کہ ''وینزویلا کے لوگوں نے دنیا کو بتا دیا ہے کہ شاویزکا بولیوارین انقلاب آج زیادہ قوت سے آگے بڑھ رہا ہے‘‘۔ 
اس انتخابی فتح کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ سوشلزم اورمارکسزم کے خلاف تمام تر جھوٹ، بہتان زنی اور''تاریخ کے خاتمے‘‘کے سامراجی اعلان کے باوجود یہ ثابت ہوا ہے کہ ہوگو شاویز کی جانب سے لگائے جانے والے''اکیسویں صدی کے سوشلزم‘‘کے نعرے کی مقبولیت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ وینزویلا میں ابھی تک سرمایہ دارانہ نظام کا مکمل خاتمہ نہیں ہوا‘وہاں کے عوام نے''سوشلزم تو ناکام ہوگیا‘‘ اور ''مارکسزم مر چکا ہے‘‘ جیسے بے معنی نعروں کو یکسر رد کر دیا ہے۔وینزویلا کاآگے بڑھتا ہواانقلاب سرمایہ داری اورسامراج کے سامنے سر تسلیم خم کرکے ''سول سوسائٹی‘‘ بن جانے والے سابق بائیں بازوکے منہ پر زوردارطمانچہ ہے۔
اس وقت جب وینزویلا میں افراط زر کی شرح ریکارڈ 54 فیصد تک پہنچ چکی ہے، انتخابات کے نتائج پر تجزیہ کرتے ہوئے لوئس ویسنٹ نے اے ایف پی کو بتایا کہ ''یہ ایک عجیب تضاد ہے۔ معاشی بحران کا فائدہ ماڈورو کو ہو رہا ہے‘‘۔ماڈورو حکومت کی مقبولیت کو فی الوقت افراط زراور ضروریات زندگی کی قلت جیسے عوامل سے خطرہ لاحق ہے۔ وینزویلا کے حکمران طبقات کی جانب سے شعور ی طور پر معاشی سبوتاژ کی مہم چلائی جا رہی ہے، یہ وہی حکمت عملی ہے جو چلی میں سلواڈورایاندے کی حکومت کے خلاف استعمال کی گئی تھی۔ اُس وقت امریکی صدر نکسن نے کسنجرکو حکم دیا تھا کہ ''چلی کی معیشت کو برباد کر دو‘‘۔ وینزویلا میں انقلابی حکومت کی جانب سے پچھلے دس برسوں میں کیے گئے اقدامات نے ثابت کیا ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت کو ''ٹھیک‘‘ نہیں کیا جا سکتا۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کو قائم رکھتے ہوئے قیمتوں کو کنٹرول کرنے اور سرمائے کی بیرون ملک منتقلی روکنے جیسے اقدامات ناکافی بلکہ بعض صورتوں میں مضر ثابت ہو رہے ہیں۔ ذرائع پیداوار چونکہ ریاستی ملکیت میں نہیں ہیں لہٰذا ریاستی سرمایہ کاری کے مطابق پیداوار نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سرمایہ داروں کے پاس حکومتی پابندیوں سے بچنے کے کئی قانونی اورغیرقانونی طریقے موجود ہیں جنہیں وہ استعمال کر رہے ہیں؛تاہم برسر اقتدار آنے کے بعد سے PSUVکی حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے کئی بڑے منصوبے مکمل کیے ہیں۔ ماضی میں حکمران طبقات کی تجوریوں میں جانے والا تیل کا پیسہ اب عوام پر خرچ کیا جارہا ہے۔سامراج اور مقامی سرمایہ داراپنی لوٹ مار پر لگنے والی کاری ضربوں سے بالکل بھی خوش نہیں ہیں۔
انقلاب نے محنت کشوں کو نیا اعتماد دیا ہے۔ بہت سی فیکٹریوں پر مزدوروں نے قبضے کرلیے ہیں اور یہ فیکٹریاں کئی سالوں سے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں چل رہی ہیں۔ سرمایہ داراس تمام صورتحال سے خوفزدہ ہیں اور سرمایہ کاری نہیں کررہے۔ وینزویلا کے حکمران طبقات کوامریکی اورہسپانوی سامراج کی مکمل حمایت حاصل ہے اور وہ معیشت کو غیر مستحکم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ انقلاب کوسبوتاژکرنے کی کوششیں 2001ء میں ہی شروع ہوگئی تھیں۔اپریل 2002ء میں امریکی سامراج نے فوجی کُو (Coup) کے ذریعے شاویزکومعزول کرکے کٹھ پتلی حکومت قائم کر دی تھی لیکن لاکھوں لوگوں نے سڑکوں پر نکل کراس کوشش کوناکام بنا دیا۔اس کے بعد سے سامراجی آقا اور وینزویلا کی اشرافیہ میڈیا پراپیگنڈا، سفارتی دبائو،مزدوررہنمائوں پرقاتلانہ حملوںاورمعاشی انتشارجیسے طریقے استعمال کر کے انقلابی اقدامات کے راستے میں بند باندھ رہے ہیں۔ وینزویلا کی اشرافیہ، سرمایہ داروں اور سامراجیوں کے مفادات بولیوارین انقلاب سے متضاد ہیں۔ 
ستمبر تک ماڈورو حکومت معاشی جکڑ بندیوں کے خلاف تھی؛ تاہم نومبرکے آغاز میں حکومت کو سرمایہ داروں کے خلاف سخت اقدامات کرنے پر مجبورہونا پڑا۔ غیر ملکی تجارت کو آزاد کرنے کا منصوبہ رد کر دیا گیا۔حکام نے اجناس سے بھرے ہوئے ذخیروں پر چھاپے مارے اور ذخیرہ اندوزوں کو جائز قیمت پر اشیا بیچنے پر مجبور کیاگیا۔اس دوران درجنوں سرمایہ داروں اور ''کاروباری حضرات‘‘ کو گرفتا ر بھی کیا گیا۔ان حکومتی اقدامات کو بڑے پیمانے پر عوامی پزیرائی ملی۔ عوام کو مصنوعی قلت سے چھٹکارا ملا اور اشیائے خور ونوش میسر آئیں۔اس کے علاوہ عام شہریوں کے انقلابی جذبات کو نئی طاقت ملی۔ بلدیاتی انتخابات میں PSUV کی فتح طفیلی سرمایہ داروں اورذخیرہ اندوزوں کے خلاف کیے جانے والے حالیہ حکومتی اقدامات کا ہی نتیجہ ہے۔
یہ ٹھوس حقیقت ہے کہ سرمایہ داری میں اصلاحات کر کے اسے ''عوام دوست‘‘ نہیں بنایا جا سکتا۔ وینزویلا کا حکمران طبقہ اور اس کے سامراجی آقا انقلاب کے خلاف سازشیں کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔ معاشی سبوتاژ کو روکنے کے لیے PSUVکی حکومت کو ذرائع پیداوار، جاگیریں اور بینک ضبط کر کے محنت کشوں کے جمہوری کنٹرول میں دینے ہوں گے۔صرف اسی صورت میں منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر کے سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کی جاسکتی ہے۔ان اقدامات کا مطلب حکمران طبقے اور سامراج سے براہ راست تصادم ہوگا۔ اس معرکے کو جیتنے کے لیے انقلابی تحریک میں شامل مفاد پرستوں اوراصلاح پسندوںکو نکال باہرکرکے بڑے پیمانے پر انقلابی نوجوانوں اور محنت کشوں کو مارکسی قیادت فراہم کرتے ہوئے متحرک کرنا ہوگا۔وینزویلا میں سوشلسٹ انقلاب کی حتمی فتح پورے لاطینی امریکہ میں انقلابی تحریکوں کو جنم دے گی۔ یہ انقلاب پوری دنیا میں سرمایہ داری کی ذلتوں اورسامراج کی وحشت سے برسر پیکار محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے مشعل راہ بنے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں