"DLK" (space) message & send to 7575

لیون ٹراٹسکی: سچائی کبھی مرتی نہیں!

جعلی انقلابوں، موسمی انقلابیوں، علامتی لانگ مارچوں اور بے مقصد دھرنوں کے اس حبس زدہ موسم میں انقلابی سوشلزم کے سائنسی نظریات، طریقہ کار اور لائحہ عمل کا ادراک رکھنے والے بہت کم ہیں۔ گھٹن، جمود اور رجعت کے ادوار میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ 
آج سے 74 سال پہلے 20 اگست کو ہی میکسیکو میں ایک 60سالہ جلاوطن بوڑھے کو قتل کر دیا گیا تھا۔ ظاہری طور پر ایک انسان کا خون کیا گیا لیکن اصل مقصود ایک نظریے، سوچ اور انقلابی تناظر کو صفحہ ہستی سے مٹانا تھا۔ روسی آمرجوزف سٹالن کے ایجنٹ رامان مرکاڈور نے ایک ایسے شخص کے سر پر بے دردی سے کلہاڑی کے جان لیوا وار کیے جس نے اقتدار، شہرت اور طاقت کی بلندیوں کو ٹھکرا کر جلاوطنی کی مصائب سے بھری زندگی اور بعد ازاں موت کو ترجیح دی، لیکن اپنے نظریات کا سودا کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ شخص 1917ء کے بالشویک انقلاب کا معمار اوراس انقلاب کو کچلنے کے لیے روس پر حملہ آور ہونے والی 21سامراجی ممالک کی افواج کو شکست فاش دینے والی انقلابی سرخ فوج کا بانی لیون ٹراٹسکی تھا، جس نے ولادیمر لینن کے انتقال کے بعد بالشویزم کی حقیقی روایات کا پرچم سربلند رکھا اور سوویت روس کی افسر شاہانہ زوال پذیری کے خلاف آخری وقت تک جدوجہد کرتا رہا۔
''ایک ملک میں سوشلزم‘‘ کے فرسودہ سٹالنسٹ نظریے کے خلاف مارکسزم کی حقیقی روح یعنی پرولتاری بین الاقوامیت کا دفاع کرنے کی پاداش میں لیون ٹراٹسکی کو کمیونسٹ پارٹی سے نکال کر 1929ء میں جلا وطن کر دیا گیا۔ سٹالن نے ٹراٹسکی کی رہنمائی میں منظم ''لیفٹ اپوزیشن‘‘ کو بے دردی سے کچل دیا اور انقلاب کے پاسبان ہزاروں بالشویک یا تو قتل کر دیے گئے یا کبھی واپس نہ لوٹنے کے لئے سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں قائم جبری مشقت کے کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔ٹراٹسکی کے قریبی ساتھیوں 
اور بچوں کو قتل یا پھر خود کشی پر مجبور کر دیا گیا۔ تیسری انٹرنیشنل (کامنٹرن) کی ناقابل اصلاح زوال پذیری کے بعد ٹراٹسکی نے جلاوطنی میں چوتھی انٹرنیشنل کی بنیاد ڈالی اور ایک طرف سٹالن ازم کے جبراور دوسری جانب سامراج کی وحشت کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ سوویت بیوروکریسی کی نمائندے کی حیثیت سے سٹالن اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ محنت کش طبقے کی پشت پر سوار افسر شاہی کی مراعات اور عیاشیوں کو سب سے بڑا خطرہ لیون ٹراٹسکی کے نظریات اور سیاسی جدوجہد سے لاحق ہے۔ 24مئی 1940ء کو میکسیکو میں ٹراٹسکی کی رہائش گاہ پرگولیوں کی بوچھاڑکی گئی لیکن وہ محفوظ رہے۔ 20اگست 1940ء کو سٹالن کی خفیہ پولیس (NKVD)کے لیے کام کرنے والے رامون مرکارڈر نے ٹراٹسکی کے دفتر میں گھس کر ان کے سر پرکلہاڑی سے کئی وار کئے۔ ٹراٹسکی مرکے بھی اپنے نظریات اور انقلابی میراث کے ذریعے امر ہوگیا۔ ایک فلسطینی کہاوت ہے کہ '' تم میری آنکھیں چھین سکتے ہو،ذرا میرے خواب تو چھین کر دکھائو‘‘۔
ٹراٹسکی کے قاتل اوران قاتلوں کے نظریاتی پیروکاروں کو تاریخ نے خود نیست ونابود کردیا۔ مارکسزم کے ساتھ کھلواڑکیا گیااورکمیونزم کے نام لیوا اپنے نظریات کو سر بازارنیلام کرتے رہے۔
ٹراٹسکی کو ''غدار‘‘ قرار دینے والے ماسکو اوربیجنگ کے حواریوں کاقبلہ وکعبہ آج واشنگٹن ہے۔ یہ سابقہ بایاں بازو آج کل این جی اوزکے منافع بخش کاروبار میں ''انقلاب‘‘ برپا کررہا ہے۔ اسی قماش کے لوگوں کے متعلق ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ ''بہروںکو موسیقی سنانے، اندھوںکو رنگ دکھانے اورمایوس وبدظن افرادکو سوشلسٹ انقلاب سمجھانے پر وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے‘‘۔
سرمائے کی دانش سوویت یونین کے جس انہدام کو ''سوشلزم‘‘ کی ناکامی بنا کر پیش کرتی رہی ہے اس کی واضح پیش گوئی لیون ٹراٹسکی نے 1936ء میں اپنی شہرہ آفاق کتاب ''انقلاب سے غداری‘‘ میںکر دی تھی۔اس کتاب کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ1989ء اور 1991ء کے واقعات کا سکرپٹ 55سال پہلے ہی لکھا جا چکا تھا: ''سوویت بیوروکریسی کبھی بھی پرامن اور رضاکارانہ طور پر سوشلسٹ مساوات کے حق میں اپنی مراعات ترک نہیں کرے گی۔ یہ مراعات تب تک ادھوری ہیں جب تک ایک بیوروکریٹ انہیں اپنے بچوں تک منتقل نہ کر سکے، لہٰذا ایک ریاستی ادارے کا ڈائریکٹر ہونا ہی کافی نہیں بلکہ اس میں حصہ داری ضروری ہے۔ اس صورت میں افسر شاہی ایک نئے صاحب ملکیت طبقے میں تبدیل ہو جائے گی‘‘۔
روس اور مشرقی یورپ میں منصوبہ بند معیشت کا خاتمہ اور سرمایہ داری کی بحالی بالکل یہی عمل تھا جس کی نشاندہی ٹراٹسکی نے کی تھی۔ 1978ء کے بعد چین میں بھی یہی ہوا، لیکن ٹراٹسکی کا تناظر مشروط تھا۔ اس کی کوشش اور خواہش تھی کہ محنت کش طبقہ ایک سیاسی انقلاب کے ذریعے سے سیاست اور معیشت پر جونک کی طرح چمٹی افسر شاہی کو کچلتے ہوئے ایک صحت مند اور جمہوری مزدور ریاست قائم کرکے انقلاب کو بچالے۔
''بالشویزم کے نظریات کو زندہ کرتے ہوئے ایک انقلابی پارٹی اگر بیوروکریسی کا تختہ الٹتی ہے تو عوام ریاستی مشینری کی تطہیرکریںگے۔ عہدے، عیاشیاں اور مراعات ختم کر دی جائیں گی۔ نوجوانوں کو آزادانہ طور پر سیکھنے، تنقید کرنے اور اپنی ذات کی تکمیل کے مواقع میسر آئیں گے۔مزدوروں اور کسانوں کے مفادات کے مطابق قومی دولت کی تقسیم کا طریقہ کار وضع کیا جائے گا،افسر شاہی پر محنت کش طبقے کی فتح کا مطلب سوشلسٹ انقلاب کا نیا جنم ہوگا‘‘۔
بالشویک انقلاب کے دفاع کا یہی عظیم مقصد تھا جس کے لیے ٹراٹسکی مرتے دم تک سرگرم رہا اور اپنی جان قربان کر دی۔ 
سوویت یونین کے انہدام کے بعد تاریخ کے خاتمے کا اعلان کر کے جس سرمایہ داری کو انسانیت کی آخری منزل قرار دیا گیا تھا وہ دو دہائیاں بھی نہیں چل سکی۔ امن اور خوشحالی کے سنہرے خواب دکھانے والے دانشور آج خود سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ 14اگست 2014ء کو ''انڈی پینڈنٹ‘‘ میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 162میں سے صرف 11ممالک جنگ یا خانہ جنگی سے محفوظ ہیں۔2008ء کے بعد بحران، سیاسی عدم استحکام ، بیروزگاری اور معاشی حملے معمول بن چکے ہیں۔ ترقی یافتہ مغرب سے تیسری دنیا تک معیار زندگی ہر گزرتے دن کے ساتھ گرتا چلا جارہا ہے۔آج مشرق اور مغرب میں محنت کش طبقے کی ایک نئی جدوجہد کے پہلے قافلے تاریخ کے افق پر ابھر رہے ہیں ۔ یہ ایک غیر معمولی عہد ہے۔ اس نظام کی نہ ختم ہونے والی اذیت نے عوام کے روح اور احساس میں بغاوت کی وہ چنگاری سلگا دی ہے جو بھڑک کر شعلہ بنے گی۔
ٹراٹسکی کے مطابق: '' نسل انسان کی تاریخ کا تمام بحران آج سمٹ کر انقلابی قیادت کا بحران بن گیا ہے‘‘۔ ٹراٹسکی کے ''نظریہ انقلاب مسلسل‘‘ سے مسلح اور بالشویک بنیادوں پر منظم ایک سیاسی قوت محنت کشوں کی بڑی تحریکوں کو منظم، متحرک اور سیاسی قیادت فراہم کرکے انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور بنیادی فریضہ پورا کرسکتی ہے۔ ٹراٹسکی کے خون کا انتقام ایک ملک میں شروع ہونے والے سوشلسٹ انقلاب کو دنیا بھر کے محنت کشوں کی جدوجہد سے جوڑتے ہوئے انسانیت کو ہر طرح کے جبر و استحصال، طبقات، لسانی و مذہبی تعصبات اور محرومی سے نجات دلا کر کے ہی لیا جاسکتا ہے۔ 
زندگی کے آخری ایام میں ٹراٹسکی کے یہ الفاظ استحصال سے پاک انسانیت کے مستقبل پر اس کے یقین اور اس عظیم مقصد کی جدوجہد میں کسی پچھتاوے سے پاک عزم و حوصلے کے گواہ ہیں: ''میں اپنی شعوری زندگی کے43سالوں میں انقلابی رہا ہوں اور ان میں سے 42 سال تک میں نے مارکسزم کے پرچم تلے جدوجہد کی۔ اگر مجھے دوبارہ زندگی ملے تو میں ثانوی غلطیوں سے بچنے کی کوشش کروں گا مگر میرا مقصد حیات کبھی تبدیل نہیں ہوگا۔ میں محنت کش طبقے کے انقلابی اور مارکسسٹ کے طور پر مرنا پسند کرونگا۔ انسانیت کے کمیونسٹ مستقبل کے بارے میں میرا یقین متزلزل نہیں ہوا۔ درحقیقت آج یہ یقین جوانی کے دنوں کی نسبت کہیں زیادہ پختہ ہو چکا ہے۔ تھوڑی دیر پہلے نتاشا نے باغیچے کی طرف کھلنے والی کھڑکی کو تھوڑا اور کھول دیا تاکہ کمرے میں سے ہوا کا گزر ہو سکے۔ میں دیوار کے نیچے گھاس کی چمکدار سرسبز تہہ کو دیکھ سکتا ہوں جس کے اوپر شفاف نیلا آسمان ہے، سنہری دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی ہے۔زندگی کتنی خوبصورت ہے۔ آنے والی نسلیں یقینا اسے مصائب، ظلم اور جبر سے پاک کر کے ہر ممکن حد تک لطف اندوز ہو سکیں گی‘‘۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں