"DLK" (space) message & send to 7575

سوشل ڈیموکریسی:انقلابی سوشلزم کا سبوتاژ !

نظریات سے عاری سیاسی پارٹیاں اور رہنما ایسے شتر بے مہار بن جاتے ہیں جن کی کوئی سمت ہوتی ہے نہ مقصد اور منزل۔ لانگ مارچوں اور دھرنوں کے سرخیل لیڈروں میں تذبذب، تضاد اور مضحکہ خیز استدلال کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ایک فرد کی تقریر میں تھوڑی سی تاخیر سے بھی ' کنسرٹ ‘ کے شرکا کے جذبات ٹھنڈے پڑنے لگتے ہیں۔ 
ذاتیات، شخصیات اور انفرادی قیادت کی تقلیدکرنے والے، کسی نجات دہندہ کے ذریعے اپنے مسائل حل کروانے کی لاغر نفسیات کے شکار ہوجاتے ہیں۔ مارکس نے کہا تھا: ''محنت کش طبقے کی نجات کا فریضہ صرف محنت کش طبقہ ہی ادا کرسکتا ہے‘‘۔
افراد کی پیروی اور مریدی میں چلنے والی تحریکیں کبھی سماج کی تقدیر نہیں بدل سکتیں۔ فرد کتنا بھی عظیم ہوجائے وہ بیک وقت فلسفے، نظریے، دانش، سیاست، تجربے اور لائحہ عمل پر عبور حاصل کرنے والی ''عقل کُل‘‘ نہیں بن سکتا۔ انقلابات ہمیشہ اجتماعی قیادت کی اشتراکی سوچ اور حکمت عملی کے تحت برپا ہوتے ہیں۔ 
مذہبی جماعتوں سے لے کر نام نہاد سیکولر پارٹیوں تک، ہر کوئی''فلاحی ریاست‘‘ کی بات کرتا نظر آتا ہے۔ بائیں بازوکی موجودہ سول سوسائٹی پر مشتمل پارٹیاں بھی آج کل ''کمیونسٹ‘‘ سے سوشل ڈیموکریٹ ہوگئی ہیں۔ یہ '' ترقی پسند ‘‘ سرمایہ داری کے آگے گھٹنے ٹیک کر جمہوریت کے سراب میں فرار ڈھونڈ رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے عمران خان اور طاہر القادری نے بھی ترقی پسندی کا بہروپ اختیارکرکے ''سوشل ڈیموکریسی‘‘ کا نعرہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ دائیں بازو کے ان ''انقلابی‘‘ حضرات تک یہ خبر شاید نہیں پہنچی کہ سویڈن اور ناروے سے فرانس اور برطانیہ تک، یورپ کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں ویلفیئر سٹیٹ کی اکھاڑ پچھاڑ کا عمل شروع نہ ہوچکا ہو۔ 
جدید سوشل ڈیموکریسی کا موجد جرمنی کا سیاسی رہنما ایڈورڈ برنسٹائن (1932ء 1850ء) تھا۔ اسے ''ارتقائی سوشلزم ‘‘ اور ترمیم پرستی کا بانی بھی گردانا جاتا ہے۔ پیرس (فرانس) کے محنت کشوں نے 1871ء میں ریاستی اقتدار پر قبضہ کر کے تاریخ کی پہلی مزدور ریاست قائم کی تھی۔ 15مارچ سے 28 مئی 1871ء تک پیرس کمیون کا مزدور راج 72دن تک قائم رہا۔21 مئی 1871ء کو فرانسیسی فوج نے پیرس پر حملے کا آغاز کیااور انقلاب کو خون میں ڈبو دیا گیا۔ انقلاب کی اس شکست کے بعد رد انقلاب کا جبر اور رجعت سماج پر حاوی ہوگئی اور سیاسی افق تاریک ہو گیا۔ انقلابی سوشلزم کی جدوجہد انتہائی دشوار اور جان جوکھوں کا کام بن گئی۔ آج کی طرح اس وقت کے بہت سے ''انقلابی‘‘ مارکسزم سے تائب ہوکر سرمایہ داری کو''ٹھیک‘‘ کرنے میں مصروف ہو گئے۔ انہی میں سے ایک برنسٹائن تھا۔
1914ء میں سرمایہ داری کے تضادات پہلی عالمی جنگ کی شکل میں پھٹ پڑے۔ نئی منڈیوں اور وسائل پر تسلط کی سامراجی ہوس نے تین کروڑ ستر لاکھ انسانوںکو لقمہ اجل بنا دیا۔ جنگوں کی کوکھ سے انقلابات جنم لیتے ہیں۔ 1917ء کے انقلاب روس نے دنیا بھر میں سامراج اور حکمران طبقے کو لرزا کے رکھ دیا۔ یورپ اور امریکہ میں انقلاب کی سرایت روکنے کے لئے 1923ء میں کچھ معاشی اصلاحات کی گئیں۔ 1929ء میں عالمی سرمایہ داری ایک بار پھر شدید بحران (گریٹ ڈپریشن) کا شکار ہوگئی جس سے 1939ء میں دوسری عالمی جنگ برآمد ہوئی۔ چھ کروڑ انسان (اس وقت دنیا کی کل آبادی کا 2.5 فیصد) سرمائے کی آگ میں جھونک دیے گئے۔ 
دوسری جنگ عظیم کی بربادی پر ہونے والی تعمیر نو، عالمگیر تجارت کے پھیلائو اور نئی صنعتوں کے قیام سے سرمایہ داری کی تاریخ کا طویل ترین ابھار شروع ہوا جو 1974ء تک جاری رہا۔ یورپ میں یہ سوشل ڈیموکریسی کا کلاسیکی دور تھا۔ سرمایہ داروں کی شرح منافع آسمان سے باتیںکر رہی تھی اور چند ٹکڑے عوام کی طرف پھینک دینے پر انہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ محنت کشوں کی دیوہیکل انقلابی تحریکوںکو زائل کرنے کے لئے حکمران طبقے نے اصلاحات کا راستہ اپنایا۔ سوشلسٹ انقلاب کا راستہ روکنے کے لئے سرمایہ داری کی حدود میں رہتے ہوئے ''فلاحی ریاست‘‘ قائم کی گئی۔ استحصال کرنے والے اور استحصال سہنے والے طبقات میں ''مصالحت‘‘ سوشل ڈیموکریسی کی واردات تھی۔ 
تاریخی پس منظر اور معیشت سے بے بہرہ عمران خان اور طاہرالقادری جیسے سیاستدان سویڈن اور برطانیہ کی مثال دیتے ہوئے یہ نہیں بتاتے کہ ان ممالک میں عوام کے مفت علاج اور تعلیم پر خرچ ہونے والی دولت کا ماخذ کیا تھا؟ کیا یہ رقم سرمایہ دار اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں؟ مغربی سرمایہ دار اور اجارہ داریاں اپنے محنت کشوں کا استحصال تو کرتے ہی ہیں لیکن پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں سامراجی لوٹ مار اور استحصال بے حد و حساب ہے۔ آج سے دو سو سال قبل امیر ممالک، غریب ممالک کی نسبت تین گنا زیادہ امیر تھے، 1960ء کی دہائی میں نوآبادیاتی دورکے خاتمے تک یہ شرح 35گنا تک پہنچ چکی تھی، موجودہ عہد میں امیر ممالک کے پاس غریب ممالک سے 80گنا زیادہ دولت موجود ہے۔ برطانوی سامراج نے براہ راست حکمرانی کے 200 سالوں میں برصغیر سے اتنی دولت نہیں لوٹی جتنی 1944ء کے بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت قائم ہونے والے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے اداروں کے ذریعے لوٹی گئی ہے۔ عمران خان کی پسندیدہ''فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ‘‘ کے ذریعے تیسری دنیا میں آنے والا ہرایک ڈالراپنے ساتھ بیس ڈالر واپس یورپ یا امریکہ لے جاتا ہے۔ 
سوشل ڈیموکریسی ایک انتہائی عیار، زہریلا اور پرفریب نظریہ ہے۔ لینن نے 24 جنوری 1919ء کو لکھا تھا : ''مزدور تحریک کی اشرافیہ کی نمائندگی کرنے والے یہ سوشل ڈیموکریٹ سوشلزم کے غدار ہیں جو سرمایہ داروں کی رشوت پر پلتے ہیں۔ تمام ترقی یافتہ ممالک کا سرمایہ دار طبقہ ڈاکہ زنی کرتا ہے۔ یہ لوگ نو آبادیات اور نام نہاد ''آزاد‘‘ ممالک میں جبر و استحصال کرتے ہیں۔ اپنے ملکوں سے کہیں زیادہ بڑی آبادیوں والے خِطوں کو لوٹتے ہیں۔ سامراجی ممالک کا حکمران طبقہ اس لوٹ مار سے انتہائی بلند شرح منافع حاصل کرتا ہے۔ اس دولت کا ایک حصہ درمیانے طبقے کے مفاد پرست اور سوشلسٹ انقلاب سے خوفزہ سیاسی لیڈروں کو خریدنے پر صرف کر دیا جاتا ہے‘‘۔
جرمنی کے محنت کشوں کی عظیم رہنما روزا لکسمبرگ نے سوشل ڈیموکریسی کو بدبودار لاش قرار دیا تھا۔ '' فلاحی ریاست‘‘کے علمبردارانہی سوشل ڈیموکریٹوں نے جنوری 1919ء میں روزا کا سر ہتھوڑوں سے کچل کر برلن نہر میں پھینک دیا تھا۔ جرمن پارلیمنٹ (Reichtag)میں سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے 110ممبران میں سے واحد مارکسسٹ انقلابی کارل لیبخنت کو بھی روزا لکسمبرگ کے ساتھ ہی قتل کر دیا گیا تھا۔ غالباً فیض صاحب نے انقلاب کے انہی شہیدوںکے بارے میں کہا تھا :
قتل گاہوں سے چن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عشاق کے قافلے
جن کی راہ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے۔۔۔۔۔
یورپ میں سوشل ڈیموکریسی کے ''سنہرے دن‘‘ اب قصہ ماضی ہو چکے ہیں۔ آف شور بینکوں میں ہزاروں ارب یورو چھپانے والے سرمایہ دار ٹیکس دینے کو تیار نہیں ، ریاستیں قرضوں کے پہاڑ تلے دب چکی ہیں، بے روزگاری عام ہے، پنشن اور اجرتیں کم کی جارہی ہیں۔ یورپ کے تقریباً ہر ملک میں پانچ دہائیوں بعد سوشل ڈیموکریٹ پارٹیوںکو شکست در شکست ہور ہی ہے۔''فلاحی ریاست‘‘ کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے نجکاری کے ذریعے کوڑیوں کے بھائو بیچا جارہا ہے۔ برطانیہ میں عوام دشمن ٹوری پارٹی کا وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون جو عمران خان کا آئیڈل معلوم ہوتا ہے، مفت علاج کے ریاستی نظام (نیشنل ہیلتھ سروس)کی نجکاری میں پیش پیش ہے۔ یہ نظام اپنی ترقی یافتہ ترین شکل میں بھی اصلاحات کی گنجائش کھو چکا ہے۔ پاکستان میں ''سوشل ڈیموکریسی‘‘ کے پرچارکا مقصد، اس بوسیدہ اور گلی سڑی سرمایہ داری میں''فلاحی ریاست‘‘ کے قیام کا جھانسہ دے کرانقلابی سوشلزم کو سبوتاژکرنا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں