"DLK" (space) message & send to 7575

سلسلے یہ ملاقاتوں کے!

نریندر مودی کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے لیے میاں نواز شریف کو دی جانے والی دعوت‘ ان کے جانے کے فیصلے اور ان کے راشٹریہ بھون پہنچنے کے واقعات کو ملکی‘ علاقائی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ پر غیرمعمولی کوریج ملی‘ لیکن یہ سارے اقدامات بحث و تکرار اور تنازعات کا باعث بھی بنے ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برصغیر میں امن کی جانب کوئی بھی پیش رفت مثبت عمل ہے۔ اس خطے کی ڈیڑھ ارب آبادی کی بھاری اکثریت کی خواہش ہے کہ تعلقات کو بہتری کی جانب لے جایا جائے اور جنگوں کے خطرے سے نکلنے کی کوشش کی جائے۔ بہت کم حلقے ہوں گے جو اس وقت بھی دوستی اور قربت کی پیش رفت کو مسترد کریں‘ لیکن عوام کی سوچ‘ جذبے اور موڈ بدلتے رہتے ہیں۔ آج سے چند روز قبل جب بی جے پی کو بھاری اکثریت حاصل نہیں ہوئی تھی اور مودی بھارت کے اقتدار کے ایوانوں تک نہیں پہنچا تھا تو پاکستان اور بھارت میں عوام کی اکثریت نہ صرف اس کی کٹر پالیسیوں اور مذہبی جنونیت سے انتہائی خوفزدہ تھی اور اس کی جانب ایک حقارت کا رویہ پایا جاتا تھا بلکہ اس کے سفاکانہ ماضی سے ڈر اور نفرت دلانے کے رجحانات کا بھی بہت زور تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندو بنیاد پرستوں کی مختلف جنونی مذہبی پارٹیوں کی چھتری تلے بی جے پی کو اس کی تاریخ کی سب سے بڑی پارلیمانی اکثریت تو حاصل ہوئی ہے لیکن اس کو پورے بھارت سے صرف 31 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ اس سے یہ واضح ہوا ہے کہ پارلیمانی نظام میں جمہور کی رائے کو کس قدر اہمیت حاصل ہے۔ جمہوریت میں عوام کی عدمِ نمائندگی اور ان کے فیصلوں پر عمل درآمد کا یہ محض ایک رخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اصل فیصلہ دنیا کی سب سے بڑی سرمایہ دارانہ جمہوریت اور دولت کے اس نظام میں سرمائے کے وہ کارپوریٹ آقا کرتے ہیں‘ جو آبادی کا ایک فیصد سے بھی کم تناسب رکھنے کے باوجود حکمرانی‘ حکومت اور اقتدار کے حصول پر مکمل اختیار رکھتے ہیں۔ یہ کھلواڑ امریکہ سے لے کر برطانیہ‘ یورپ اور پاکستان تک ہر پیسے کی جمہوریت میں یکساں ہے۔
اصل مسئلہ یہ ہے کہ سماجی جمہور اور اس کی کوکھ میں سلگنے والے بحران کی شدت‘ جو اندر ہی اندر دہک رہی ہوتی ہے‘ کی بنیاد پر درمیانہ طبقہ اور کارپوریٹ میڈیا ہی عمومی سماجی نفسیات اور سوچوں پر حکمرانوں کے نظریات‘ سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے اثر و رسوخ اور مقبولیت کو مسلط کرتا ہے۔ جونہی مودی وزیرِ اعظم کے طور پر کامیاب ہوا اور طاقت کے ایوانوں کی جانب بڑھنے لگا تو اس درمیانے طبقے اور بھارت کے انتہائی رجعتی میڈیا کے بیشتر اینکر پرسنز اور تجزیہ کار‘ جن کا تعلق بھی زیادہ تر درمیانے طبقے کی مختلف پرتو ں سے ہوتا ہے‘ اس ریاستی جاہ و جلال اور طاقت کی چمک سے ذہنی طور پر مغلوب اور مفلوج ہو کر عوام کو بھی مودی کے اس ابھار کے جشن کے نشے میں شامل کرنے لگے تھے۔ وہ ان میں معاملات کی بہتری اور حالات کے سنوارنے کی جھوٹی امیدیں پیدا کر رہے تھے۔ لیون ٹراٹسکی نے ایک مرتبہ لکھا تھا: ''درمیانہ طبقہ صرف ایک چیز کو جانتا ہے اور وہ ہے طاقت‘ یہ چاہے کسی روپ میں بھی ان کی نفسیات پر حاوی ہو جائے‘‘۔
نریندر مودی نے نواز شریف کو دعوت اچانک نہیں دے دی بلکہ یہ سب پہلے سے طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت کیا گیا۔ میاں محمد نواز شریف بھی بہت سوچ کر اور بہت سوں کو منا کر دہلی گئے۔ سینئر صحافی جاوید نقوی کی دہلی سے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پہلی پالیسی صرف میاں صاحب کو دعوت دینے کی تھی‘ لیکن پھر آر ایس ایس اور بی جے پی کے دوسرے جنونی حلقوں کو دلاسہ دینے کے لیے سارک ممالک کے سارے سربراہان کو مدعو کر لیا گیا۔ نریندر مودی پاگل‘ مذہنی جنونی یا بے وقوف نہیں ہے۔ وہ بہت عیار سیاست دان ہے۔ سرمایہ دار طبقہ اپنی حاکمیت کو طول دینے اور استحصال کو جاری رکھنے کے لیے عوام کو مذہبی جذبات میں بالواسطہ الجھا کر ان کو اس نظام کا مطیع بنواتا ہے۔ بھارت اس وقت ایک شدید معاشی بحران کا شکار ہے۔ یہاں کے کارپوریٹ سرمایہ دار اور سرمایہ کاری کرنے والی سامراجی اجارہ داریاں اپنے سیاسی نمائندہ حکمرانوں سے ایسی پالیسیاں بنوانے کے لیے کوشاں ہیں‘ جن سے ان کے کاروبار کے منافعوں کی شرح اور ان کے معاشی و اقتصادی استحکام میں اضافہ ہو۔ بی جے پی اور نریندر مودی تمام تر شعبدہ بازی کے برعکس اصل میں بھارت کے کارپوریٹ سرمائے کے مفادات کی نمائندگی کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف اس خطے میں علاقائی تعلقات کو ایک خاص حد تک کشیدہ رکھنا چاہتے ہیں بلکہ ریاستی اور سیاسی حاکمیت کے استحکام کے ذریعے محنت کشوں پر زیادہ شدید حملے کرکے ان کی رعایتوں اور سبسڈیوں میں کٹوتیاں کروا کے شرح منافع میں رکاوٹ کے بحران کو بھی ختم کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان میں بھی ن لیگ اس ملک کے سرمایہ دار طبقے کی ہی ''بزنس فرینڈلی‘‘ جماعت ہے۔ ان کا مقصد بھی اس سے قطعاً مختلف نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میاں صاحب نے دہلی میں برکھا دت کو دیے گئے انٹرویو میں یہ کہا کہ ''ہم وہیں سے دوبارہ تعلقات شروع کرنا چاہتے ہیں‘ جہاں سے میں نے اور واجپائی صاحب نے اس عمل کو چھوڑا تھا‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں بھارت کے سرمایہ دار طبقے کی کلاسیکی پارٹی کانگریس تھی لیکن کانگریس بدعنوانی اور دوسرے جرائم کی وجہ سے متروکیت کا شکار ہو چکی ہے؛ چنانچہ بھارت کے سرمایہ داروں کی نئی نسل نے اپنے سارے دائو اس ہندو جنونی پارٹی بی جے پی پر لگا دیے ہیں۔ پاکستان میں پیپلز پارٹی‘ جو ماضی میں سرمایہ دار مخالف محنت کشوں کی سوشلسٹ جماعت رہی‘ کی قیادت پچھلے 30 سال سے ملک کے حکمران طبقات‘ ریاست اور سامراج کی نمائندگی حاصل کرنے کی کوشش کرتی رہی‘ لیکن ابھی تک اس کو سرمایہ داروں کا وہ اعتماد حاصل نہیں ہو سکا‘ جو ان کو مسلم لیگوں پر ہے۔ اندیشہ یہی ہے کہ ساری بات چیت مخالفت کو ایک محدود حد تک قائم رکھتے ہوئے‘ اسی کے دائرہ میں ظاہری دوستی کے ناٹک کو کسی طرح استوار کرنے کے لیے ہی ہو گی۔ اس کو کبھی امن‘ کبھی دوستی اور کبھی ہمسایوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا نام دیا جائے گا۔ ویزے صرف بزنس مینوں کے لیے ہی مکمل طور پر کھلیں گے‘ آنے جانے کی آزادی بھی انہی کو ہو گی اور اس طرح سارا عمل تجارت بڑھانے اور عام لوگوں کے میل ملاپ کو محددو رکھنے تک رہے گا۔
پچھلے 5 برسوں میں ایشیا سے بڑے پیمانے پر مغربی سرمایہ واپس یورپ اور امریکہ منتقل کیا گیا‘ لیکن سرمائے کی اس واپسی کے باوجود یورپ اور امریکہ میں جاری معاشی زوال کی وجہ سے ایشیائی ممالک کی پیداوار کی کھپت میں اضافہ نہیں ہو گا۔ اس صورتحال سے برصغیر کے حکمران طبقات شدید تشویش میں مبتلا ہیں؛ چنانچہ وہ منڈی کے ہر کونے کھدرے کی تلاش کرکے وہاں برآمدات بڑھانا چاہتے ہیں۔ پاکستان اور بھارت میں ''تجارت‘‘ بڑھانے کا شور اسی لیے مچایا جا رہا ہے۔ دو طرفہ تجارت بڑھانے سے حکمرانوں کے منافعے تو بڑھ سکتے ہیں لیکن غریبوں کی زندگیوں میں بہتریاں نہیں آیا کرتیں۔ اگر یہ سارے ہتھکنڈے ناکام ہو گئے‘ جس کے خاصے خدشات ہیں‘ تو بھارت اور پاکستان میں معاشی اور اقتصادی بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا۔ رجعتی لابیاں‘ مذہبی سیاست اور ریاستیں نفرتوں‘ قومی غیرت اور دشمنی کے رجحانات کو بڑھائیں گی۔ پھر نریندر مودی اپنے اصل رنگ میں نظر آئیں گے اور میاں صاحب‘ جو آج ہزاروں سال کی مشترکہ ثقافت اور گہرے رشتوں کی بات کر رہے ہیں‘ بھی پاکستان کی سالمیت کے لیے مر مٹنے کا شور مچائیں گے۔ تنائو بڑھے گا۔ جنگی صورتحال جیسا ماحول پیدا کیا جائے گا۔ بھارت اور پاکستان میں اس بحران کے خلاف ابھرنے والی محنت کشوں کی تحریکوں کو کچلنے کے لیے قومی اور مذہبی جنون کو پوری طرح مسلط کیا جائے گا۔ میرے خیال میں یہ حکمران نہ تو اب جنگ کر سکتے ہیں اور نہ امن رکھ سکتے ہیں۔ دوستی اور دشمنی کا یہ کھیل چلتا رہے گا کیونکہ نظام اتنا برباد ہو چکا ہے کہ سماجوں کو ترقی نہیں دے سکتا اور بدحالی میں کوئی استحکام ممکن نہیں ہوتا‘ لیکن ان دوستیوں اور دشمنیوں کے کھلواڑ میں محنت کش عوام کب تک بربادیوں کا نشانہ بنتے رہیں گے؟ ان کے تاریخ میں اتر کر ان استحصالی حکمرانوں کے ناٹک کو ختم کرنے کا وقت زیادہ دور نہیں!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں