"DLK" (space) message & send to 7575

طبقہ پروری!

قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران ایم این اے لال چند کے سوال کے جواب میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایوان کو بتایا کہ ''جولائی 2013ء سے فروری 2014ء تک حکومت نے سرمایہ دار طبقے کو 320 ارب روپے سے زائد کی چھوٹ دی ہے‘‘۔ اس کے علاوہ وزیر خزانہ نے واضح طور پر کہا کہ ''سرکاری ملازمین کفایت شعاری سیکھیں‘‘ اور آنے والے بجٹ میں ''تنخواہوں میں اضافے کا کوئی امکان نہیں ہے‘‘۔ ایسے اقدامات کے ذریعے سرمایہ داروں کی موجودہ حکومت اپنا چہرہ خود بے نقاب کرتی چلی جا رہی ہے۔ تاریخ کے بلند ترین خساروں اور معاشی سکڑائو کا تمام تر بوجھ غریب عوام کے کندھوں پر ڈالا جا رہا ہے جبکہ سرمایہ داروں کو لوٹ مار کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ گردشی قرضے اور قرضوں پر سود کی مد میں نجی شعبے، سامراجی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں پر ہزاروں ارب روپے نچھاور کئے جا رہے ہیں۔ دفاعی بجٹ میں مزید اضافے کا عندیہ بھی دیا جا چکا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی کے ''ثمرات‘‘ بھی عوام کو ملنا شروع ہو چکے ہیں اور 25 مارچ کو بجلی کی قیمت میں 2 روپے 24 پیسے فی یونٹ اضافے کا نوٹی فیکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ غربت، مہنگائی اور بے روزگاری سے بدحال عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے ''مزید قربانی‘‘ کے بھاشن دیے جا رہے ہیں۔ معاشی جارحیت کا یہ عمل گزشتہ 67 سال سے جاری ہے۔ اس ملک کی ہر جمہوری اور آمرانہ حکومت نے عوام کو صبر اور قربانی کے درس کے سوا کچھ نہیں دیا؛ تاہم معاشی بحران کتنا ہی سنجیدہ کیوں نہ ہو، بے حس حکمران اپنی تجوریاں بھرنے اور شرح منافع بڑھانے میں ذرا سی بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ہیں۔
ایک ریٹائرڈ وفاقی سیکرٹری نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک معروف روزنامے کو دیے گئے بیان میں کہا ہے کہ ''معیشت کی موجودہ نازک صورت حال میں حکومت کو مٹھی بھر امرا کو چھوٹ 
اور کاروباری مراعات دینے کی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ اس ملک کی ہر حکومت نے ہمیشہ اپنی پسند کے کاروباری طبقے کو ہی نوازا ہے‘‘۔ یہ کسی مارکسسٹ کے الفاظ نہیں بلکہ ایک سینئر بیوروکریٹ واضح طور پر کہہ رہا ہے کہ برسراقتدار آنے والی ہر حکومت اپنے مالیاتی اور سیاسی مفادات کے تحت حکمران طبقے کے ایک مخصوص دھڑے کی ہی نمائندہ رہی ہے۔ اس وقت سیاسی افق پر حاوی تمام سیاسی جماعتیں یا تو خود بڑے سرمایہ داروں یا جاگیرداروں پر مشتمل ہیں یا پھر مالیاتی سرمائے کے کسی حصے کی نمائندگی کرتی ہیں۔
مسلم لیگ سرمایہ داروں اور درمیانے درجے کے کاروباری طبقے کی نمائندہ جماعت ہے۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی اس پارٹی کا طبقاتی کردار ہمیشہ واضح رہا ہے۔ موجودہ حکومت پہلے سے ہی معاشی اور سماجی طور پر گھائل محنت کش طبقے اور غریب عوام پر ایک کے بعد دوسرا گھائو لگاتی چلی جا رہی ہے۔ پاکستان کی سرمایہ داری اس قدر تباہ حال ہو چکی ہے کہ حکمران طبقہ منافقت کے تمام لبادے اتارتے ہوئے کھل کر طبقاتی جنگ کا اعلان کر رہا ہے۔ ''سرمایہ دارانہ جمہوریت کے تسلسل‘‘ سے خوش فہمیاں وابستہ کرنے والے دانشوروں کا منہ، موجودہ جمہوری حکومت نے خود ہی بند کر دیا ہے۔
مسلم لیگی حکومت نے برسر اقتدار آنے کے بعد سے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں کے حکم پر نجکاری، ڈی ریگولیشن، لبرلائزیشن اور ری سٹرکچرنگ کی معاشی پالیسیاں لاگو کرنے کا عمل تیز کر دیا ہے۔ یہ عوام دشمن پالیسیاں عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کی ضرورت بن چکی ہیں۔ سرمایہ داروں کو ٹیکسوں کی مد میں دی جانے والی چھوٹ کی کسر عوام پر لگائے گئے بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے پوری کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں بالواسطہ ٹیکسوں کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور حکومت کل ٹیکس ریونیو کا 90 فیصد تک عوام سے اکٹھا کرتی ہے۔ ایک عام شہری ماچس کی ڈبیہ سے لے کر آٹے، ادویات، پٹرول غرضیکہ ہر بنیادی ضرورت پر ٹیکس ادا کرتا ہے۔ سرمایہ داروں کو دی جانے والی چھوٹ کا نتیجہ بدترین مہنگائی اور افراط زر کی شکل میں برآمد ہو رہا ہے۔ آبادی کی وسیع اکثریت کی پہلے سے ناکافی قوت خرید مزید کم ہو رہی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ''قومی غذائی سروے‘‘ کی شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق 60 فیصد پاکستانی شہری غذائی قلت کا شکار ہیں۔ خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافے سے مناسب غذا عام آدمی کی پہنچ سے مزید دور ہو جائے گی۔ ابھی دو دن پہلے ہی فلور ملز مالکان نے گندم کی قیمت میں کمی کے باوجود آٹے کی فی بوری قیمت میں مزید 50 روپے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ بعید نہیں کہ تھر اور چولستان جیسی صورت حال پورے ملک میں پیدا ہو جائے۔
نجکاری کا مطلب روزگار میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہے۔ ''لبرلائزیشن‘‘ کا مطلب ہے کہ سامراجی ملٹی نیشنل اجارہ داریاں اور سرمایہ دار اس ملک میں عوام کا خون پسینہ نچوڑنے اور اس استحصال سے کمایا گیا پیسہ بیرون ملک منتقل کرنے میں بالکل آزاد ہیں۔
''ری سٹرکچرنگ‘‘ کا مطلب مستقل روزگار، ملازمین کو دی جانے والی سہولیات کا خاتمہ اور شرمناک حد تک کم اجرتوں پر ٹھیکہ داری نظام کے تحت دہاڑی یا ماہانہ بنیادوں پر لی جانے والی مزدوری کا اجرا ہے۔ اس صورت حال میں ''قانون‘‘ اور ''ریگولیشن‘‘ جیسی اصطلاحات پر یقین رکھنے والے دراصل احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ حکومت سرمایہ داروں کی ہے اور وہ قوانین کو مذاق اور دکھاوے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔ ٹیکس اصلاحات اور خسارے پر قابو پانے کے لیے امیروں پر ٹیکس لگانے کی باتیں کرنے والے اپنے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی دھوکہ دیتے ہیں۔ دوسرے کئی سابق نوآبادیاتی ممالک کی طرح اس ملک کا حکمران طبقہ اپنی معاشی و تکنیکی پسماندگی کی وجہ سے ریاست کی لوٹ مار، ٹیکس چوری اور قرضہ خوری پر انحصار کرتا رہا ہے۔ یہاں کی اشرافیہ کا حقیقی کردار جرائم پیشہ مافیا سے مختلف نہیں ہے!
دوسری جنگ عظیم میں بڑے پیمانے کی تباہی کی قیمت پر 1945ء کے بعد شروع ہونے والا عالمی سرمایہ داری کا عروج کم و بیش 25 سال قائم رہا جس کے ثانوی اثرات تیسری دنیا پر مرتب ہوئے۔ اس عہد میں پاکستان جیسے ممالک کی معیشتوں نے نسبتاً تیز شرح نمو سے ترقی کی اور بڑے پیمانے کی صنعتکاری ہوئی، لیکن ''غیر ہموار اور مشترک‘‘ بنیادوں پر ہونے والی اس ترقی نے سماج کو آگے بڑھانے کے بجائے سماجی تضادات کو بڑھاوا دیا۔ 1968-69ء کی انقلابی تحریک انہی تضادات اور بڑھتی ہوئی معاشی خلیج کا نتیجہ تھی۔ 1970ء کی دہائی کے آغاز میں سرمایہ داری کا عالمی ابھار اپنے انجام کو پہنچا اور دنیا بھر میں حکمران طبقات نے ریاستی سرمایہ داری اور ویلفیئر ریاست کے برعکس نیولبرل ازم اور ٹریکل ڈائون معیشت کا ماڈل اپنایا۔
ضیاء الحق کے مارشل لاء کے بعد سے پاکستان میں بننے والی ہر حکومت آزاد منڈی کی انہی پالیسیوں پر کارفرما رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کی جمہوری حکومتوں میں بھی مالیاتی سرمائے کی آمریت بدستور قائم رہی۔ اس ملک کے کروڑوں محنت کش عوام کی زندگیوں میں کسی بہتری کے لیے آخری بار سماجی اور معاشی اصلاحات ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پیپلز پارٹی کے پہلے دورحکومت میں کی گئی تھیں، لیکن اس گلے سڑے نظام میں اصلاحات کی گنجائش اس وقت بھی موجود نہ تھی اور نتیجہ افراط زر میں اضافے جیسے مسائل کی شکل میں برآمد ہوا۔ پیپلز پارٹی کی پچھلی حکومت نے پارٹی کے نظریے اور بنیادی پروگرام کو پس پشت ڈالتے ہوئے ''پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ‘‘ کے پُرفریب نام سے نجکاری کی پالیسی کو جاری رکھا؛ تاہم مسلم لیگ کی حکومت اپنی عوام دشمن پالیسیوں کو لفاظی اور اصطلاحات میں چھپانا بھی ضروری نہیں سمجھتی۔ حکمران سمجھتے ہیں کہ محنت کش طبقہ مر گیا ہے اور وہ سرمایہ دار طبقے کے استحصال اور جبر کو بلا روک ٹوک تیز کر سکتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ متروک سرمایہ دارانہ نظام کے تحت حکمرانی کرنے والی ہر حکومت کو وہی کرنا پڑے گا جو آج ہو رہا ہے۔
پاکستان کے 1973ء کے آئین میں درج ہے کہ ریاست استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ کرتے ہوئے اس اصول کو لاگو کرنے کی پابند ہے کہ ''ہر کسی سے اس کی اہلیت کے مطابق کام لیا جائے اور ہر کسی کو اس کے کام کے مطابق دیا جائے‘‘۔ یہ پیراگراف دراصل کارل مارکس کی تحریر ''گوتھا پروگرام پر تنقید‘‘ سے لیا گیا ہے۔ اس ملک کی کسی حکومت نے آج تک آئین کی اس شق پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کی ہے اور نہ ہی کر سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں بیٹھے حضرات عوام کی نمائندگی نہیں کرتے۔ یہ لوگ جمہوریت کے نام پر اپنے طبقے کے مفادات کی حفاظت کے لیے اقتدار کے ایوانوں میں جاتے ہیں۔ محنت کش طبقے کو اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے اس نظام کی حدود سے آگے بڑھنا ہو گا!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں