خاندان دراصل بورژوا سماج کا بنیادی ادارہ ہے ۔ سرمایہ دارانہ نظام معیشت کے بڑھتے ہوئے بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والا سماجی خلفشار خاندان کو بھی مسخ کرکے بکھیرتا چلا جارہا ہے۔ خاندان کا ڈھانچہ اور تعلقات درحقیقت اب ایک سراب، بے آس خواہش اور ناقابلِ حاصل جستجو بن چکے ہیں جس کا ایک اظہار طلاقوں اور گھریلو تشدد کی شرح میں اضافے سے بھی ہورہاہے۔ دوسرے سماجی رشتوں کی طرح خاندان کاہر ناتا بھی مالیاتی مفادات سے جڑا ہوا ہے لیکن اس ادارے کا کوئی متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ پرانے روایتی اعتقاد اور حکایتوں کے حوالے سے نفسیات پر حاوی رہتا ہے۔ مستقبل تاریک ہو تو آگے کی سوچ سے پہلوتہی کے رویے جنم لینے لگتے ہیں اورمجبوراً خونی رشتوں سے آس لگائی جاتی ہے، لیکن یہ رشتے سرمائے کی خود غرضی میں اس حد تک غرق ہوچکے ہیں کہ خاندان کا کوئی فرد دوسرے کی امیدوں پر پورا اترنے سے قاصر نظر آتا ہے۔اس کے باوجود انسان ہر طرف بھٹک کرانہی خونی رشتوں کی جانب لوٹ آتا ہے جو اس نظام میں خون سفید ہو جانے کے باعث ناقابل اعتبار ہوچکے ہیں۔ایک انسان اپنی پوری خواہش کے باوجود دوسرے انسان کو سہارا دینے سے قاصر ہے کیونکہ اس سماج میں ہر فرد کی حیثیت معاشی انارکی کے سیلاب میں بہتے تنکے سے زیادہ نہیں ہے۔
نجی ملکیت اور جائداد خاندانی رشتوں کو اوپر سے نیچے تک زہرآلود کرتی جارہی ہے۔ اس اقتصادی بحران میں جائداد پر نفسیاتی انحصار بھی زیادہ بڑھ جاتا ہے۔پانچ مرلے کے ایک مکان پر خاندان کے ہر فرد کی نظرہوتی ہے کیونکہ سماجی بیگانگی اور معاشی بے یقینی کی کیفیت میں سب میں انفرادی بقا کے لیے ایک ذریعے اور وسیلے کے حصول کی ہوس بڑھ جاتی ہے۔ انفرادی مفادات کی غیر محفوظ صورت حال میں خاندانی اور خونی رشتوں میں تنازعات عام ہوگئے ہیں۔ یہ سماج کا ایک ایسا معمول بن گیا ہے جس کی مثال جاگیردارانہ نظام میں بھی نہیں پائی جاتی تھی۔ زن، زر اور زمین کی چھینا جھپٹی اور قبضہ اب مسلسل تنازعات، قتل اور تصادموں کو جنم دے رہا ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام نے ایک عجیب سماجی تضاد کو جنم دیا ہے۔ خاندان کا پرانا ڈھانچہ ٹوٹ گیا ہے یا ٹوٹ رہا ہے لیکن یہ نظام اپنے زوال کے عہد میں خاندان کی کوئی شکل قائم کرنے سے قاصر ہے۔ یہ تضاد یورپ میں ایشیائی ممالک کی نسبت کہیں زیادہ واضح ہے۔ خاندان کا مرکزی نقطہ 'ماں‘ بھی جو روایتی طور پر اس کا محور اور جڑت کا باعث سمجھا جاتا تھا،اپنی تاریخی اور روایتی حیثیت کھوتا جارہا ہے۔ ماں اور بچوںکے درمیان تضادات ، جائداد کے تنازعات میں مختلف دھڑے بندیوںکو جنم دیتے ہیں اور مفادات کے بدلتے ہی یہ رشتے بدل جاتے ہیں۔ خاندان کا ادارہ اند ر سے انہی تضادات اور تنازعات کا شکار ہوگیا ہے جن کی شدت عام طو پر پورے معاشرے میں پائی جاتی ہے۔
معاشرے کی تمام سطحوں پر عورت کے کردار اور اس کے سماجی رتبے میں ذلت بڑھ گئی ہے۔ صنف نازک کے استحصال اور ذلت میں مذہبی تعصبات اور فرسودہ رسوم ورواج کا کردار ثانوی ہے۔ بنیادی وجہ جائداد اور خاندانی اثاثوں میں ان کا حصہ کم کرنا مقصود ہوتاہے جس کے لیے ''روایات‘‘اور مذہب تک کا سہارا لیا جاتا ہے۔ یہ اس عمل کی ایک اور مثال ہے جس میں سرمایہ داری نے پسماندہ معاشروں میں قبائلی اور جاگیر دارانہ طرز زندگی کے مثبت پہلوئوں کو ختم کر کے منفی پہلوئوں کو زیادہ اجاگر کردیا ہے۔
حکمران اور درمیانے طبقے میں بھی عورت کا استحصال موجود ہے جہاں اس کی شکلیں اور کیفیتیں مختلف ہیں ، لیکن آخری تجزیے میں عورت کی سماجی حیثیت اس کی معاشی اور طبقاتی حیثیت سے ہی مطابقت رکھتی ہے۔ حکمران طبقے کی خواتین تمام تر جنسی اور صنفی تعصبات اور استحصال کا شکار ہونے کے باوجود اپنی طبقاتی بالادستی کو زیادہ ترجیح دیتی ہیں۔ وہ اپنے صنفی استحصال کو محنت کش طبقے کی خواتین کے استحصال کی طرز پر درگزر کرکے، حکمران طبقے کے طبقاتی استحصال میں فریق بنتی ہیں۔ بیشتر اوقات یہ اپنے صنفی استحصال کا غصہ غریب عورتوں پر زیادہ جابرانہ استحصال اور ظلم کرکے زائل کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ خاتون ملازمائوں کی جانب ان کا رویہ مردوں سے بھی زیادہ ہولناک ہوتا ہے جس کی ایک وجہ خواتین کا باہمی حسد بھی ہے جوان کی معاشرتی محرومی کی پیداوار ہوتا ہے ۔
ملک میں تفریح کے ذرائع، مقامات اور سماجی ملاپ کے مواقع کی قلت کی وجہ سے شادی بیاہ ، مذہبی اجتماعات اوراجتماعی ملن کی تقاریب اور محافل رہ جاتی ہیںجن میں نمود ونمائش اور اسی کے گرد گفتگو کے پست معیار ملتے ہیں۔ یہاں بیرونی مصنوعیت، میک اپ اور نمودو نمائش کے پیچھے اندرکی غربت اور احساس کی تنزلی چھپی ہوتی ہے۔ منافقت، جعل سازی، برتری کے کھوکھلے رویوں اورجائدادوکاروبارکی ہوس گفتگو میںظاہر ہوتی ہے جس کی پستی میں
یہ معاشرہ گر چکا ہے۔ زیادہ تر سیاسی بحثیں بھی اس جعلی اور مصنوعی سیاست کی ظاہریت پر مبنی ہوتی ہیں جس میں نظریات کے بجائے افراد زیرِ بحث ہوتے ہیں، نظاموں کے بجائے شخصیات پر بات چیت ہوتی ہے، فن کے بجائے فنکاروں کے بارے میں قصے، سکینڈل اور قیاس آرائیاں زیرِ بحث آتی ہیں۔ اس قسم کی تقریبات اُن ثقافتی اقدار واخلاقیات کے معیار کی گراوٹ کا اظہار ہوتی ہیں جو اس زوال پذیر نظام کی خستہ حالی کی دلیل ہے۔ درمیانے طبقے کی ان تقاریب میں عام طور پر خواتین اور مردوں کے علیحدہ ''انتظامات ‘‘ ہوتے ہیں اور خواتین کی محفلوں میں فیشن اور نوکر ہی زیادہ زیرِ بحث آتے ہیں۔لیکن زیادہ گرم جوشی شادی بیاہ کے رشتوں اور جوڑیاں بنانے اور بگاڑنے کے موضوعات پر رہتی ہے۔ کپڑوں، سوٹوں، زیورات اور میک اپ کی اس نمودونمائش میں اصلیت، سچائی اور ٹھوس حقائق سے انحراف ان کی زندگیوں کی پراگندگی کو مزید بڑھاتا اور احساس کو مجروح کرتا ہے۔
