تعجب ہے کہ 'طالبان‘ نے ''مذاکراتی کمیٹی‘‘ میں عمران خان کے ساتھ شہباز شریف اور رانا ثنااللہ کا نام تجویز نہیں کیا۔ گزشتہ کئی مہینوں سے ''مذاکرات‘‘ کی رٹ لگا کر اپنی سیاست چمکانے کے باوجود خان صاحب اس ڈرامے کی حقیقت اور نتائج سے بخوبی آگاہ ہیں۔ شاید اسی لئے انہوں نے طالبان کی تجویز کا خیرمقدم تو کیا لیکن مذاکراتی کمیٹی کا حصہ نہیں بنے۔ کمیٹی میں عمران خان کی نامزدگی سے اب تک انہیں ''اعتدال پسند‘‘ سمجھنے والی شہری مڈل کلاس کو اگرچہ کافی مایوسی ہوئی لیکن اس سے تحریک انصاف کی ''نظریاتی بنیادوں‘‘ سے متعلق پائی جانی والی کنفیوژن بالکل دور ہو گئی ہے۔ عمران خان سے امیدیں وابستہ کرنے والوں کی اکثریت اب جان چکی ہے کہ تحریک انصاف سیاسی اور نظریاتی طور پر مذہبی بنیاد پرستوں، خاص کر جماعت اسلامی کی نمائندہ تنظیم سے زیادہ کچھ نہیں۔
''مذاکرات‘‘ کے باقاعدہ آغاز سے پہلے ہی مذاکراتی کمیٹیوں کے ممبران متضاد اور تذبذب سے لبریز بیانات دے رہے تھے۔ حکومتی کمیٹی کا موقف تھا مذاکرات آئین کی حدود میں ہوں گے جبکہ طالبان کے نمائندے تاحال غیرمشروط مذاکرات پر اصرار کر رہے ہیں؛ تاہم یہ ایک جعلی اختلاف محسوس ہوتا ہے کیونکہ مذاکرات کرنے والی دونوں کمیٹیوں کی ساخت ہی مضحکہ خیز لگتی ہے۔ دونوں طرف ایک ایسے نظریاتی رجحان کی نمائندگی کرنے والے مذہبی بنیاد پرست اور رجعت پسند بیٹھے ہیں‘ جنہیں ریاست کے بعض حصوں کی مکمل پشت پناہی کے باوجود آج تک 5 فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔ ان مذاکرات کی حیثیت ''شریعت‘‘ کے نفاذ کے لئے حکمران طبقے کے قدامت پرست دھڑے کی آپسی بات چیت اور تبادلہ خیال سے بڑھ کے کچھ نہیں۔ دونوں کمیٹیوں کے درمیان محض شریعت کی تشریح اور ہیئت سے متعلق کچھ ثانوی اختلافات موجود ہیں۔
جماعت اسلامی، جمعیت علمائے اسلام اور مذہبی بنیاد پرستوں کے کچھ دوسرے سیاسی رجحانات کے مطابق پاکستان کا آئین شریعت سے مطابقت رکھتا ہے اور مسئلہ صرف آئین میں درج ''اسلامی نکات‘‘ پر عمل درآمد کا ہے۔ دوسری طرف نسبتاً زیادہ شدت پسند ملاّ ہیں جو شریعت کا ذرا ''سخت‘‘ ورژن نافذ کر کے ملا عمر کو امیرالمومنین اور ملا فضل اللہ کو خلیفہ بنانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ایک طرف پُرتعیش ریاستی محلاّت میں جاری اس ''آپسی بات چیت‘‘ میں بیس کروڑ عوام کو الجھانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو دوسری طرف خود کش حملوں میں معصوم انسانوں کی قتل و غارت گری بلا روک ٹوک جاری ہے۔ دہشت گردی کی کم از کم ایک واردات ہر روز ہو رہی ہے جو ان ''مذاکرات‘‘ کے فریب کو عیاں کرنے کے لئے کافی ہے۔
سامراج کے سنجیدہ تجزیہ نگار اس مذاکراتی منافقت کی حقیقت سے اچھی طرح واقف ہیں۔ اکانومسٹ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والے تبصرے کے مطابق ''پاکستان اس قدر بے رحم تشدد سے دوچار ہے کہ امن کی کوئی نحیف سی کوشش بھی قابل قبول لگتی ہے... (مذاکرات میں) میز کے دونوں طرف بیٹھے نمائندوں کے پاس کوئی اتھارٹی نہیں ہے۔ طالبان نے سخت گیر ملائوں کو منتخب کیا ہے لیکن ان میں کوئی بھی ٹی ٹی پی کا ممبر نہیں ہے۔ مذاکرات شروع تو شاید ہوجائیں؛ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ بات چیت ہوگی کس بات پر... پاکستان کی سب سے بڑی ناکامی ریاست کی کمزور رِٹ ہے۔ شدت پسندوں کو مزید چھوٹ دینے سے دہشت گردی کم ہونے کی بجائے بڑھے گی۔اگر مذاکرات آگے بڑھتے ہیں تو بھی 'بریک تھرو‘ کی بجائے 'بریک ڈائون ‘ کے امکانات حاوی رہیں گے۔‘‘
میڈیا پر''مثبت پیش رفت‘‘ کے منافقانہ بیانات کے باوجود مذاکراتی کمیٹیوں کے ممبران اچھی طرح جانتے ہیں کہ شروع سے آخر تک یہ سارا عمل سراسر ڈھونگ اور بے معنی ہے۔ کارپوریٹ میڈیا پر ملنے والی کوریج کو مذہبی بنیاد پرست اپنے ایجنڈے کی تشہیر، ذاتی شہرت اور سیاسی مفادات کے لئے استعمال کررہے ہیں۔ ڈنڈا بردار عورتوں کے ذریعے پورے شہر کو یرغمال بنانے اور درجنوں لوگوں کو شہید کروا کر خود برقعے میں شہادت سے راہِ فرار اختیار کرنے والے لال مسجد کے ملاّ صاحب بھی ان مذاکرات کے ذریعے ''امن‘‘ قائم کرنے میں پیش پیش ہیں۔ موصوف نے ماضی میں ضیاء الحق کے دستِ شفقت سے بھی خوب فیض حاصل کیا ہے اور آپریشن کے بعد لال مسجد سے برآمد ہونے والے اسلحے کے انبار ایسے ملائوں کی نفسیات کی خوب عکاسی کرتے ہیں۔
مذاکرات کے درمیان دہشت گردی کے تسلسل نے ریاست اور میڈیا کی جانب سے دیے جانے والے طالبان کی یکجائیت اور مرکزیت کے تاثر کو بھی پارہ پارہ کردیا ہے۔ مذہبی شدت پسندوں اور دہشت گردوں کے درجنوں گروہ وفاداریاں بدلنے کے معاملے میں پاکستانی سیاستدانوں سے بھی دو ہاتھ آگے ہیں۔ مالی مفادات کے مطابق دوست دشمن اور دشمن دوست میں بدلتے رہتے ہیں۔ اس سارے خونی کھلواڑ کی قوت محرکہ منشیات اور اسلحے کی سمگلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، بلیک میلنگ اور دہشتگردی پر مبنی وہ کالی معیشت ہے جس کا حجم سرکاری معیشت سے دوگنا ہو چکا ہے اور جو تقریباً دس فیصد سالانہ کی شرح سے پھل پھول رہی ہے۔اس کے علاوہ یہ دہشت گردگروہ عالمی اور علاقائی سامراجی طاقتوں کو بھی کرائے پر ''خدمات‘‘ فراہم کرتے ہیں۔ پاکستان کے باخبر ترین سیاستدانوں میں گنے جانے والے مولانا فضل الرحمن نے اپنے ایک حالیہ ٹی وی انٹرویو میں مذاکرات کی گرما گرم ہنڈیا کو عین چوراہے کے بیچ پھوڑتے ہوئے کہا ہے ''ان مذاکرات کے مستقبل کا حتمی فیصلہ جی ایچ کیو میں ہی ہوگا۔‘‘ انہوں نے فوج کی اعلیٰ قیادت کے کچھ حصوں کی جانب سے بڑے فوجی آپریشن کی تیاری کا تناظر بھی پیش کیا ہے۔
آج بربریت کی جس آگ میں یہ پورا خطہ جل رہا ہے یہ 1970ء کی دہائی کے اواخر میں امریکی سامراج نے ڈالر جہاد کا آغاز کروا کے خود لگائی تھی۔1978ء کے افغان ثور انقلاب کو کچلنے کے لئے پاکستان کے اداروں نے امریکی سامراج کی ایما اور ''برادر ممالک‘‘ کی مالی مدد سے ان شدت پسندوں کو پروان چڑھایا تھا۔اس رد انقلابی جنگ کی مالی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے منشیات کی پیداوار اور سمگلنگ کا وسیع و عریض نیٹ ورک بھی سی آئی اے کی ''فنی اور تکنیکی معاونت‘‘ سے ہم نے ہی بچھایا تھا۔ منشیات کے اس دھندے سے وہ متوازی معیشت پیدا ہوئی جس نے بعد ازاں رنگ برنگ کے دہشت گرد مسلح گروہوں اور جنگی سرداروں کو جنم دیا۔ یہی گینگ آج کل ''طالبان‘‘ کے نام سے جانے جاتے ہیں۔
یہ کھیل آج اس قدر پیچیدہ ہوچکا کہ شروع کرنے والوں کے قابو سے بھی باہر ہے۔موجودہ نظام اور ریاست کے تحت اس دیو کو واپس بوتل میں بند کرنا ممکن نہیں ہے۔سرمایہ داری میں اتنی سکت نہیں ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں صنعت کاری ، معاشی ترقی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر کے ذریعے نوجوانوں کو باعزت روزگار فراہم کرتے ہوئے جدید اور صحتمند معاشرہ تخلیق کیا جاسکے۔ آمدن کے کسی جائز متبادل کی عدم موجودگی میں دہشت گردی پیشے کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔غربت ، پسماندگی اور بے روزگاری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دہشت گرد گروہوں کے آقا اور سرپرست نوجوانوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کر کے اپنی طاقت اور دولت میں اضافہ کررہے ہیں۔ ''امن مذاکرات‘‘ ہوں یا فوجی آپریشن ، جب تک دہشت گردی کی معاشی بنیادوں اور مالیاتی انفراسٹرکچر کا خاتمہ نہیں کیا جاتا یہ بربریت ختم ہونے والی نہیں ہے۔لیکن دوسری طرف ملکی معیشت لاغر اور مفلوج ہوکر مکمل طور پر کالی معیشت اور کرپشن پر منحصر ہوچکی ہے۔اوپر سے لے کر نیچے تک کالے دھن، پراکسی جنگوں، بدعنوانی اور دھڑے بازیوں کے زنگ سے کھوکھلی ہوچکی ریاست بھلا دہشت گردی کا خاتمہ کیا کرے گی؟