"DLK" (space) message & send to 7575

نجکاری کے وار!

کسی بھی قوم یا ملک کے دوبنیادی اثاثے ہوتے ہیں۔۔۔ اس کے باسی اور اس کے ذرائع پیداوار اور وسائل۔اگر ہم پاکستان کے حکمرانوں کے بیانات اور تقاریر کاجائزہ لیں، ذرائع ابلاغ کے پروگراموں اور ترانوں پر غورکریں تو ہمیں ہر طرف سے 'قومی مفادات‘،'حب الوطنی‘،'ملکی سالمیت‘ وغیرہ کے نعرے ہی نعرے سنائی دیتے ہیں۔ایسے لگتا ہے کہ ان حکمران طبقات کو ملک اور وطن کا اتنا درد ہے کہ وہ جان بھی دے دیں گے، لیکن اگر ان کی پالیسیوں، عزائم اور عملی وارداتوں کا جائزہ لیں تو یہ وطن پر جان نچھاور کرنے والے حکمران دوہرے معیاروں، منافقت اور وطن فروشی کے سردار نظر آئیں گے۔ حب الوطنی، قوم پرستی اور ملکی سالمیتوں کے نعرے عوام کو اس شاونزم کی جذباتیت کے ذریعے ذہنی طور پر مطیع اور محکوم بنانے کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں۔اگر ہم اس ملک کے عوام کی اکثریت کی زندگیوں کاجائزہ لیں تو اس ملک کی تاریخ کا ہردن ان کے عذابوں میں اضافے کا ہی باعث بنتا ہے۔ یہاں کے محنت کشوں کی زندگیاں اتنی تلخ، محرومی اتنی شدید اور زندگی کی ضروریات کی قلت اتنی زیادہ ہے کہ اس ملک کی بھاری اکثریت کا جینا ایک عذابِ مسلسل بن گیا ہے۔ جہاں تک اس ملک کی محنت، صنعت وزراعت، معدنیات اور دوسرے اثاثوں اور معاشی شعبوں کا جائزہ لیں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ کس بے دردی سے یہ ان قومی اثاثوں کو اجاڑ رہے ہیں اور ان قومی ملکیت میں سے نکلنے والے اداروں کو زیادہ تر بیرونی سامراجی اجارہ داریاں یا پھر ان حکمرانوں کے سرمائے کے بڑے مگر مچھ نگل رہے ہیں۔ یہ اس ملک کے اثاثوں کو اس گھریلو سامان کی طرح اونے پونے داموں بیچ دینا چاہتے ہیں جیسے کوئی بگڑا ہوا آوارہ سپوت اپنے خاندانی اثاثوں کو فروخت کرکے اپنی عیاشی کے لیے استعمال کرتا ہے۔ ہمارے حکمران ان اجارہ داریوں سے لیے گئے کمیشنوں کو اپنے پہلے سے موجود دولت کے انباروں میں مزید اضافے کی زہریلی ہوس کی پیاس کو مٹانے کے لیے استعمال کریں گے۔
جب سرمایہ داروں کی موجودہ حکومت اس سال برسرِاقتدار آئی تو انہوں نے 65 قومی اثاثوں کو ملک کے خسارے اور معاشی بدحالی کو دور کرنے کی غرض سے نجی ملکیت میں دینے کا اعلان کیا۔ 8جنوری 2014ء کو ہونے والے پرائیویٹائزیشن کمیشن کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں ان میں سے31 کو شارٹ لسٹ کیا گیا جبکہ تین اداروں پی آئی اے، ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس اور نیشنل پاور کمپنی کی نجکاری کا فوری طور پرآغاز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اگر ہم حکمرانوں کے سیاست دانوں اور کارپوریٹ میڈیا کے پراپیگنڈے کا جائزہ لیں تو تقریباً 25 سال سے ایک مسلسل مہم چلائی گئی ہے جس میں نیشنلائزیشن کی ناکامی، خساروں اور بدعنوانی کے بے شمار واقعات ایک مخصوص نقطہ نظر سے دکھائے گئے۔ سماجی نفسیات میں یہ زہرگھولا گیا کہ مزدور سست، کاہل اور چور ہوتے ہیں، وہ کام کرنے میں ہیرا پھیری کرتے ہیں اور معیشت کے شدید بحران کی اصل وجہ مزدوروں کی کام چوری اور بدعنوانی ہی ہے۔ اعلیٰ عہدیداروں کی بد عنوانی، حکومت کی سرمایہ 
دار نواز پالیسیوں اور وزرا کی ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کے لیے سرکاری اداروں کی تباہی جیسے گھناؤنے عوامل کی تمام تر ذمہ داری مزدوروں پر ڈال دی گئی۔اس زہریلی مہم میں یہ بتانا بھول گئے کہ کسی بھی سرکاری ادارے کے ٹھیکوں سے لے کر بھرتیوں کے تمام فیصلے مزدور نہیں بلکہ حکمران کرتے ہیں۔اس مہم کی یلغار کے باعث خصوصاً درمیانے طبقے میںبڑی حد تک مزدور دشمن رویہ اور سرمائے کی پوجا کرنے کی سوچ پروان چڑھائی گئی۔ اس کیفیت کو استعمال کرتے ہوئے اب یہ حکمران ایک بڑی معاشی جارحیت کا تازہ حملہ شروع کررہے ہیں ۔ اس حملے سے طبقاتی کشمکش میں بھی ایک نئی اٹھان آئے گی اور حکمرانوں کی جانب سے یہ بھاری حملہ ایسے اشتعال کو جنم دے گاجو محنت کش عوام کی سماجی ا ور سیاسی بغاوت کی شکل اختیار کر لے۔ حکمرانوں کی سب سے زیادہ شوریدہ دلیل یہ ہے کہ اسٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے ایسے ادارے ہیں جو تقریباً 500 ارب روپے کے خسارے کا بوجھ ریاست پر ڈال رہے ہیں اور اس سے ملک کی معیشت برباد ہورہی ہے ۔لیکن اگر ان تمام اداروں کی لسٹ کا جائزہ لیا جائے جن کو سرمائے کی منڈی میں نیلام کیا جارہا ہے تو یہ پتا چلے گا کہ ان میں سے بہت سے ادارے خسارے کی بجائے حکومت کو بہت زیادہ منافع دے رہے ہیں۔ مثلاً او جی ڈی سی ایل نے گزشتہ برس ایک سو ارب روپے کا منافع دیااور 3 ڈالر فی ملین برٹش تھرمل یونٹ کی قیمت پر سرکار کو گیس فراہم کی جبکہ اس شعبے کی بین الاقوامی اور مقامی اجارہ داریاں حکومت کو 6 سے8 ڈالر کی قیمت سے گیس کی یہی مقدار فروخت کرتی ہیں۔ اگر اس کی نجکاری کی گئی تو ایک جانب گیس کی قیمتیں عوام کی پہنچ سے بہت دور ہوجائیں گی اور دوسری جانب ریاستی خزانے کو 100 ارب روپے کا سالانہ خسارہ اٹھانا پڑے گا۔گیس کی بڑھتی ہوئی قیمتیں اور لوڈشیڈنگ پہلے ہی عوام کی زندگیوں کو اجیرن کر رہی ہیں جبکہ بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہو کر بیروزگاری میں اضافہ کر رہی ہیں۔ اسی طرح جن شعبوں کی نجکاری پچھلی حکومتوں میں ہوئی ہے وہ بھی دن دیہاڑے سرکاری ڈکیتی سے کم نہیں ہے۔ پی ٹی سی ایل میں نہ صرف 60,000 مزدوروں کو ان کی نوکریوں سے برطرف کردیا گیا بلکہ خلیجی ممالک کی جس اجارہ داری نے اس کو خریدا تھا اس نے ایک سال میں اتنا منافع کمایا کہ اس کی تمام سرمایہ کاری اس سے پوری ہوگئی تھی۔ اس نجکاری کے بعد اور اتنے بڑے پیمانے پر روزگار ختم کر کے بھی ٹیلی فون کال کے ریٹ میں اضافہ کیا گیایہاں تک کہ ٹیلی فون انکوائری اور شکایت درج کروانے کے بھی پیسے لیے جاتے ہیں ۔اسی طرح سروس کا معیار بھی بدتر ہوا اور لاکھوں کی تعداد میں پی ٹی سی ایل کے پاس ایسی شکایات موجود ہیں جنہیںکم اسٹاف کے باعث حل نہیں کیا جا رہا ۔ اس کے ساتھ ساتھ اب نجی مالکان حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ پی ٹی سی ایل کے دفاتر اور ایکسچینجوں کی تمام زمین اور جائداد ان کے نام منتقل کی جائے۔اس تمام رقم کا تخمینہ لگایا جائے تو اس کے مقابلے میں ان کی ادا کردہ رقم اونٹ کے منہ میں زیرہ لگتی ہے۔اس پر مزید ظلم یہ کے مزید ہزاروں ملازمین کو جبری برطرف کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
یہی کچھ کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن کو ''ابراج کیپٹل‘‘ کی خلیجی اجارہ داری کو نیلامی کے بعد بھی ہوا۔ جہاں سات ہزار ملازمین کو برطرف کردیا گیا۔ وہاں بیشتر غریب اور کم اثرورسوخ رکھنے والے علاقوں میں بے پناہ جعلی (گھوسٹ) بلنگ کی گئی۔ ایک لاچارگی کے وقت اور عہد میں یہ بے یارومددگار افراد ان بلوں کی ادائیگیوں میں اپنی پونجیاں لٹاتے رہے۔ اسی طرح نجی مالکان کی جانب سے انفراسٹرکچر پر انتہائی ضروری نوعیت کے اخراجات نہ کرنے کے باعث بھی کراچی کے شہریوں کو متواتر کئی کئی دن لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن اسی اثنا میں مالکان نے 75 فیصد تک منافعے کمائے اور بجلی کی پیداوار کے شعبے میں دوسری سامراجی اجارہ داریوں کی طرح اربوں ڈالر واپس اپنے مرکزی دفاتر کو ارسال کئے۔ کیا یہ اس ملک کے محنت کشوں کے خون پسینے کی کمائی نہیں تھی جسے ہمارے حکمرانوں نے اس بے رحمی سے نچڑوایا۔ نہ صرف وہ علاقے جہاں سے بلوں کی ادائیگی پوری نہیں آرہی تھی بلکہ کم بلوں یعنی کم بجلی فروخت کرنے والے علاقوں میں بھی بے دریغ اور ظالمانہ لوڈشیڈنگ کی گئی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں