دہشت گردی اور انتہا پسندی کے مسئلے کو جس طرح مذاکرات اور فوجی آپریشن کی بھول بھلیوں تک محدود کردیا گیا ہے اس سے مسئلے کے حل کی بہت زیادہ امید نہیں لگائی جا سکتی۔مذاکرات کا سلسلہ سب کے سامنے بے نقاب ہوچکا ہے ۔اب آپریشن کی تیاری کی جارہی ہے۔ جس کے بعد لبرل دانشوروں کی جلدتسلی ہوجائے گی۔ یہ پیچیدہ بیماری ریاست کے کئی اعضاء کو مفلوج کرچکی ہے۔ معاملہ صرف بنیاد پرستی اور ''روشن خیالی‘‘ کے تضاد کا نہیں بلکہ اس میں بہت سے معاشی، اقتصادی، داخلی اور خارجی عناصر شامل ہیں۔ مسئلے کو حل کرنا تو درکنار موجودہ حکمران اسے سمجھنے سے بھی خوفزدہ ہیں۔
کئی سوالات ذہن میں آتے ہیں۔جس ریاست میں سرِعام طالبان کی حمایت اور طالبانی ذہنیت کی تبلیغ کرنے والے موجود ہوں‘ وہ طالبان کا خاتمہ کس طرح کرے گی؟ لال مسجد کے مولوی صاحب کو گمنامی سے نکال کر کس نے الیکٹرانک میڈیا پر براجمان کروایا ہے؟ منور حسن کس کے ایما پر انتہاپسندوں کی حمایت میں آخری حد تک جارہے ہیں؟ ملا ریڈیوسوات آپریشن کے دوران فوج کے گھیرے میں سے کیسے فرار ہوگیا تھا؟ ''گرفتاری‘‘ کے بعد اس کے سسر صوفی محمد کا کیا بنا؟ ہرکچھ عرصے بعد نام بدل کر رنگ برنگ کی کانفرنسیں کرنے والی ''کالعدم‘‘ تنظیموں پر ہاتھ کیوں نہیں ڈالا جاتا؟ آج تک کتنے دہشت گردوں کو سزا سنائی گئی ہے؟ جس ریاست کے کئی حصے انتہاپسندوں کو عزیز جانتے ہوں، جس حکومت کا ہر نمائندہ دوسرے سے متضاد بیان دے رہا ہو ،کیااس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے ان ''اسٹریٹیجک اثاثوں‘‘ کو خود کچل دے ؟
پاکستان کی تاریخ میں ریاست آج جتنے بیرونی اور اندرونی تضادات کا شکار ہے پہلے شاید کبھی نہ تھی۔ کراچی سے لے کر پختونخوا اور فاٹا سے لے کر بلوچستان تک، فوج پہلے کبھی اتنے اندرونی محاذوں پر تعینات نہیں ہوئی تھی۔ ریاستی اداروں کے مختلف فیکشنز کے مابین مسلسل تنائو پوشیدہ نہیں رہا ۔
درحقیقت 'آزادی‘ کے فوراً بعد ہی پاکستانی حکمران طبقات خصوصاً فوجی اشرافیہ کی سامراجی یا نیم سامراجی پالیسیوں کا آغاز ہوگیا تھا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ معاشی اور تکنیکی طور پر مضبوط ریاستیں ہی سامراجی عزائم رکھتی ہوں ۔ ماضی میں ہمیں بڑے رقبے اور فوج رکھنے والی کئی پسماندہ ریاستیں سامراجی پالیسیوں پر گامزن نظر آتی ہیں۔ تمام تر معاشی پسماندگی کے باوجود 19 ویںاور 20ویں صدی کے آغاز میں زار روس کی خارجہ پالیسی خالصتاً سامراجی تھی۔ افغانستان میںروسی اور برطانوی سامراجوں کے درمیان چپقلش یا ''گریٹ گیم‘‘ اسی پالیسی کا شاخسانہ تھی۔ اسی طرح سامراجی غلامی کا شکار رہنے والا ایک سابق نوآبادیاتی ملک بھی سامراجی عزائم رکھ سکتا ہے۔گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران مسلسل معاشی تنزلی اور داخلی خلفشار کا شکار رہنے والی پاکستانی ریاست کے سامراجی عزائم کشمیر سے لے کر بلوچستان اور افغانستان تک واضح نظر آتے ہیں۔ اس پالیسی کو زیادہ تقویت سردجنگ کے عہد میں امریکی سامراج کی پشت پناہی سے ملی ۔
افغانستان میں1978ء کے ثور انقلاب کے بعد امریکہ کو پاکستانی ریاست کی مدد کہیں زیادہ درکا ر تھی۔ اس صورت حال میںجہاں امریکہ نے پاکستانی ریاست کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی وہاں پاکستان کے جرنیلوں اور حکمران طبقات نے اپنے سامراجی عزائم کو بڑھانے کے لیے موقعے کا فائدہ اٹھایا۔ اس مقصدکے لیے ضیا آمریت نے اسلامی بنیاد پرستی کا سہارا لیا۔ پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کا ابھار اسی پالیسی کا نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ ضیاء الحق نے داخلی تحریکوں کو کچلنے کے لیے بھی اس انتہاپسندی کو ریاست کا بنیادی نظریاتی آلہ بنا کر بھرپور استعمال کیا تھا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستانی ریاست کی ''سٹریٹیجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی ٹھوس اور واضح انداز میں اسی عہد میں سامنے آئی۔ افغانستان میں رجعتی جنونیت پر مبنی ردانقلابی خانہ جنگی پرپاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے اپنی مہارت بہت مہنگے داموں بیچی۔امریکہ سے ملنے والے اربوں ڈالروں نے اس ریاست کے سامراجی عزائم کو اور بھی مضبوط کر دیا ۔ ضیاء الحق نے 1986ء میںامریکی دانشور سلگ ہریسن(Selig Harrison) کو ایک انٹرویو میں اپنے عزائم اور سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی کو کھل کر بیان کر ڈالا: ''ہم نے کابل میں طاقت حاصل کرنے کا حق کمایا ہے۔ ہم نے اس لڑائی کے ہراول ملک ہونے کے ناتے بہت سے خطرات مول لیے ہیں۔ اب جنگ سے پہلے والی صورت حال کو واپس لوٹنے کی اجازت نہیں دے سکتے جس میں بھارتی اور سوویت تسلط افغانستان اور ہمارے علاقوں (پختونخوا) پر بھی غالب رہے۔ یہ نئی طاقت حقیقی طور پر اسلامی ہوگی، اس اسلامی مزاحمت کو تم لوگ ایک دن سوویت مسلمانوں تک پھیلتا دیکھو گے‘‘۔ ضیاء الحق تو 17اگست 1988ء کو جہاز کے کریش میں ہلاک ہوگیا لیکن اس خطے کے عوام کے لیے اپنے خواب کی تعبیر مسلسل خونریزی اور قتل و غارت گری کی شکل میں چھوڑ گیا۔ سٹریٹیجک ڈیپتھ کی پالیسی آج بھی جاری ہے اور ریاستی پالیسیاں اسی ذہنیت کے تحت متعین کی جارہی ہیں‘ لیکن بڑی بڑی سامراجی ریاستیں بھی جارحیت کی بنیاد پر حد سے پھیلائو کی وجہ سے اندر سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ اس تناظر میں پاکستان جیسی کمزور اور کنگال ریاست کے داخلی بحران اور انتشار کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔خستہ حالی اور انتشار میں ریاست کوئی شفیق اور انسان دوست ادارہ نہیں بن جایا کرتی بلکہ ایک زخمی ناگن کی طرح زیادہ زہریلی اور درندہ صفت ہو جاتی ہے۔
افغان 'جہاد‘ کے لیے آنے والے اربوں ڈالر منشیات اور دوسرے جرائم پر مبنی کاروباروں پر انویسٹ کیے گئے تھے۔ اسی کالے دھن پر انتہاپسندوں کے گروہوں کو پالا گیا۔ ان دہشت گردوں کو جہاں پاکستانی ریاست نے استعمال کیا وہاں ان میں سے ہی کئی ایک اپنے مالی مفادات کے پیش نظر ریاست کے دشمن بن گئے ۔ یہی کچھ سی آئی اے اور امریکی سامراج کے ساتھ ہوا تھا اور ہو رہا ہے۔ کالے دھن کا زہر ریاست میں سرایت کر کے اسے اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے اور فوجی اور سویلین بیوروکریسی کے مختلف دھڑے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوجاتے ہیں ۔ جس ملک کی 73فیصد معیشت کالے دھن پر مبنی ہو وہاں بھلا قواعدوضوابط کو کیسے ملحوظ خاطر رکھا جاسکتا ہے؟
افغانستان کا مسئلہ موجودہ نظام میں جلد یا بدیر حل ہونے والا نہیں ہے۔امریکی سامراج اور مقامی حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کا اتحاد اور ٹکرائو یہاں آگ اور خون کی ہولی جاری رکھے گا۔اسی طرح بھارت، چین، روس اور دوسری علاقائی طاقتوں کی مداخلت بڑھے گی اور اس آگ کو مزید بھڑکائے گی جس کے شعلے پاکستان کو پہلے ہی اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں۔ بہت سی دوسری اندرونی تقسیموں کے ساتھ ساتھ مختلف سامراجی طاقتوں کے مفادات کے تحت بھی ریاست میں دھڑے بندی اور تصادم کا رجحان بڑھ رہا ہے۔اسی طرح افغان پالیسی پر ابھرنے والے تضادات پھٹ کر کسی بڑی سیاسی اورریاستی تبدیلی یا بحران کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔
نواز لیگ کی حکومت کی طرح دوسری سیاسی جماعتیں بھی داخلی تضادات اور عدم استحکام کا شکار ہیں۔ اس سیاست میں ہرکوئی دوسرے کا دشمن ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا سہارا لینے پر بھی مجبور ہے۔ جب تک خونی کھلواڑ کی معاشی بنیادوں کا خاتمہ نہیں کیا جاتا یہ سلسلہ کبھی کم، کبھی زیادہ شدت کے ساتھ جاری رہے گا۔ لیکن اگر کالے دھن کی معیشت ختم ہوتی ہے تو پاکستان کی سرکاری معیشت بھی دھڑام سے نیچے آگرے گی۔جرائم پر مبنی یہ کالی معیشت بحران اور تنزلی کے شکار سرمایہ دارانہ نظام کی ہی مسخ شدہ شکل ہے۔جب تک یہ متروک سماجی، معاشی اور سیاسی نظام قائم ہے آگ اور خون کی یہ منافع بخش ہولی کھیلی جاتی رہے گی، عوام جلتے رہیں گے اور ناٹک رچائے جاتے رہیں گے!