کمیونسٹوں کو عام طور پر خاندان کو ختم کرنے کے الزام کا سامنا کرنا پڑتا ہے ؛ تاہم مارکس اور اینگلز کمیونسٹ مینی فسٹو میں واضح کرتے ہیں کہ کمیونسٹ جس خاندان کو ختم کرنا چاہتے ہیں وہ بورژوا خاندان ہے۔ ایک ایسا خاندان جس میں سرمائے کے زہر نے خونی رشتوں میں اتر کر انہیں بھی زہریلا بنا دیا ہے اور جس میں خاندانی رشتے استحصال کا آلہ کار بن چکے ہیں:''موجودہ زمانے کا بورژوا خاندان آخر کس بنیاد پر قائم ہے؟ سرمائے اور ذاتی منافع پر۔اپنی مکمل ترین شکل میں یہ خاندان صرف بورژوا طبقے میں پایا جاتا ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ ایک طرف مزدور بے خاندان رہنے پر مجبور ہے تو دوسری طرف سر بازار عصمت فروشی کا بازار گرم ہے۔ بورژوا خاندان کا یہ پہلو جب نہیں رہے گا تو وہ آپ ہی مٹ جائے گا‘‘۔ اسی طرح عورت کی سماجی حیثیت کے بارے میں اشتراکیت پسندوں پر لگائے جانے والے الزامات کا جواب بہت خوبصورتی سے کمیونسٹ مینی فسٹو میں دیا گیا ہے:''سرمایہ دار(اور سرمایہ دارانہ دانشور) چیخ اٹھتا ہے کہ تم عورتوں کو بھی ساجھے کی ملکیت بنا دوگے کیونکہ اس کے لیے بیوی کی حیثیت پیداوار کے آلے سے زیادہ نہیں ہے۔جب وہ یہ سنتا ہے کہ ذرائع پیداوار سماجی ملکیت میں ہوں گے تو اسی نتیجے پر پہنچتا ہے کہ عورتوں کا بھی یہی حشر ہوگا۔اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ اصل مقصد عورتوں کی اس حیثیت کا خاتمہ ہے جس میں وہ پیداوارکا آلہ بن کے رہ گئی ہیں‘‘۔
استحصال اور ہوس پر مبنی معاشی نظام کے زیر اثر بے لوث محبت پر مبنی سماجی اور خاندانی رشتے کبھی نہیں پنپ سکتے۔اس سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ آزاد ہے لیکن زندہ انسان محکوم ہے۔دولت کے چند ہاتھوں میں اجتماع نے زیادہ سے زیادہ انسانوں کو کم سے کم وسائل کے پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیا ہے۔ یہ ایک اندھی دوڑ ہے جس میں دوسرے کو ہرائے بغیر کوئی جیت نہیں سکتا ۔ ہار جانے والا حسد اور نفرت کی آگ میں جلتا رہتا ہے اور جیت جانے والے کے سامنے ان گنت دوسرے مد مقابل کھڑے ہوتے ہیں۔ معیشت کا یہ دبائو خاندان پر ناگزیر طور پر اثر انداز ہورہا ہے۔ رشتوں کی معصومیت ، احساس اور مروت مٹتی جارہی ہے۔ جب تک سرمائے کے اس دیو کا سر قلم نہیں کیا جاتا، یہ ہر انسانی رشتے کو اپنے پیروں تلے روندتا چلا جائے گا۔ذرائع پیداوار کی اشتراکی ملکیت ہی نسل انسانی کو ہوس اور مطلب سے پاک رشتوں پر مبنی عالمگیر خاندان میں یکجا کرسکتی ہے۔