کراچی ائیر پورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہے۔ ایک عرصے سے دہشت گردی کا ناسور ایک معمول بن کر سماج میں پھیلتا چلا جا رہا ہے۔اس دہشت گردی کی کئی اقسام ہیں۔ ظاہری مقاصد اور تراکیب بھی مختلف ہیں۔لیکن کراچی سے لے کر خیبر تک ہونے والی دہشت گردی میں ایک قدر بہر حال مشترک ہے: کارروائیاں کروانے والوں کی مسلسل اور بھاری سرمایہ کاری۔ ان بھاری رقوم کو دہشت گردی پر صرف کر کے ہزاروں لوگوں کا قتل عام کرنے والوں کے مقاصد سمجھے بغیر اس بربریت کی اصل وجوہ تک نہیں پہنچا جاسکتا۔بیماری کی تشخیص کے بغیر اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا۔
دہشت گردی کی ہر کارروائی پر بہت شور مچتا ہے۔ مذمتیں ہوتی ہیں، حکمران اور نام نہاد حزب اختلاف کے سیاستدان مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں، رپورٹیں طلب کی جاتی ہیں اور سرکاری دانشور نت نئی تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ لیکن گزشتہ تقریباً ایک دہائی کے دوران یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ حکمران دہشت گردی کو روکنے میں ناکام رہے ہیں۔
ہر دوسرے عذاب کی طرح دہشت گردی کا شکار ہونے والوںکی اکثریت کا تعلق بھی غریب طبقے سے ہے۔ مرنے والے زیادہ تر افراد بھی محنت کش ہیں اور ''حفاظتی اقدامات‘‘ کے لئے لگائے گئے ناکوں پر ذلیل بھی عوام ہی ہوتے ہیں۔جگہ جگہ لی جانے والی تلاشیاںہوں یا شک کی بنیاد پر گرفتاریاں، پھنستا غریب ہی ہے۔ہر سڑک پر چیک پوسٹ ہے، ہوائی اڈوں اور ریلوے اسٹیشنوں پر ''سخت سکیورٹی‘‘ نے عام لوگوں کی روز مرہ زندگی کو اور بھی تلخ کردیا ہے۔لیکن یہ تمام تر ریاستی اقدامات دہشت گردوں کے لئے انتہائی بے ضرر ثابت ہورہے ہیں۔ انہوں نے جہاں بم دھماکہ کرنا ہوتا ہے ، کرتے ہیں۔جسے مارنا ہو، دن دیہاڑے مارتے ہیں اور درجنوں ناکوں کے بیچ میں سے باآسانی فرار ہوجاتے ہیں جس کے بعد شروع ہونے والے ''سرچ آپریشن‘‘ کا عذاب غریب ریڑھی والوں اور دیہاڑی دار مزدوروں پر ٹوٹ پڑتا ہے۔
یہ دہشت گردی محض جنونیوں کا کھیل نہیں ہے۔ اس جنون میں بھی نظم و ضبط موجود ہے۔ یہ انتشار بھی ترتیب سے خالی نہیں ہے۔اگر ''بیرونی ہاتھ‘‘ اور ہمارے لوگ ملوث ہیں تو ان کے مقاصد سرکاری تجزیہ نگاروں کی تاویلوں سے مختلف ہیں۔ باہر سے آنے والا پیسہ بھی کسی 'جذبہ ایمانی‘ کا نتیجہ نہیں ہے۔اس ملک کے مالدار طبقے کے کچھ دھڑے اگر دہشت گردی میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو ان کا مقصد بھی 'دین کی خدمت‘ نہیں ہے۔ہر صورت میں ''بنئے کا بیٹا کچھ دیکھ کر ہی گرتا ہے۔‘‘
اس ملک کی کل معیشت کا 70فیصد حصہ سرکاری طور پر ''متوازی معیشت‘‘ کے زمرے میں آٹا ہے۔ یہ متوازی معیشت دراصل اس کالے دھن پر مبنی ہے جس پر اب سرکاری معیشت پوری طرح منحصر ہے۔ سروسز اور تعمیراتی شعبے میں اس کالے دھن کی بڑی سرمایہ کاری سے ہی تھوڑا بہت روزگار پیدا ہوتا ہے اور اس ملک کی معیشت کا پہیہ کسی حد تک چل رہا ہے۔یہ سرمایہ کاری کالی دولت کو سفید کرنے کے کئی دوسرے طریقوں میں سے ایک ہے۔لیکن یہ کالی معیشت بذات خود منشیات کی سمگلنگ (جس کی پیداوار افغانستان میں ہوتی ہے)، غیر قانونی اسلحے کے کاروبار،کرپشن، اغوا برائے تاوان، زمینوں اور پلاٹوں پر قبضے، بھتہ خوری اور بینک ڈکیتیوں جیسے جرائم پر مبنی
ہے۔اس کالی معیشت کی شرح نمو 10فیصد تک ہے اور اس کا حجم بڑھنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی، سماجی خلفشار اور معاشرتی گراوٹ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
ہر جرم کا بھی ایک اصول اور قانون ہوتا ہے۔ہر مجرم کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کی دہشت کا رعب اور دھاک لوگوں کے دلوں پر بیٹھی رہے۔ انڈر ورلڈ پر بننے والی مشہور ہندوستانی فلم کا ایک ڈائیلاگ ہے کہ ''موت سے زیادہ موت کا خوف ضروری ہے۔‘‘طالبان کہلانے والے مختلف گروہ ہوں یا مذہبی اور سیکولر پارٹیوں سے وابستہ مافیا عناصر، حلقہ اثر اور حصہ داری کی بنیاد پر دہشت گردوں کا آپسی ٹکرائو ناگزیر ہوجاتا ہے۔اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور علاقوں کی تقسیم کی بنیاد پر جنم لینے والے یہ تضادات جہاں مروجہ سیاست اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہیں وہاں ان مافیا گروہوں کی باہمی خونریزی کو بھی ہوا دیتے ہیں۔ ہر دہشت گرد گروہ کی کوشش ہوتی ہے کہ اس کا خوف اور دبدبہ دوسروں سے زیادہ ہو۔ پھر کالے دھن کی ریاستی مشینری میں سرائیت معاملات کو اور بھی پیچیدہ کر دیتی ہے۔ دہشت گرد گروہ مختلف ریاستی عہدہ داران کو کنٹرول کرتے ہیں یا پھر ریاست کے مختلف دھڑوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے ہیں۔
معاشی بنیادوں پر کئے جانے والے ان جرائم کو سیاسی رنگ دینا یا کسی نظرئیے سے منسلک کرنا بذات خود ایک جرم ہے۔ ''طالبان‘‘ نام کی کوئی تنظیمی اکائی موجود نہیں ہے۔طالبان کے سیاسی، عسکری اور تنظیمی طور پر یکجا قوت ہونے کا تاثر امریکی سامراج اور پاکستان کے حکمرانوں نے اپنے اپنے مقاصد کے تحت پیدا کیا تھا۔ ''مذاکرات‘‘ نے ثابت کیا ہے کہ یہ سب کتنا بڑا فریب تھا۔ گزشتہ چند مہینوں کے دوران طالبان کے متحارب گروہوں نے ایک دوسرے کے جتنے جنگجو مارے ہیں اتنے شاید ''فوجی آپریشن‘‘ میں بھی نہیں مرے ہوں گے۔جو گروہ ریاست سے مذاکرات کرتا ہے اس کی دہشت ماند پڑنے لگتی ہے جس سے ''کاروبار‘‘ متاثر ہوتا ہے اور کاروبار میں گھاٹا جرائم سمیت کسی صنعت کے سرمایہ دار کے لئے قابل قبول نہیں ہوتا۔
