"DLK" (space) message & send to 7575

عراق تاراج ہے!

عراقی عوام ایک کے بعد دوسری بربریت کا شکار ہو رہے ہیں۔ 1991ء اور 2003ء کی امریکی جارحیت میں لاکھوں لوگ مارے گئے اور اس سے کہیں زیادہ اپاہج اوربے گھر ہوئے۔ اس سے پہلے ایران عراق جنگ میں دس لاکھ انسان جان سے گئے۔صدام حسین کی خونی آمریت کے بعد امریکی سامراج کی جمہوری جارحیت کے زخم ابھی تازہ تھے کہ کٹھ پتلی مالکی حکومت نے فرقہ وارانہ قتل و غارت گری کو فروغ دے کر بدترین لوٹ مار اور بد عنوانی کا نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ مالکی کی بد عنوان حکومت پہلے ہی لڑکھڑا رہی تھی کہ شام کی خانہ جنگی عراق میں بھی سرایت کر گئی اور مذہبی بنیاد پرستوں نے ملک کے بڑے علاقے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔
4جولائی کوعراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قبضہ کرنے والے ابوبکر بغدادی نے عراقی شہر موصل میں نورالدین زنگی مسجد میں خطاب کے دوران '' خلافت‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا اور اپنا نام خلیفہ ابراہیم رکھا۔ اس موقع پر ISILکا نام تبدیل کرکے اسلامی ریاست IS(الدولۃ الاسلامیہ) رکھنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ اپنی ریاست کو پھیلانے کے لیے جہاں ISبہیمانہ قتل و غارت اور وحشیانہ خونریزی کی نئی تاریخ رقم کر رہی ہے وہاں مختلف قبائلی گروہوں اور مسلح ملیشیا ئوںکو اپنے ساتھ ملانے کے لیے پیسے، اسلحہ اور پر کشش وعدوں کا استعمال بھی کیا جارہا ہے۔ ''بیعت‘‘ سے انکار کرنے والوں کو قتل کرنے میں دیر نہیں لگائی جاتی۔حال ہی میںاس عتاب کا شکار ہونے والوں میں نورالدین زنگی مسجد کا امام اور موصل میں درجن سے زائد علماء شامل تھے۔صدام حسین کی فوج کے سابقہ فوجی افسر جنہوں نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر قبضے میں اہم کردار ادا کیا‘ انہیں 
بھی کام نکل جانے کے بعد قتل کر دیا گیا۔لیکن دوسری جانب تازہ ترین مقبوضہ علاقے شام کے شہر دیر الزور میں ISنے مقامی قبائلی سرداروں کو تیل کی فروخت سے ہونے والی آمدن میں حصہ دینے کا وعدہ کیا ہے اور ''شرعی قوانین‘‘ میں نرمی بھی برتی جا رہی ہے۔عراقی قبائل سے تعلقات پختہ کرنے کے لیے بغدادی نے مغربی عراق کے ایک اہم قبیلے میں سجا حمید الدلائمی سے شادی بھی رچائی ہے۔ISکے لیے لڑنے والے سپاہیوں کو دو سے تین ہزار ڈالر ماہانہ تنخواہ دی جا رہی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ ریاست میں خلیفہ نے اپنی عدالتوں بھی کھول لی ہیں جنہوں نے فٹ بال کا ورلڈ کپ دیکھنے والے نوجوانوں کو کوڑے لگائے ہیں۔ 
ابوبکر بغدادی القاعدہ کے ایک اہم لیڈر الزرقاوی کے ساتھ 1999ء میں افغانستان آیا اور یہاں القاعدہ کے لیے کام شروع کیا۔ طالبان سے بھی اس کے قریبی تعلقات رہے۔ یہ لوگ کابل اور ہرات میں اپنی کارروائیاں کرتے رہے۔ISنے انٹرنیٹ اور خاص کر ٹویٹر پر جو پیغامات نشر کئے ہیں ان کے مطابق میں پاکستان میں موجود طالبان کے مختلف گروہوں نے بغدادی کی بیعت کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ اردو زبان میں بھی خبریں نشر کی جاتی ہیں۔بغدادی اور ایمن الظواہری کے اختلافات شدید ہوجانے کے بعد ISILکو القاعدہ سے نکال دیا گیا۔ شام میں القاعدہ کی حمایت یافتہ جبہاۃ النصرہ سے بھی ISILکی جنگ جاری رہی جس میں دونوں اطراف سے سینکڑوں جنگجو مارے گئے۔ ISبالآخر النصرہ فرنٹ کو شکست دینے میں کامیاب ہوئی۔ 
جہادی گروہوں کی آپسی لڑائی کا سب سے زیادہ فائدہ بشارالاسد کو ہوااور شامی فوج نے اپنی توجہ دیگر محاذوں کی طرف مرکوز رکھی۔ اس دوران ایران اور روس کے حمایت یافتہ بشارالاسد کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے امریکہ، قطر، ترکی اور دوسری سامراجی قوتوں نے بنیاد پرست گروہوںکو بے تحاشا پیسہ اور اسلحہ دیا۔شام پرجب امریکی فضائی حملے کے امکانات پیدا ہوئے تو شامی فوج کے ٹھکانوں کی نشاندہی کے لیے القاعدہ اور دیگر بنیاد پرست گروپوں کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ وہی القاعدہ جس کے خلاف امریکہ افغانستان میں جنگ کر رہا ہے اور پاکستان میں ڈرون حملے۔
اب اپنی ہی بوئی ہوئی فصل کو کاٹنا مشکل ہو گیا ہے۔امریکی سامراجISپر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مختلف رپورٹوں کے مطابق بغدادی کی فوج کی تعداد 7ہزار سے بیس ہزار تک ہے لیکن اس کے زیر تسلط علاقہ وسیع ہے۔صرف موصل شہر کی آبادی بیس لاکھ سے زائد ہے۔ شام کے تاریخی شہر الرقہ اور نئے مفتوحہ علاقے دیر الزور کی کل آبادی پانچ لاکھ کے قریب بنتی ہے۔موصل سے مغرب کی جانب واقع الرقہ تک کا فاصلہ 500 کلومیٹر سے زائد بنتا ہے جبکہ موصل سے جنوب میں اردن اور سعودی عرب کی سرحد کے قریب واقعہ الرطبہ تک 800کلومیٹر سے زائد کا فاصلہ ہے۔اتنے وسیع و عریض علاقے پر مقامی قبائل گروہوں کی مدد کے بغیر قبضہ کرنا ممکن نہیں۔ تیل کے وسیع ذخائر اور مفتوحہ بینکوں میں موجود کروڑوں ڈالروں پر بھی قابض ہونے کے بعدISمالی طور پر بڑی حد تک آزاد ہوچکی ہے۔
عراق کے کردوں نے شمال میںاپنے خود مختار علاقے کو علیحدہ ملک بنانے کے لیے ریفرنڈم کا اعلان کر دیا ہے جس کے اثرات ترکی، ایران اور شام میں رہنے والے کردوں پر بھی پڑ رہے ہیں۔ شام کے کرد پہلے ہی اپنے علاقے کو خود مختار بنا کر اپنی فوج بنا رہے ہیں۔ کردوں کو چھیڑنا فی الحال بشارالاسد کے مفاد میں نہیں ہے۔ شمالی عراق میں بھی کرکوک اور بائے حسن کے تیل کے ذخائر کے لیے کرد فوج (پیش مرگ) اور ISکے درمیان لڑائی جاری ہے۔یہ دونوں ذخائر، جن کی پیداوار چار لاکھ بیرل روزانہ ہے اس وقت کردوں کے کنٹرول میں ہیں۔ عراقی وزیر اعظم نے تیل کے ان ذخائر پر قبضے کی شدید مذمت کی ہے جس کے بعد کردوں او رمالکی کے مابین تنازعے میں مزید شدت آئی ہے۔عراق نے لندن میں واقع اپنے سفارت خانے سے عراقی کرد سفارت کاروں کو بھی واپس بلا لیا ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے لندن میں کردستان کی مکمل آزادی کی حمایت میں ہونے والے مظاہرے میں شرکت کی تھی۔عراقی حکومت بھی اپنے ڈوبتے اقتدار کو بچانے کے لیے زیادہ وحشی ہوچکی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق 9جون کے بعد سے اب تک 255 قیدیوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر سزائے موت دی گئی ہے۔ لوگوں میں مالکی حکومت کے خلاف نفرت موجود ہے جس کے باعث مقتدیٰ الصدر کی حمایت میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ 2003ء میں امریکی جارحیت کے خلاف عراق میں سب سے بڑی مزاحمتی تحریک کی قیادت الصدر کررہا تھا۔کچھ رپورٹوں کے مطابق امریکہ ایران گٹھ جوڑ کے نتیجے میں الصدر کو 2007ء میں ایران بلا کر نظر بند کر دیا گیا۔ 2011ء میں عراق واپسی پر اس کی مقبولیت ایک بار پھر بڑھنے لگی اور مہدی ملیشیا اب بھی عراق کی اہم قوت ہے۔ الصدر نے مالکی کے استعفیٰ اور حکومت میں سنی قبائل کی زیادہ نمائندگی کا مطالبہ کیا ہے۔ ایران اور سامراجی طاقتیں اپنے مفادات کے دفاع کے لیے موجودہ صورتحال میں الصدر کو IS کیخلاف استعمال کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں ۔ لیکن اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ الصدر کی ممکنہ کامیابی کے بعد یا دوران ابھرنے والی عوامی تحریک اسے سامراجی پالیسیوں کی زیادہ مخالفت پر مجبور کر دے گی۔ اس خطرے سے پیشگی نمٹنے کے لیے دیگر قائدین کے ذریعے الصدر کا کردار محدود رکھنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
عراق کی صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ خطے کے دیگر ممالک سے جڑی ہوئی ہے۔امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور ایران کو بھی ISسے خطرات لاحق ہیں۔عراق کے ساتھ سرحد پر تیس ہزار فوجی تعینات کردئیے گئے ہیںجن میںمصری بھی شامل ہیں۔القاعدہ یمن سے سعودی عرب کی سرحدی چوکیوں پر بھی حملے کررہی ہے۔ 2011ء کے عرب انقلاب کے دوران خلیج میں سب سے بڑی عوامی بغاوت بحرین میں ابھری تھی۔ اس تحریک کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کر کے زائل کرنے میں ناکامی پر مظاہرین پر تشدد کیا گیا۔ اس تمام تر جبر کے باوجود تحریک مکمل طور پر کچلی نہیں جا سکی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں