پرانی دہلی کی ''آزاد مارکیٹ ‘‘اور ممبئی کی ''ہڑتال گلی‘‘ میں عجیب کاروبار ہوتا ہے۔ان بازاروں کی دکانوں پر مختلف صنعتوں اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین کے یونیفارم کرائے پر ملتے ہیں۔یہاں مختلف فیکٹریوں کے مزدوروں کے لباس سے لے کر نرسوں ، محکمہ ڈاک کے ملازمین اور خاکروبوں تک کی وردیاںدستیاب ہیں۔ان دونوں بازاروں کے زیادہ ترگاہک وہ سیاسی رہنما ہیں جنہیں مختلف مظاہرے کروانے ہوتے ہیں۔ جیسے شادی ہالوں میں شادی بیاہ کی تقاریب کی بکنگ ہوتی ہیں بالکل اسی طرح اس بازار کے دکاندار مختلف مظاہروںاوردھرنوں کی بکنگ کرتے ہیں۔مظاہرے کی نوعیت کی مطابق وردیاں جھونپڑ پٹیوں کے بے روزگار نوجوانوں کو پہنا کر انہیں مقررہ مقام پر پہنچا دیا جاتا ہے۔مظاہروں میں شرکت کرنے والوںکو ٹرانسپورٹ اور کھانے کے ساتھ ساتھ معمولی اجرت بھی دی جاتی ہے۔مختلف سیاستدان، این جی اوز اور ''سماجی کارکنان‘‘کرائے کے ان مظاہروں اور جلسے جلوسوں کے ذریعے اپنی ساکھ بڑھاتے اور بلیک میلنگ کے ذریعے مالی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ ایسے مظاہرے یا دھرنے کروانے کاعمل صرف بھارت تک محدود نہیں،پاکستان سمیت تیسری دنیا میں یہ ایک سیاسی معمول بن چکا ہے۔
سرمایہ دارانہ سماج میں جہاں سیاست ایک کاروبارہے، وہاں اس قسم کے جعلی مظاہرے، ریلیاں اوردھرنے اس کاروبار کا اہم جزو ہیں۔نظریات سے عاری پاکستانی سیاست اس حد تک کمرشلائزہوگئی ہے کہ انتخابی مہمات سے لے کرمیڈیا کے استعمال اورجلسے جلوسوں تک، ہر ایک سیاسی عمل سرمائے کی بیساکھیوں کا محتاج ہے۔ سیاست کے اس کاروبار میں بڑے سرمایہ دار، جاگیردار اور کاروباری حضرات گھوڑوں کی ریس کی طرح مختلف سیاستدانوں اور پارٹیوں پر دائو لگاتے ہیں۔سماج کی یہ کیفیت محنت کش عوام کی سیاست سے بیگانگی کے باعث پیدا ہوتی ہے۔ محنت کش طبقہ جب تک سیاسی طور پر متحرک نہ ہو اسے اپنی طاقت کا ادراک نہیں ہوتا۔ سماجی جمود کے ادوار میں حکمرانوں کے معاشی حملے، غربت، مہنگائی اورنان ایشوز محنت کشوں کو لاغر کئے رکھتے ہیں۔عوام کی کوشش ہوتی ہے کہ تلخ حقائق سے نظریں چرا کر معمولات زندگی کو جاری رکھا جائے لیکن سرمایہ دارانہ سماج میں معاشی عدم استحکام، جرائم، تشدد، بیروزگاری اور سماجی خلفشار کی اذیتیں برداشت کر لینے سے کم نہیں ہوتیں بلکہ بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
حکمران جہاں عوام پر معاشی حملے جاری رکھتے ہیں وہاں نظام کا بحران ان کے باہمی تضادات کو بھی شدید کر دیتا ہے جس سے ان کی سیاست بھی انتشارکا شکار ہوجاتی ہے۔عوام کے لیے روزی روٹی جب سب سے بڑا مسئلہ بن جائے تو سیاست صرف امیروں کا کام بن جاتی ہے اورسیاست سمیت ہر شعبے میں صرف پیسے والے ہی اوپر آسکتے ہیں۔بھاری تنخواہوں پر'ماہرین‘ کی خدمات لینے والے یہی امراء ذرائع ابلاغ پر حاوی ہوتے ہیں اور الیکٹرانک میڈیا پر انہی کو گھنٹوں کے حساب سے ائیر ٹائم ملتا ہے۔ یہاں جائیداد کی طرح سیاست بھی نسل در نسل منتقل کی جاتی ہے اور سیاسی جانشینوںکی خامیاں دور کرنے کے لیے پانی کی طرح پیسہ بہایا جاتا ہے۔نہ صرف ان کی زبان اور تلفظ ٹھیک کروائے جاتے ہیں بلکہ لباس، انداز اور باڈی لینگوئج کو سیاسی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے باقاعدہ ٹریننگ کا انتظام کیا جاتاہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر علامہ طاہر القادری کو بھی ہر سال شدید سردی میں اپنے مریدین کا جم غفیر اکٹھا کرنے کی عادت سی ہوگئی ہے۔موصوف اپنے جلسوں میں اس نظام کی سیاست اور معیشت سے اکتائی ہوئے عوام کو ''انقلاب‘‘ کا سندیسہ دیتے ہیں۔اس موقع پر اس نظام کی خرابیاں ماہرانہ اور جذباتی انداز میںگنوائی جاتی ہیں اور حکمرانوں کے کالے کرتوتوں کی تشریح بھی کی جاتی ہے، لیکن قادر ی صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ نظام کی بنیادوں کو ہلائے بغیر نظام کی خامیاں دورکرنا چاہتے ہیں اور جہاں مشکل پیش آئے وہاں سارا کام اللہ میاںپر چھوڑ دیتے ہیں۔ مولاناکا انقلاب ایسا ویسا نہیںبلکہ یہ خالص''آئینی، قانونی اور پر امن انقلاب‘‘ہے۔
29دسمبر کوعلامہ طاہرالقادری کی ریلی سے پیشتر عمران خان نے بھی اسی قسم کی احتجاجی ریلی نکالی تھی۔ایم کیو ایم نے بھی ایسی ہی ایک ریلی کے ذریعے اپنی مرضی کا انتخابی ڈھانچہ استوار کروالیا ہے۔ کراچی اور حیدرآباد کے عوام کی حالت پر نظر دوڑائی جائے توگزشتہ 20سال سے ایم کیو ایم کے مسلسل اقتدارکا کوئی جواز نظر نہیں آتا لیکن کالے دھن کے زور پر چلنے والے اس سیاسی نظام میں جیت ہمیشہ زر کی ہوتی ہے، عوام کی نہیں۔
شہباز شریف اور عمران خان سے لے کرالطاف حسین اور منور حسن تک انقلاب کی باتیں تو سبھی کرتے ہیں لیکن ان تمام حضرات کے ''انقلابات‘‘ اس نظام کو بچانے کے لیے ہیں، مٹانے کے لیے نہیں۔طاہر القادری کا انقلاب سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑنے کے بجائے اسے آئینی اور ریاستی ڈھانچے کے طابع کرکے ''ٹھیک‘‘ کرنے کے لیے ہے۔یہ کوئی حادثہ نہیں کہ رنگ برنگ کے ان تمام انقلابیوں کی پشت پر وہ سامراجی اور ریاستی سپانسر ہیں جو خود اس استحصالی نظام کی پیداوار ہیں اور جن کی دولت میں مسلسل اضافہ اسی نظام کے قائم رہنے سے مشروط ہے۔ہرکچھ عرصے بعد انقلاب کے نام پر یہ ناٹک اس خوف کے پیش نظر رچایا جاتا ہے کہ عوام کہیں حقیقی انقلاب کے لیے کھڑے نہ ہوجائیں ۔
معاشی، سیاسی اور سماجی طور پرصرف سوشلسٹ انقلاب ہی سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ سکتا ہے۔انقلاب سماج کے ملکیتی اورپیداواری رشتوں میں بنیادی تبدیلی کا نام ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ذرائع پیداوارکی نجی ملکیت کا خاتمہ کیا جاتا ہے، خونخوار سامراج قرضے ضبط کیے جاتے ہیں، حکمرانوں کی تجوریوں میں یرغمال بنی دولت کو عوام کی انقلابی طاقت سے بازیاب کروایا جاتا ہے، انقلابی ٹریبیونلز عوام کے مجرموں کو سزائیں سنا کر موقع پر ہی عملدرآمد کرواتے ہیں،مراعات یافتہ طبقے کے استحصال کو تحفظ فراہم کرنے والی سرمایہ دارانہ ریاست کو پاش پاش کر کے مزدور ریاست تشکیل دی جاتی ہے اور منافع پر مبنی منڈی کی معیشت کا خاتمہ کر کے منصوبہ بنداشتراکی معیشت کی تعمیر کا عمل شروع کیا جاتا ہے۔
اس ملک کی سیاست پربراجمان دوسرے سیاسی کھلاڑیوں کی طرح طاہرالقادری خود مالیاتی سرمائے کے ایک مخصوص دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں جو ان کی ریلیوں پر کروڑوں اربوں روپے خرچ کر سکتا ہے۔لینن نے کہا تھا:''سیاست مجتمع شدہ معیشت کا عکس ہوتی ہے‘‘۔اس لیے سماجی جمود کے عمومی ادوار میں سماج پر اوپر سے حاوی ہونے والا ہر سیاسی رجحان حکمران طبقے کے کسی نہ کسی حصے کی نمائندگی کرتا ہے،لیکن غیر معمولی انقلابی ادوار میں جب نیچے سے محنت کشوں کی خود رو تحریکیں ابھرتی ہیں تو انہیں بسوں میں بھر بھر کے جعلی جلسہ گاہوں میں لانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ایسے عہد میں عوام اپنی منازل کا تعین خود کرتے ہیں۔ انقلابی پارٹیاں سرمایہ داروں کے سرمائے کے بجائے محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی سے پروان چڑھتی ہیں، عوام خود بینزر اور پوسٹر لکھ کردیواروں پر چسپاں کرتے ہیں،کروڑوں استحصال زدہ انسان انقلابی پراپیگنڈا کے چلتے پھرتے پیغامبر بن جاتے ہیں اور مارکس کے الفاظ میں''جب عوام نظریے کو اپناتے ہیں تو یہ مادی قوت بن جاتا ہے‘‘۔ محنت کشوں اور نوجوانوں کی ایسی تحریکیں پاکستانی معاشرے نے دیکھی ہیں اور آنے والے وقت میں یہ پھر ابھریں گی۔انقلاب کوئی مذاق نہیں کہ کوئی ایک فرد آئے اور برپا کردے۔انقلابات صرف سیاست،ریاست اور معیشت کو ہی تبدیل نہیں کرتے بلکہ تاریخ کے دھارے کو موڑ دیتے ہیں، پرانے نظام کی ہر قدر کے ساتھ ساتھ لوگوں کی سوچیں اور رویے بھی بدل ڈالتے ہیں، خطوں کے جغرافیے الٹ پلٹ جاتے ہیں۔
آج حکمران طبقہ اوراس کے سیاسی حواری انقلاب کے مبہم سے تعارف سے ہی اس قدر گھبرائے ہوئے ہیں کہ انقلاب انقلاب کھیل کرلوگوںکوانقلاب کے نام سے ہی متنفرکرنا چاہتے ہیں۔ انقلاب کے نام پر مداری کرکے غریب عوام کی تذلیل کرنے والوں کو اگر سوشلسٹ انقلاب کا ادراک ہو جائے تو شاید یہ حضرات دوبارہ انقلاب کا لفظ زبان پر نہ لا سکیں۔اس ملک کے کروڑوں محنت کش عوام بہت جلد تاریخ کے میدان عمل میں اترکرانقلاب کی نعرہ بازی کرنے والوں بتائیں گے کہ انقلاب ہوتاکیاہے!