پھر فوجی آپریشن کا شور ہے۔ ''اسٹریٹجک ڈیپتھ‘‘ کی پالیسی بھی جاری و ساری ہے۔ یہ کیسا تضاد ہے؟یہ آپریشن آخر کہاں کہاں کیا جائے گا؟ کراچی سے لے کر مستونگ، جنوبی پنجاب، لاہور، فیصل آباداور پشاور تک ...دہشت گردوں کی درجنوں نہیں ہزاروں آماج گاہیں موجود ہیں۔پیسہ ان کے پاس اتنا ہے کہ مہنگے سے مہنگا اسلحہ، گاڑیاں اور مکانات باآسانی خرید سکتے ہیں۔ جس معاشرے میں سماجی رتبے سے لے کر انصاف، سیاست اور ریاستی طاقت تک، بہت کچھ خریدا جا سکتا ہو وہاں پیسے سے کیا کچھ نہیں خریدا جاسکتا؟ ریاستی اداروں کی اپنی رپورٹوں کے مطابق دارالحکومت کی حدود میں کئی مدارس موجود ہیں جنہیں دہشت گرد ''ہاسٹل‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ آج تک کوئی ایکشن ہوا؟ بعض مدارس میں فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کا درس دیا جاتا ہے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اپنے آغاز سے بالعموم اور 1980ء کی دہائی کے بعد سے بالخصوص، ریاست کے حاوی دھڑے مذہبی بنیاد پرستی کو استعمال کرتے کرتے آج اس پر مکمل طور پر منحصر ہوگئے ہیں۔ بعض جگہوں پر دونوں میں امتیاز کرنا بھی ممکن نہیں رہا ہے۔سیاسی حکمران بھی ملائوں کے تابع ہیں کہ عوام کو تقسیم اور ذہنی طور پر مفلوج کرنے کا کام ان سے بہتر کر کوئی نہیں سکتا۔
دہشت گردی کے عفریت کو جڑوں سمیت اکھاڑنے کا کام اس ملک کے محنت کش عوام کو ہی کرنا ہوگا۔ لیکن عوام کو ان حکمرانوں نے تابڑ توڑ معاشی حملوں سے نڈھال کر رکھا ہے۔ وہ غربت، بھوک، محرومی، بیروزگاری اور مہنگائی کے زخموں سے چکنا چور ہیں۔ان کی روایتی سیاسی قیادتوں نے ہر فیصلہ کن موڑ پر غداری کی ہے، ان کی تحریکوں اور جدوجہد کو دولت اور اقتدار کے لئے سربازار نیلام کیا ہے۔ان کو ایک طرف بھوک مارتی ہے تو دوسری طرف دہشت گردی۔ پھر ریاستی جبر کے قوانین بھی انہی پر لاگو کر دئیے جاتے ہیں۔ان حالات میں مایوسی، بددلی اور سیاست سے بے نیازی ناگزیر ہے لیکن یہ صورتحال سدا برقرار نہیں رہے گی۔
جب تک دہشت گردی کے ناسور کو خون فراہم کرنے والے سرمائے کی سپلائی نہیں کاٹی جائے گی یہ بیماری ختم نہیں ہوگی۔ دہشت کا کاروبار پھیلے گا اور مزید لوگ غربت اور بے روزگاری سے تنگ آکر اس آگ کا ایندھن بنیں گے۔کالے دھن پر چلنے والا یہ کاروبار جس معاشی، سیاسی اور سماجی نظام کی پیداوار ہے ، اس کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ یہ بیماری ایک انقلابی جراحی کی متقاضی ہے۔ یہ فریضہ محنت کش عوام کو ہی ادا کرنا ہوگا جو اس کی اذیت میں شب و روز مبتلا ہیں۔ یہی کچلے ہوئے عوام ایک تحریک میں اٹھ کر معاشرے سے استحصال، ذلت اور بربریت کا خاتمہ کریں گے۔