"DLK" (space) message & send to 7575

بھارتی انتخابات: مایوسی کا ووٹ (حصہ اول)

عام انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی ) کی بڑے پیمانے پر فتح اور دائیں بازو کے پاپولسٹ سیاسی رہنما کے طور پر نریندر مودی کے ابھار نے نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا میں لبرل اور سیکولر دانشوروں اور تجزیہ نگاروں کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ یہ حضرات امید لگائے ہوئے تھے کہ شاید انتخابات کے نتائج کارپوریٹ میڈیا کی پیش گوئی سے مختلف ہوجائیں لیکن بی جے پی نے نہ صرف لوک سبھا میںگزشتہ کئی دہائیوں کی سب سے بڑی اکثریت حاصل کرلی بلکہ کانگریس کے کئی سینئر رہنمائوں کو بھی خاک چاٹنے پر مجبور ہونا پڑا۔ کانگریس کی شکست میں اگرچہ کرپشن اور مہنگائی جیسے عوامل نے اہم کردار ادا کیا ؛ تاہم بی جے پی کی فتح کی وجوہ صرف یہیں تک محدود نہیں ہیں۔
کانگریس کے دس سالہ دور اقتدار کے پہلے سات آٹھ برسوں میں بھارت کی معیشت 8سے 10فیصد کی سالانہ شرح نمو سے بڑھتی رہی ، لیکن عالمی سرمایہ داری کے کریش کے بعد، دوسری 'ابھرتی ہوئی معیشتوں‘ کی طرح ہندوستانی معیشت بھی بحران کا شکار ہونے لگی اور شرح نمو 4.4 فیصد تک سکڑگئی۔ یہ معاشی گراوٹ تاحال جاری ہے۔ بھارتی معیشت کے بڑھتے ہوئے بحران نے براہ راست درمیانے طبقے کو متاثر کیا جو حجم میں امریکہ کی کل آبادی سے زیادہ ہے۔ 35کروڑافراد پر مشتمل بھارتی مڈل کلاس اور پیٹی بورژوازی کی بے چینی اور تذبذب کا اثرآبادی کی نچلی پرتوں کی نفسیات پر بھی ہوا۔ بھارت کی ایک ارب بیس کروڑ کی آبادی میں سے 81کروڑ افراد انتہائی غریب ہیں۔ کانگریس حکومت کی طرف سے غذائی امداد اور '' انکم سپورٹ ‘‘ کی سکیمیں آبادی کی اس وسیع اکثریت کی زندگیوں میں بہتری لانے میں مکمل طور پر ناکام ثابت ہوئیں جس کا رد عمل حالیہ انتخابات کے نتائج میں واضح طور پردیکھا جاسکتا ہے۔
کانگریس اور بائیں بازو سمیت نام نہاد '' سیکولر ‘‘ پارٹیوں نے ماضی کے مذہبی فسادات میں مودی کے کردار کے پیش نظر سیکولرازم کا کارڈ استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی لیکن ووٹ ڈالنے والے عوام کی ترجیحات میں معاشی مسائل سر فہرست تھے۔ پیچیدہ آئینی و قانونی معاملات اور '' سیکولرازم ‘‘ کے بجائے انتخابی مہم کے دوران مودی اور بی جے پی نے بڑی عیاری سے مہنگائی اورکرپشن جیسے مسائل پر سیاست کرتے ہوئے نوکریوںکی فراہمی، غربت کے خاتمے اور انفراسٹرکچرکی تعمیرکے وعدے کئے۔ مودی کی اصل طاقت سرمایہ دار طبقے اور طاقتور جرائم پیشہ مافیا کی حمایت ہے۔گزشتہ برس نومبر میں بھارت کے سو بڑے سرمایہ داروں میں سے 72 نے وزیراعظم کے امیدوارکے طور پر مودی کو پسندیدہ قرار دیا تھا۔ حالیہ الیکشن بھارت کی تاریخ کا سب سے مہنگا الیکشن تھا جس میں بی جے پی نے ووٹ خریدنے، جلسے کروانے اور مخالف امیدواروں کو پیسے دے کر دستبردارکروانے کے لئے اپنے سرمایہ دار 'ڈونر‘ کا سرمایہ پانی کی طرح بہایا۔ بی جے پی کے انتخابی اخراجات تمام پارٹیوں سے زیادہ تھے اور الیکٹرانک میڈیا پر ریکارڈ ایئر ٹائم کے ساتھ ساتھ اخبارات میں پارٹی کے اشتہاروں کی بھرمار تھی۔ خود سرمایہ دار ہونے کے ناتے میڈیا مالکان نے مودی کا تشخص ایک کرشماتی رہنما کے طور پر ابھارنے میں اہم کردارادا کیا۔
منتخب ہونے والی لوک سبھا میںکروڑ پتی اور جرائم پیشہ افراد کی تعداد بذات خود ایک ریکارڈ ہے۔ ' دی ہندو ‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق انتخابات میں کامیاب ہونے والے ایک تہائی سیاستدانوں پر جرائم کے الزامات یا مقدمے ہیں۔ 2004ء میں ایسے ارکان کی 24 فیصد اور 2009ء میں 30فیصد کے مقابلے میں اس بار 34 فیصد ہے۔ اسی طرح لوک سبھا کے 82 فیصد ممبران کے اثاثے ایک کروڑ سے زیادہ ہیں۔2004ء میں یہ شرح 30فیصد جبکہ 2009ء میں 58 فیصد تھی۔ رپورٹ کے اعداد و شمار'' ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز‘‘ نامی ادارے کی جانب سے شائع کئے گئے ہیں۔
ہندو شاونسٹ اور بنیاد پرست سیاسی جماعت کی انتخابی فتح میں سب سے اہم کردار مجموعی طور پر نیم رجعتی معروض اور معاشی جبر واستحصال سے نجات کا راستہ دکھانے والی موضوعی سیاسی قوت کی عدم موجودگی نے ادا کیا ہے۔ سونیا گاندھی کے کٹھ پتلی وزیر اعظم منموہن سنگھ نے اپنے دور حکومت میں ان نیو لبرل معاشی پالیسیوں کو جاری رکھا جن کا آغاز انہوں نے خود 1991ء میں بطور وزیر خزانہ کیا تھا۔1947ء کے بعد اپنائے گئے ریاستی سرمایہ داری اور ' کینشین ازم ‘ کے معاشی ماڈل (جسے '' نہرو ویّن سوشلزم‘‘ بھی کہا جاتا تھا ) کو مسمارکر کے نجکاری اور منڈی کو بیرونی سرمائے کے لئے کھولنے کا آغازنوے کی دہائی میں کانگریس نے ہی کیا تھا۔ اس کے بعد اٹل بہاری واجپائی کی سربراہی میں بننے والی بی جے پی حکومت نے ان پالیسیوں کے نفاذکواور بھی تیزکردیا۔2004ء کے انتخابات میں واجپائی کو شرمناک شکست کا سامناکرنا پڑا۔''چمکتے ہوئے بھارت‘‘ (Shining India)کی اصطلاح بی جے پی نے ہی اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں بڑھنے والی غربت اور محرومی کو چھپانے کے لئے ایجاد کی تھی۔
ثانوی نوعیت کی تبدیلیوں اور طریقہ واردات میں فرق کے علاوہ کانگریس اوربی جے پی کی معاشی پالیسیوں میں کوئی بنیادی فرق نہیں ہے۔ بھارتی عوام کے پاس حقیقی متبادل صرف کمیونسٹ پارٹیوں اور لیفٹ فرنٹ کی صورت میں ہی موجود تھا لیکن بائیں بازو کی سٹالنسٹ قیادت اپنی نظریاتی کمزوریوں اور غداریوں کی وجہ سے محنت کش طبقے کی قیادت کا تاریخی فریضہ ادا کرنے میں ناکام رہی۔کمیونسٹ پارٹیوں کے رہنما 1990ء کی دہائی تک ' مرحلہ وار انقلاب ‘ کے تباہ کن نظریے کے تحت 'ترقی پسند‘ بورژوازی کو ڈھونڈتے رہے تاکہ قومی جمہوری انقلاب کا عمل مکمل کرسکیں۔ دوسرے تمام تر سابق نوآبادیاتی ممالک کی طرح بھارت کا حکمران اور سرمایہ دارانہ طبقہ جدید قومی ریاست کی تشکیل میں ناکام رہا بلکہ استحصال اور لوٹ مارکو جاری رکھنے کے لئے ہندو بنیاد پرستی پرانحصارکرتے ہیں، نتیجتاً بی جے پی ایک بار پھر اقتدار میں ہے۔ بھارتی حکمران طبقے کی ' ترقی پسندی ‘ کو بے نقاب کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے، لیکن کمیونسٹ پارٹیوں کے ' نظریہ دانوں ‘ کا ' مرحلہ وار انقلاب ‘ بھی اب قصہ ماضی ہوگیا ہے۔ سوویت یونین میں سٹالن ازم کے انہدام کے بعد سے مرحلہ وار انقلاب میں بس سرمایہ داری کا مرحلہ ہی بچا ہے ۔ یہ حضرات سوشل ازم اور سوشلسٹ انقلاب کی لفاظی کو بھی ترک کر کے مکمل طور پر پارلیمانی سیاست کی بھول بھلیوں میں غرق ہوگئے ہیں۔لینن نے اس پالیسی کو '' پارلیمانی جہالت کی بیماری ‘‘ قرار دیا تھا۔ بائیں بازوکے یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ سوشلسٹ انقلاب کو ترک کر کے پارٹی پروگرام کو تھوڑا ' نرم ‘ کر دینے سے انتخابات میں زیادہ بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل کی جاسکتی ہے مگر نظریات سے انحراف کی اس پالیسی کے الٹ نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ حالیہ انتخابات میں بائیں بازوکا نام ونشان ہی مٹ گیا ہے۔ 2004ء میں 64 سے کم ہوکر حالیہ انتخابات میں کمیونسٹ پارٹیوں کی نشستوں کی تعداد آٹھ پرآگئی ہے! 
بائیں بازو کے دیوالیہ پن نے عوام میں پائی جانے والی مایوسی میں اضافہ کیا ہے۔ بھارت کے محنت کش طبقہ کا سیاسی تحرک کسی حد تک جمود اور شعور وقتی طور پر پستی کا شکار ہے۔ ان حالات کی گزشتہ صدی کی پہلی دہائی کے روس سے گہری مماثلت ہے۔ لیون ٹراٹسکی نے 1909ء میں لکھا تھا کہ ''جب تاریخی ارتقا کا دھارا ابھرتا ہے تو عوامی سوچ زیادہ دور اندیش، دلیر اور عقلمند ہوجاتی ہے، یہ حقائق کو دور سے ہی پرکھ لیتی ہے اور ان حقائق کو عمومی صورت حال سے منسلک کرتی ہے۔۔۔اور جب سیاسی دھارے کا رخ پستی کی طرف ہوتاہے تو عوامی سوچ کا رخ بھی پستی کی طرف ہوتا ہے۔ عوامی سوچ جہالت اور پسماندگی کی کھائی میں جاگرتی ہے۔ سیاسی سمجھ بوجھ کوئی نشان چھوڑے بغیر غائب ہوجاتی ہے ، حماقت بڑھتی جاتی ہے اور دانت نکال کر عقل مند تجزیے پر ہنستی اور اس کی تذلیل کرتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میدان میں بس یہی حماقت موجود ہے ۔۔۔‘‘ (جاری )

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں