"DLK" (space) message & send to 7575

’’ یورپی جہادی‘‘

چند روز قبل ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کی جانب سے ''امریکہ کو پیغام‘‘ کے عنوان سے امریکی صحافی جیمز فولی کا سر قلم کرنے کی ویڈیو جاری کی گئی۔ صحافی کو قتل کرنے والا نقاب پوش شخص برطانوی لہجے کی انگریزی میں گفتگو کر رہا تھا۔ ویڈیو کے آغاز میں بارک اوباما کی جانب سے ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کے خلاف جاری کئے گئے بیانات دکھائے گئے اور مرنے سے پہلے جیمز فولی کو یہ بیان پڑھتے ہوئے دکھایا گیا کہ اس کی موت کا ذمہ دارامریکہ ہے۔ نقاب پوش قاتل انگریز معلوم ہوتا ہے؛تاہم سی آئی اے اس کی شناخت جاننے کی کوشش کر رہی ہے۔ 
واشنگٹن پوسٹ میں 22 اگست کو شائع ہونے والے مضمون میں اس شخص کے بارے میں بتایا گیاکہ وہ ''اسلامک اسٹیٹ کے 'دارالخلافہ‘ رِقّہ (شام) میں قائم اس قید خانے کا جیلر ہے جس میں غیر ملکی مغویوں کو رکھا جاتا ہے اور قیدیوں میں 'جان جیلر‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لندن کے اخبارات میں'جہادی جان‘ کے نام سے پکارا جانے والا یہ شخص اس وقت دنیا کا سب سے زیادہ مطلوب (Wanted) انسان بن چکا ہے۔ جہادی جان ان پانچ سو برطانوی شہریوں میں شامل ہے جو اسلامک اسٹیٹ کے لئے'جہاد‘ کرنے شام یا عراق آئے ہیں اور مقامی جہادی انہیں Beatles (1960ء کی دہائی کا مشہور راک بینڈ)کہتے ہیں۔ برطانیہ کے علاوہ فرانس، سویڈن اور پورے یورپ سے سیکڑوں جہادی یہاں پہنچے ہیں۔ امریکہ سے آنے والے درجنوں اس کے علاوہ ہیں‘‘۔
جہادی جان، جو اپنی درندگی کی وجہ سے مقامی جہادیوں میں بھی مشہور ہے، کسی مغربی صحافی کو ذبح یا قتل کرنے والا پہلا یورپی نہیں ہے۔ 2002ء میں وال سٹریٹ جرنل کے صحافی ڈینیٔل پرل کے قتل کی ویڈیو نشر کرنے والا 28سالہ عمر شیخ بھی برطانوی شہری اور نارتھ لندن کا رہائشی تھا۔ سوال یہ ہے کہ یورپ اورامریکہ کے مسلمان شہری، خاص طورپر نوجوان، مذہبی جنون میںکیوں ملوث ہورہے ہیں؟ صرف معاشی پسماندگی یا غربت کو اس رجحان کے لئے مورد الزام نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ ان یورپی جہادیوںمیں کھاتے پیتے گھرانوں کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بھی شامل ہیں۔ 2008ء میں 'گارڈین‘ کے ہاتھ لگنے والی MI-5 (برطانیہ کی خفیہ ایجنسی) کی رپورٹ میں حیران کن انکشافات کئے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ایسے تمام نوجوان ''صرف مذہبی عقائد کی وجہ سے دہشت گرد گروہوںکا حصہ نہیں بنتے،ان میں سے سخت گیر عقائد رکھنے والے مسلمان بہت کم ہیں اوران کا تعلق زیادہ مذہبی گھرانوں سے بھی نہیں ہے۔ جہاد کے لئے جانے والے زیادہ تر نوجوان پکے نمازی تھے نہ ہی ان کا مسجد میں زیادہ آنا جانا تھا بلکہ ان کی اکثریت صرف 'تھرل‘ یا زندگی کے مقصد کی تلاش میں ان سرگرمیوں میں ملوث ہوئی۔ ان جہادیوں اور دوسری غیر مذہبی انتہا پسند جماعتوں کے کارکنان میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ان کے لئے جہاد مہم جوئی کے ایک ذریعے سے زیادہ کچھ نہیں‘‘۔
اس رپورٹ سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی کو کسی مذہب سے نتھی کردینا سراسر غلط ہے۔ اس مظہرکی معاشی، سماجی اور ثقافتی بنیادوںکو جانچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے عمومی زوال خصوصاً 2008ء کے معاشی کریش کے بعد سے نہ صرف مغربی سماجوں میں معاشی محرومی اور مشکلات بڑھی ہیں بلکہ سماجی بیگانگی بھی ناگزیر طور پر شدت اختیارکرگئی ہے۔ مغربی حکمران اور سرمایہ دار تیسری دنیا کے تارکین وطن کو ''انسانی ہمدردی‘‘ کے جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے ممالک میں نہیں بلاتے بلکہ ان مہاجرین کی سستی لیبر کے ذریعے بلند شرح منافع حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ تارکین وطن کی کم اجرتوں کے ذریعے مغرب کے مقامی محنت کشوں پر بھی دبائو ڈالا جاتا ہے کہ وہ کم مراعات اور اجرت پرکام کریں۔''مقابلہ بازی‘‘کی اس واردات سے محنت کشوں میں نسل، قوم اور مذہب کی بنیاد پر منافرت پیدا کی جاتی ہے جسے استعمال کرتے ہوئے دائیں بازوکی نیو فاشسٹ قوتیں اپنی سیاست چمکاتی ہیں اور سرمایہ دارانہ نظام کی بجائے غیر ملکی محنت کشوں کو بیروزگاری اور معاشی بحران کا سبب قرار دے دیا جاتا ہے۔ 
غربت اور بیروزگاری سے تنگ آکر ترقی یافتہ مغربی ممالک کی طرف ہجرت کرنے والے نوجوان پیسہ کمانے کی مشین بن کر رہ جاتے ہیں۔ غیر ملکی محنت کشوں میں ثقافتی اور سماجی بیگانگی بہت بڑھ جاتی ہے۔ اپنے وطن میں دھتکارے ہوئے یہ انسان پردیس میں بھی نفرت اور تعصب کا نشانہ بنتے ہیں۔ اس سے تنگ نظری، نفرت اور نفسیاتی پراگندگی کی وہ کیفیت جنم لیتی ہے جو انہیں اقلیتی کمیونٹی کے نوسر باز رہنمائوں اور بنیاد پرست مذہبی پیشوائوں کا اندھا پیروکار بنا دیتی ہے۔ یہ ملا اور پیر فقیر نہ صرف دہشت گردی اور فرقہ وارانہ مقاصد کے لئے ''چندہ‘‘ بٹورتے ہیں بلکہ اپنے مریدوں کی سوچ اور روح کو بھی غریب کر کے رکھ دیتے ہیں۔ مذہب کے اس کاروبارکو چمکانے کے لئے نفرت اور جنون کی آگ میں مزید تیل انڈیلا جاتا ہے۔
کسی بھی سماج میں نوجوان نسل کو جب بہترمستقبل کی کوئی امید نظر نہیں آتی تو وہ ماضی میں پناہ تلاش کرنے لگتے ہیں۔ کسی انقلابی تحریک اور سیاسی متبادل کی عدم موجودگی میں یہ عمل شدت اختیارکر جاتا ہے اور''کچھ کر جانے‘‘ کی جستجو بہت کچھ غلط کروا دیتی ہے۔ بیگانے سماج میں درمیانے اور امیر طبقے کے نوجوانوں میں مذہب، نسل، قوم پرستی اور ثقافتی تعصب کے رجحانات زیادہ آسانی سے پذیرائی حاصل کرتے ہیں۔ مذہبی جنون اور دہشت گردی جیسے رجحانات اس لاشعوری نفسیاتی پراگندگی کو شعوری اظہار فراہم کرتے ہیں۔
جہادی ملائوں اور مذہبی ٹھیکیداروں کے ساتھ ساتھ سامراجی حکمران اور ان کا نظام بھی اس رجحان کے ذمہ دار ہیں۔ منڈیوں اور وسائل پر تسلط کے لئے ایک کے بعد دوسرے ملک کو تاراج کرنے والا سامراج دانستہ طور پر مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرتا ہے۔ یونان، فرانس، برطانیہ اور امریکہ جیسے ممالک میں پچھلے عرصے کے دوران نیم فاشسٹ پارٹیوں، گروہوں اور سیاسی رجحانات کا جزوی ابھار ہوا ہے۔ لیکن ہٹلر، مسولینی اور فرانکو کی طرح یورپ یا امریکہ پر فسطائیت کا غلبہ آج ممکن نہیں جس کی بنیادی وجہ سماج میں طبقات کا توازن ہے۔ آج مغرب میں ایک دیوہیکل محنت کش طبقہ موجود ہے، چھوٹے کسان ناپید ہیں، مڈل کلاس کی قلیل سی پرت مزید سکڑتی جارہی ہے جبکہ نوجوانوں کی اکثریت کا رجحان بائیں بازو کی طرف ہے۔ محنت کش عوام کی روایتی سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوں اور ٹریڈ یونین کی 
قیادتیں اگرچہ اصلاح پسندی اور موقع پرستی کی غلاظت میں غرق ہیں لیکن انقلابی تحریکوں کے تھپیڑے ماضی کے ان مزاروں کو نیست و نابودکر ڈالیں گے۔ تاریخ گواہ ہے کہ مزدور تحریک جب آگے بڑھتی ہے تو رنگ، نسل اور مذہب کے تعصبات کو پاش پاش کر ڈالتی ہے۔ مغرب میں محنت کشوں کی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں میں نسل پرستی کے رجحانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔
مذہبی بنیاد پرستی کو سامراجیوں نے ہی سرد جنگ کے دوران پروان چڑھایا تھا جسے آج بھی شام کی پراکسی جنگ میں استعمال کیا جارہا ہے۔ سامراج اور مذہبی بنیاد پرستوں کے تعلقات جتنے بھی کشیدہ رہے ہوں، کبھی منقطع نہیں ہوئے۔ مذہبی بنیاد پرستی دو دھاری تلوار ہے جسے ایک طرف مختلف ممالک میں جارحیت کے جوازکے طور پر استعمال کیا جاتا ہے تو دوسری طرف ''بیرونی خطرے‘‘ کے طور پر مغربی محنت کشوں کے شعور پر حاوی کر کے استحصالی نظام کو اوجھل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔
اسلامک اسٹیٹ امریکہ اور اس کے خلیجی اتحادیوں کی ہی پیداوار ہے جو اب قابو سے باہر ہو چکی ہے۔ پہلے شام میں جہادی تیارکئے گئے،انہی جہادیوں میں سے اسلامک اسٹیٹ برآمد ہوئی جو عراق میں سرایت کر کے مختلف علاقوں پر قابض ہوتی چلی گئی۔ اب امریکہ اپنے ہی تیارکر دہ جہادیوںکے پاس موجود اپنا ہی اسلحہ تباہ کرنے کے لئے اربوں ڈالرکا مزید اسلحہ چلانے کی تیاری کر رہا ہے۔ شام میں ایک دوسرے سے متصادم امریکہ اورایران اب عراق میں اسلامک اسٹیٹ کے خلاف مشترکہ حکمت عملی بنا رہے ہیں۔ عراق میں امریکہ کی تازہ عسکری مداخلت سے کوئی بہتری نہیں آئی بلکہ مزید بربادی ہوگی۔ یہ سامراجی اور مذہبی انتہا پسند نسل انسان کو صرف ذلت اور اذیت کی موت ہی دے سکتے ہیں۔ یہ جس سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں اس کے خلاف بغاوت ہی نجات کا واحد راستہ ہے! 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں