"DLK" (space) message & send to 7575

مہنگائی کا ذمہ دار کون؟

مسلم لیگ (ن) کی موجودہ حکومت میں بڑھتا ہوا افراط زر اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی مہنگائی عام آدمی کے لیے گزر بسر کو ناممکن بناتی چلی جا رہی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی کے ساتھ عوام کے قوت خرید بھی مسلسل کم ہو رہی ہے۔ افراط زر کی شرح میں اضافے کے سنجیدہ معاشی و سماجی نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ محنت کش عوام کی حقیقی آمدن اور اجرتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور بڑے کاروباری حضرات کی شرح منافع میں بے تحاشا اضافہ ہو رہا ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان اتنی وسیع خلیج پہلے کبھی موجود نہ تھی اور یہ طبقاتی تفریق مزید شدت اختیار کر رہی ہے۔ اس معاشی امتیاز کے خلاف عوام میں پائے جانے والی نفرت اور غصے کو بآسانی محسوس کیا جا سکتا ہے لیکن حکمران بے حس ہو چکے ہیں، ان کی سرد مہری اذیت ناک ہے۔
تحریک انصاف نے اپنی اتحادی جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر 22 دسمبر کو لاہور میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری اور ''اپوزیشن‘‘ میں شامل دوسری سیاسی جماعتیں بھی بالواسطہ یا براہ راست عمران خان کی حمایت کر رہی ہیں۔ عمومی نقطہ نظر سے یہ ایک مثبت قدم ہے کیونکہ لمبے عرصے کے بعد عوام کے ایک بنیادی مسئلے کو کسی بڑی سیاسی جماعت نے اہمیت دی ہے‘ اس لیے اس عمل کو عوام میں کچھ پذیرائی ضرور ملے گی؛ تاہم مہنگائی کا مسئلہ عملی طور پر حل ہونے کے امکانات مخدوش ہیں۔ عوام تلخ معاشی حقائق کا سامنا براہ راست اپنی روزمرہ زندگیوں میں کر رہے ہیں۔
عمران خان کے اصرار پر نواز شریف حکومت مہنگائی کیسے کم دے گی؟ اگر اقتدار خود عمران خان کے پاس ہو تو وہ بھی ایسا نہیں کر سکتے۔ یہ کسی ایک فرد یا حکومت کی ''گڈ گورننس‘‘ کا مسئلہ نہیں، دنیا کی کوئی بھی حکومت اپنی خوشی سے مہنگائی یا معاشی حملے نہیں کرتی۔ حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے جہاں تک ممکن ہو عوام کو نہ ''چھیڑا‘‘ جائے اور پُرامن طریقے سے استحصال جاری رہے۔ مسلم لیگ ن کی حکومت بھی افراط زر کو قابو میں رکھنا چاہتی ہے لیکن سرمائے کا یہ نظام‘ جس کی بنیاد پر ان حکمرانوں کا سیاسی اقتدار قائم ہے‘ خود اس قابل نہیں کہ محنت کش عوام پر معاشی بوجھ ڈالے بغیر قائم رہ سکے۔ پاکستانی معیشت مستقل طور پر خساروں، افراط زر اور انفراسٹرکچر میں عدم سرمایہ کاری کا شکار چلی آرہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی سابق حکومت بھی انہی مسائل کا شکار تھی اور اس زوال پذیر نظام کے زیر اثر مستقبل میں آنے والی ہر حکومت اس سے بھی زیادہ جارحانہ معاشی پالیسیاں اپنائے گی۔ اس ملک کی تاریخ میں اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں کبھی حقیقی کمی ہوئی ہی نہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام میں اجناس کی پیداوار کا مقصد انسانی ضروریات کی تکمیل نہیں بلکہ ذرائع پیداوار کے مالکان کا منافع ہوتا ہے۔ پیداواری عمل میں دو طرح کا 'سرمایہ‘ شامل ہوتا ہے۔ پہلا 'متغیر سرمایہ‘ جس سے مراد قوت، محنت یا آسان الفاظ میں مزدوروں کی مجموعی اجرت ہے۔ دوسرا 'مستقل سرمایہ‘ جس سے مراد مشینیں، عمارت اور ٹیکنالوجی وغیرہ ہیں۔ سرمایہ دار، سرمایہ کاری کے لیے پیسہ عام طور پر بینک سے ادھار لیتا ہے جو مجموعی طور پر پورے معاشرے کی ملکیت ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کی قوت محرکہ منافع نہیں بلکہ ''شرح منافع‘‘ ہے۔ اگر کوئی سرمایہ دار اپنی شرح منافع میں مسلسل اضافہ نہیں کر پاتا تو جلد یا بدیر وہ مقابلہ بازی میں ہار کر منڈی سے باہر ہو جائے گا۔ شرح منافع میں مسلسل اضافے کے لیے ضروری ہے کہ سرمایہ دار ''متغیر سرمائے‘‘ کو کم سے کم رکھے یعنی کم سے کم اجرت پر، کم سے کم محنت کشوں سے، کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرے۔ لیکن سرمایہ داری کا بنیادی تضاد یہ ہے کہ محنت کشوں کی اجرت ہی منڈی میں اپنا اظہار قوت خرید کی شکل میں کرتی ہے اور محنت کش طبقے کی مجموعی اجرت کے ساتھ ساتھ منڈی میں طلب بھی کم ہوتی ہے۔ اجناس پیدا تو ہوتی ہیں لیکن انہیں خریدنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ اسی صورتحال کو مارکس ''زائد پیداوار کا بحران‘‘ کہتا ہے۔ ان حالات میں ریاست نوٹ چھاپ کر یا بینکوں سے ادھار لے کر پیسہ (Liquidity) منڈی میں پھینکتی ہے تاکہ طلب کو بحال کیا جا سکے۔ اس معاشی پالیسی کو 'کینشیئن ازم‘ کہا جاتا ہے لیکن اس کا نتیجہ افراط زر کی شکل میں برآمد ہوتا ہے۔۔۔ منافعے مزید کم ہو جاتے ہیں اور معاشی بحران بڑھ جاتا ہے۔ کینشیئن ازم کا متبادل ''مانیٹرازم‘‘ ہے جس میں ریاستی اداروں کی نجکاری کے ذریعے سرمایہ داروں کو شرح منافع میں اضافے کے مواقع فراہم کیے جاتے ہیں۔ یہ دراصل 1860ء کے دنوں کی ''کلاسیکل سرمایہ داری‘‘ پر واپس جانے کی کوشش ہے جو یورپ میں 1970ء میں کینشیئن ازم کی ناکامی کے بعد کی گئی تھی۔ 2008ء میں سرمایہ داری کی تاریخ کا سب سے بڑا بحران اسی ''مانیٹرسٹ‘‘ ماڈل کا نتیجہ تھا۔
مختصر الفاظ میں محنت کش طبقے کو محروم رکھتے ہوئے اجناس کی قیمت میں اضافہ شرح منافع کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے؛ چنانچہ مہنگائی اس سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہے جس کے علمبردار عمران خان اور جماعت اسلامی بھی ہیں۔ تحریک انصاف کی معاشی پالیسی کا بنیادی ستون ہی غیرملکی سرمایہ کاری ہے جو تب ہی ہوتی ہے جب زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول یقینی ہو۔ نواز لیگ اور باقی سیاسی جماعتیں بھی اسی معاشی ڈاکٹرائن پر کاربند ہیں۔ اس صورت میں مہنگائی کرنے والوں اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے والوں میں کیا فرق ہے؟ یہ صرف سیاسی تماشا ہے جس کا مقصد عوام کو دھوکہ دینا ہے نا کہ انہیں مہنگائی کے عذاب سے چھٹکارا دلانا۔
جماعت اسلامی کو ادراک ہے کہ وہ کبھی پاکستان میں عوامی بنیادیں حاصل نہیں کر پائی اور نہ کر سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی کاسہ لیسی کرتی رہی ہے یا پھر نواز شریف سمیت اسٹبلیشمنٹ کے حمایت یافتہ دائیں بازو کے رہنمائوں کی ''اتحادی‘‘ رہی ہے اور آج کل تحریک انصاف کے ساتھ نتھی ہے۔ جماعت مذہبی بنیاد پر سیاست میں ناکامی کے بعد اب عمران خان کے ''سول سوسائٹی گلیمر‘‘ سے مستفید ہونا چاہتی ہے۔ عمران خان کچھ زیادہ ہی دریا دل ثابت ہوئے ہیں اور انہوں نے جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کی شکل میں نیا سیاسی آلہ کار فراہم کر دیا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت کی تمام پالیسیوں پر جماعت اسلامی کی چھاپ واضح نظر آتی ہے۔ عمران خان کی جانب سے عبدالقادر ملا کے ''معصوم‘‘ ہونے کا حالیہ بیان تحریک انصاف کا اصل کردار بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔
سرمایہ داری کا بڑھتا ہوا بحران دنیا بھر میں انسانی سماج کو پُرانتشار بناتا چلا جا رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں امارت اور غربت کی تفریق اتنی زیادہ کبھی نہ تھی۔ ''Credit Suisse‘‘ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا کے 0.7 فیصد امیر ترین لوگ 98 ہزار ارب ڈالر (دنیاکی کل دولت کا 41 فیصد) پر قابض ہیں اور دنیا کی 68.7 فیصد بالغ آبادی کا کل دولت میں حصہ صرف 3 فیصد ہے۔ یہ اعدادوشمار مارکس کی اس پیش گوئی کو ڈیڑھ سو سال بعد بھی سچ ثابت کر رہے ہیں کہ ''ایک طرف دولت کے ارتکاز کا مطلب دوسری طرف بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کا ارتکاز ہے‘‘۔ (سرمایہ جلد اول، باب 25)
پاکستان میں دولت کا ارتکاز اور اس کے سماجی نتائج کہیں زیادہ خوفناک ہیں۔ مہنگائی، بیروزگاری اور انفراسٹرکچر کی بدحالی عوام کے لیے عذاب مسلسل بن چکی ہے۔ یہ نظام زندہ رہنے کے بنیادی انسانی حق کے لیے ہی خطرہ بن چکا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں