ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے 3جنوری 2014ء کو یہ دھماکہ خیز بیان دیا ہے کہ ''اگر پیپلز پارٹی اور سندھ کے قوم پرست اردو بولنے والے سندھیوں کو سندھ کا حصہ نہیں بنانا چاہتے تو اردو بولنے والوں کا الگ صوبہ بنا دیا جائے‘ بات آگے بڑھی تو الگ ملک بھی بن سکتا ہے‘‘۔ یوں محسوس ہورہا ہے کہ دو عشروں سے زیادہ عرصہ تک کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کا حصہ رہنے کے بعد اب ایم کیو ایم کو اقتدار سے باہر رہنا مشکل محسوس ہورہا ہے۔سرکاری طور پر کراچی میں جاری حالیہ آپریشن کا مقصد اگرچہ دہشت گرد وں اور بھتہ خوروں کا خاتمہ بتایا جارہا ہے تاہم محسوس یہ ہورہا ہے کہ انتخابی سیاست میں ایم کیو ایم کی برتری قائم رکھنے میں اہم کردار ادا کرنے والے ''کچھ عناصر‘‘ بھی اس آپریشن کی زد میں آرہے ہیں۔ کراچی اور حیدر آباد میں اس کی احتجاجی ریلیاں بنیادی طور پر کراچی میں جاری اسی آپریشن کو روکنے کی ایک کاوش لگتی ہیں۔ سندھ میں اپنا گورنر ہونے کے باوجود اس طرح کا بیان دراصل اس کی سیاسی ساکھ کی زوال پذیری اور سماجی بنیادوں کے کھوکھلے پن کی غمازی کرتا ہے۔حالیہ انتخابات کے بعد اقتدار میں حصہ حاصل کرنے میں ناکامی نے اس کے سیاسی اور تنظیمی بحران کو اور بھی شدید کر دیا ہے۔
اس بیان نے پاکستان میں سلگتے ہوئے قومی مسئلے کو ایک بار پھر کرید ڈالا ہے۔آخر ''اردو بولنے والے سندھیوں‘‘ کو الگ ملک بنانے کی ضرورت کیوں پیش آرہی ہے؟ سندھی بولنے والے غریب کو اردو بولنے والے غریب سے ایسا کیا شکوہ ہے کہ علیحدگی کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے؟ الطاف بھائی کا یہ بیان قومی مسئلے کا حل فراہم کرنے کی بجائے ان گنت پیچیدہ سوالات کو جنم دیتا ہے جبکہ اس بیان پر سندھی قوم پرست جماعتوں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے آنے والے رد عمل نے سطح کے نیچے پائے جانے والے تضادات کو عیاں کردیاہے۔اگرچہ ایم کیو ایم کی یہ روش نئی نہیں لیکن کراچی میں بے قابو ہوتی ہوئی بد امنی اور انتشار کے پیش نظر ریاست کچھ پرانے دوستوں کو ناراض کرنے پر مجبور ہوگئی ہے۔کراچی میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے مسلح ونگ سرگرم ہیں اور بھتہ خوری سمیت ہر قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں سب کے سب کسی نہ کسی سطح پر حصہ دار ہیں۔
پاکستان مختلف قومیتوں یا قوموں کو مذہب کی بنیاد پر یکجا کرنے والی ایک مملکت کے طور پر معرض وجود میں آیا تھا تاہم 67سال گزر جانے کے باوجود بھی یہاں کا حکمران طبقہ ایک جدید قومی ریاست اور یکجا قوم تشکیل نہیں کرپایا۔ بلوچستان سے پختونخوا اور کشمیر تک قومی محرومی کے جذبات نہ صرف موجود ہیں بلکہ شدت اختیار کرتے جارہے ہیں۔تاریخی، مالیاتی، تکنیکی ، سیاسی اور سفارتی طور پر کمزوری اور تاخیر زدگی کے شکار پاکستانی بورژوازی سرمایہ دارانہ نظام کا ایک بھی تاریخی فریضہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہے۔اس ملک میں جہاں بدترین طبقاتی استحصال موجود ہے وہاں قومی بنیادوں پر استحصال کے وجود سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کے مختلف علاقوں اور صوبوں میں غیر مساوی سماجی و اقتصادی ترقی اور علاقائی سطح پر انفراسٹرکچر کی ناہموار تعمیر ناگزیر طور پر مختلف قوموں یا قومیتوں میں محرومی کے جذبات کو جنم دیتی ہے اور محرومی کے یہی جذبات منافرتوں کی بنیاد بنتے ہیں۔صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کے بیشتر سابق نوآبادیاتی ممالک میں یہی صورتحال موجود ہے۔ہندوستان کی ڈیڑھ درجن سے زائد ریاستوں میں قومی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ آندھرا پردیش اور تیلگو دیسم میں یہ مسئلہ پچھلے چند ماہ میں شدت اختیار کر گیا ہے اور کسی ٹھوس فیصلہ سازی میں کانگریس کی ناکامی آنے والے انتخابات میں اس کی شکست کا سبب بن سکتی ہے۔
ایم کیو ایم کا ابھار 1980ء کی دہائی میں کراچی اور حیدرآباد میں ہوا تھا۔ ''مہاجر قومی موومنٹ‘‘ کے نام سے قائم ہونے والی یہ جماعت تقسیم کے بعد ہندوستان کی شمالی اور وسطی ریاستوں سے آنے والے عوام کی نمائندگی کی دعویدار تھی۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک میں کراچی کے محنت کش عوام تمام تر قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ ورانہ تفرقات کو پس پشت ڈالتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر حکمران طبقات کے اقتدار اور ان کے نظام کے لئے بڑا خطرہ بن گئے تھے۔لیکن 1973ء کے بعد اس طبقاتی تحریک کی بتدریج پسپائی نے اس شہر میں ترقی پسند رجحانات اور محنت کشوں کی جڑت کو بڑی ٹھیس پہنچائی۔ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کو فوجی کُو کے ذریعے اکھاڑ کر قائم ہونے والی ضیاالحق آمریت کی بنیادی سیاسی حکمت عملی محنت کش عوام کو لسانیت اور مذہب کی بنیاد پرتقسیم کرتے ہوئے ان کی یکجہتی اور جڑت کو توڑنے پر مبنی تھی۔اس عہد میں ریاستی ایجنسیوں کو امریکی سی آئی اے کی بجائے مشرقی جرمنی کی بدنام زمانہ خفیہ ایجنسی''سٹاسی‘‘ کی طرز پر ازسر نو تشکیل دیا گیا جس کا مقصد لوگوں کی نجی زندگیوں پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ لسانی اور فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینا تھا۔''مہاجر اور مقامی‘‘ کا تضاد بھی ضیا دور میں ہی ابھارا گیا جسے بائیں بازو کے زوال اور سیاسی خلا کے عہد میں استعمال کرتے ہوئے ایم کیو ایم نے سماجی اور سیاسی بنیادیں حاصل کیں۔ اپنے قیام کے بعد سے ایم کیو ایم یا تو براہ راست حکومت کا حصہ رہی ہے یا پھر اقتدار کے آس پاس منڈلاتی رہی۔ اس دوران چند ایک مواقع پر اس کی بڑھتی ہوئی ''سرگرمیوں‘‘ سے تنگ آکر ریاست کے ایک حصے کو ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن بھی کرنے پڑے جس کے بعد دوبارہ اسے شامل اقتدار کروا دیاگیا۔یوں کراچی کے سیاسی اور سماجی افق پر مسلسل رجعت حاوی رہی۔ مہاجر قومی مومنٹ سے ''متحدہ قومی مومنٹ‘‘ بننے کے باوجود اس جماعت کی سماجی بنیاد زیادہ تر سندھ کے شہری علاقوں میں آباد اردو بولنے والی آبادی تک ہی محدود رہی۔ ''مخصوص نوعیت‘‘ کی حامل اس کی تنظیمی مشینری انتخابات میں اس کی کامیابی کو ہر صورت میں یقینی بناتی رہی ہے۔
تقسیم کے بعد ہجرت کر کے سندھ میں آباد ہونے والی آبادی یہاں کے سماج میں ضم نہیں ہو پائی اور وقت گزرنے کے ساتھ گاڑھی ہونے والی تفریق کی یہ لکیر آج چھ دہائیوں کے بعد برصغیر کی تقسیم کے مقاصد پر ہی سوال اٹھا رہی ہے۔لیکن صورتحال اس سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔کراچی میں اگر بڑے پیمانے پر مہاجر آباد ہیں تو یہ پاکستان میں پشتونوں کا بھی سب سے بڑا شہر بن چکا ہے۔پاکستان اور تیسری دنیا کے دوسرے سرمایہ دارانہ ممالک میں کمزور سرمایہ داری کے تحت ہونے والی ناہموار صنعتی ترقی کی وجہ سے آبادیوں کے وسیع حصے روزگار کی تلاش میں اپنے علاقے چھوڑ کر صنعتی مراکز کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہیں۔ایسے میں بڑے شہروں میں وسائل کی قلت ، نفسا نفسی، بیروزگاری، مقابلہ بازی اور معاشی عدم استحکام ماضی کے تعصبات کو جنم دیتا ہے جسے سیاسی مداری اپنے مفادات کے لئے استعمال کرتے ہیں۔کراچی کی آبادی میں اس وقت قومی، لسانی، مذہبی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر 70سے زائد قسم کی تفریقیں موجود ہیں اور مذہبی و لسانی تعصب کی آگ میں محنت کشوں کو جلانے والے ''رہنما‘‘ اپنی طاقت اور دولت میں اضافہ کر رہے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ غربت اور محرومی کی ذلتوں میں مبتلا سندھ اور کراچی کے محنت کشوں کے مسائل اور ضروریات مشترک ہیں۔بھوک کی کوئی قوم، کوئی مذہب نہیں ہوتا۔عوام کے حقیقی مسائل کو دبانے اور ان کی باہمی یکجہتی کو توڑنے کے لئے حکمران مذہب اور لسانی تضادات کو ابھارتے ہیں۔ اصل دشمن اپنے آپ کو چھپانے کے لئے عوام کو ایک دوسرے کا دشمن بنا دیتے ہیں۔امیر اور غریب کے تضاد پر جعلی اور خود ساختہ تضادات کا پردہ ڈال دیا جاتا ہے۔کراچی، سندھ، پاکستان اور اس پورے خطے کے استحصال زدہ محنت کش عوام صرف طبقاتی بنیادوں پر یکجا ہو کر ہی اس نظام سے نجات حاصل کر سکتے ہیں جو تمام تر معاشی اور سماجی مسائل کی اصل جڑ ہے۔