وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے اپنی مصنوعات کی تشہیرکو برین واشنگ اور نفسیاتی غلبے کے فن میں تبدیل کر دیا ہے۔ آج موبائل فون کو انسان کی ازلی اور ابدی ضرورت کے طور پر عوام (خاص کر نوجوانوں) کے ذہنوں پر ثبت کر کے اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی محال کر دیا گیا ہے۔ اسے سہولت کی بجائے ''سٹیٹس سمبل‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ زیادہ پرانی بات نہیں ہے کہ موبائل فون کے بغیر بھی اچھی خاصی زندگی گزر جایا کرتی تھی لیکن بڑھتی ہوئی سماجی بیگانگی، عدم تحفظ اور بے یقینی کی وجہ سے اس کے بغیر گھر سے نکلنا ہی مشکل ہوگیا ہے۔ معاشی نقطہ نظر سے بات کی جائے تو اس شعبے میں ہونے والی بھاری سرمایہ کاری کی بنیادی وجہ ملٹی نیشنل اجارہ داریوں کو ملنے والی بلند شرح منافع ہے۔ پیداواری شعبے میں گرتی ہوئی شرح منافع کے باعث 1980ء کے بعد سے سرمائے کا رخ سٹے بازی اور ''سروسز‘‘ کے شعبے کی طرف ہوچکا ہے۔ چیتھڑوں میں ملبوس اور ننگے پیر انسانوں کے ہاتھوں میں موبائل فون، تیسری دنیا کے ''غیر ہموار اور مشترک‘‘ طرز ارتقا کی واضح مثال ہے۔
جہاں تک عالمی مالیاتی اداروں (IFIs)سے ملنے والے قرضوں کا تعلق ہے تو اس سامراجی قرض اور ''امداد‘‘ کے ذریعے پچھلے 67سالوں میں پاکستان جیسے ممالک کو جس طرح لوٹا گیا ہے اس کے مقابلے میں انگریز نوآبادکاروں کی لوٹ مار بے حیثیت لگتی ہے۔ تیسری دنیا کو ہر سال ملنے والے 130ارب ڈالر کے قرض یا امداد کے بدلے میں سامراجی مالیاتی ادارے اور ملٹی نیشنل اجارہ داریاں 2000ارب ڈالر کی ڈاکہ زنی کرتے ہیں۔ یہ قرضے کتنی شرح سود پر ملتے ہیں؟ آج تک سود کی مد میں کتنی ادائیگی ان مالیاتی اداروں کو کی گئی ہے؟ ملٹی نیشنل کمپنیاں کتنا سرمایہ یہاں سے باہر منتقل کرتی ہیں؟ یہاں کے حکمرانوں نے ان قرضوں کے عوض کن کن سیاسی اور مالیاتی شرائط پر عوام کی زندگیوں اور خون پسینے کے سودے کئے ہیں؟ یہ حقائق اور اعداد و شمار وزارت خزانہ کی رپورٹوں میں پائے جاتے ہیں نہ ہی ''انسانی حقوق‘‘ کی ٹھیکیداری کرنے والی این جی اوز اس معاشی قتل عام کا ذکر کرتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ اٹھا لیں، بجٹ میں سب سے زیادہ رقم ان سامراجی قرضوں پر سود کی ادائیگی کے لئے مختص کی جاتی ہے۔ مالی سال کے اختتام تک ہونے والی ادائیگی، مختص کی گئی رقم سے بھی کئی سو ارب روپے تجاوزکر چکی ہوتی ہے۔ لہٰذا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسی دیوہیکل عالمی جونکوں کے قرضے عطار کے لونڈے کی دوا سے مختلف نہیں ہیں۔ ان قرضوں کے آنے اور جانے کے درمیانی وقفے میں زر مبادلہ کے ذخائر کا حجم بڑا دکھائی دینے لگتا ہے جس پر حکمران شادیانے بجاتے ہیں۔
یورو بانڈزکے اجرا کو حکومت کامیابی قرار دینے والوں کی عقل پر بھی ماتم ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہ بانڈز دراصل قرض کی ایک شکل ہیںجو یورپی منڈی میں نیلامی کے لئے جاری کئے جاتے ہیں۔ انہیں خریدنے والے سٹے باز حکومت پاکستان کو نیلامی میں لگنے والی قیمت ادا کرتے ہیں۔ اصل کھیل اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ بانڈز پر سود کی ادائیگی حکومت کے ذمے ہوتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان کی قیمت بڑھتی جاتی ہے جس پر مزید سٹے بازی کی جاتی ہے۔ ایک مخصوص عرصے کے بعد، بانڈز خریدنے والا جب بھی چاہے انہیں کہیں زیادہ مہنگے داموں پاکستان کے ریاستی خزانے سے کیش کروا سکتا ہے۔ سود اور منافع کی یہ رقم حکمران اپنی جیب سے ادا نہیں کرتے!
اس سارے مالیاتی کھیل اور اعداد و شمار کے گورکھ دھندے میں عوام کا کیا کردار ہے؟کیا سائنسی علاج سے محروم 80 فیصد پاکستانیوں کو صحت کی سہولیات میسر آئیں گی؟کیا غذائی قلت کے شکار بچوں کی شرح 44 فیصد سے کم ہوجائے گی؟ 70فیصد آبادی کبھی صاف پانی بھی پی سکے گی؟ سکول کے نام سے بھی ناواقف ڈھائی کروڑ بچوں کو تعلیم ملے گی؟ چار کروڑ بیروزگاروں اور ہر سال محنت کی منڈی میں قدم رکھنے والے دس لاکھ نوجوانوں کو روزگار ملے گا یا نہیں؟ اسٹیٹ بینک کی رپورٹ میں اس بارے میں خاموش ہے۔ رپورٹ میں کالے دھن کی اس متوازی معیشت کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے جس کا حجم سرکاری معیشت سے دوگنا ہوچکا ہے اور جس کے باعث ملکی معیشت گھسٹ گھسٹ کر چل رہی ہے۔ جس رفتار سے ٹرانسپورٹ کے منصوبے شروع کئے جارہے ہیں تعلیم، علاج اور رہائش کا سماجی انفراسٹرکچر اتنی ہی تیزی سے برباد ہورہا ہے۔ بنیادی ضروریات زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ عوام کی پہنچ سے دور ہورہی ہیں۔ رہی سہی کسر نجکاری پوری کر دے گی۔ سماجی خدمات کے یہ شعبے انتہائی منافع بخش ہیں جنہیں دیکھ کر ملک کے کئی بڑے سرمایہ داروں کے منہ پانی سے بھر رہے ہیں۔
کوئی بھی حکومت آئے یا جائے، معاشی پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتی۔ سامراجی اجارہ داریوں کو استحصال کی کھلی چھٹی دینا، عالمی مالیاتی اداروں کی تجوریاں سود سے بھرتے رہنا، سرمایہ داروں کے منافعوں میں اضافے کے لئے محنت کو ہر ممکن حد تک سستا کرنا، ٹیکسوں کا تمام تر بوجھ عوام پر لاد دینا، غریب کو غریب تر کرتے چلے جانا تاکہ مٹھی بھر افراد دولت کے انبار لگا سکیں۔۔۔۔ یہ جبر، وحشت اور ذلت اس نظام کی ناگزیز ضرورت ہے۔ حکمران طبقے اور اس کے سیاسی و ریاستی نمائندوں سے بہتری کی کوئی امید کرنا خود فریبی ہے اور اس فریب میں عوام کو مبتلا کرنے والے انسانیت کے دشمن ہیں۔
''دی گارڈین‘‘میں سات جولائی کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں پال میسن نے عالمی سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت اور آنے والی دہائیوں میں دنیا کی معیشت کا دلچسپ منظر پیش کیا ہے۔ پال میسن OECD ( 34 ترقی یافتہ ممالک کی معاشی تنظیم )کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ اگلی تین سے چار دہائیوں میں ''معاشی ناہمواری خوفناک حد تک بڑھ جائے گی اور ماحولیاتی تبدیلیاں صورت حال کو مزید بگاڑ دیں گی۔ دوسری طرف دنیا کی کل دولت میں چار گنا اضافہ ہوچکا ہوگا۔ اگر آپ پیش گوئی کے ان دونوں حصوں میں تعلق تلاش نہیں کرپارہے ہیں تو فکر مند نہ ہوں ،دنیا کے منجھے ہوئے معیشت دانوں کا بھی یہی حال ہے۔۔۔۔اب ذرا لاس اینجلس اور ڈیٹرائٹ جیسے شہروں میں آسمان کو چھوتی عمارتوں کے ساتھ منیلا جیسی وسیع و عریض جھونپڑ پٹیوں کا منظر ذہن میں لائیں۔ اگر آپ 2014ء میں پیدا ہوئے ہیں تو 2060ء تک یا تو بیرسٹر ہوں گے یا پھر بیرسٹا (چائے کی دکان کا ویٹر۔) سرمایہ داری اپنے معاشی جمود کی چوتھی دہائی میں داخل ہوچکی ہوگی۔ اگر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو نہ روکا گیا تو ابھی سے نظر آنے والی ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات تباہ کن شکل اختیار کر چکے ہوں گے‘‘۔ تاہم پال میسن کو یقین نہیں ہے کہ یہ نظام 2060ء تک قائم رہے گا۔ مضمون کے اختتام پر وہ OECDکی جانب سے پیش کئے گئے ''مزید نجکاری ، مزید کٹوتی‘‘کے نسخوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ''رپورٹ کا حتمی سبق یہ ہے کہ مختلف شکلوں میں ایک ہی معاشی پالیسی کے نفاذ کے ردعمل میں ایک متبادل پروگرام جلد یا بدیر ابھرے گا۔ جدید موبائل فونوں سے لیس اور اپنے حقوق کے بارے میں باشعور انسانی سماج اس معاشی ناہمواری کے مستقبل کو قبول نہیں کریں گے‘‘۔(ختم)