سال کے وہ مہینے شروع ہو چکے ہیں جب اس ملک کے برباد عوام کو سیلاب کی تباہی آگھیرتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں سینکڑوں غریب ڈوب چکے ہیں، لاکھوں بے گھر ہوگئے ہیں۔ پاکستان کا منظر نامہ دیکھ کر محسن نقوی کا یہ شعر ذہن کے دریچوں میں گونجنے لگتا ہے کہ ؎
محسن غریب لوگ بھی تنکوں کا ڈھیر ہیں
ملبے میں دب گئے کبھی پانی میں بہہ گئے
سرمایہ دار حکمرانوں کے مختلف دھڑوں کی سیاسی نورا کشتی بھی جاری و ساری ہے۔ میڈیا کی جانب سے اس فلاپ ڈرامے کی بے دریغ اور بے رحم کوریج نے سماج کو نفسیاتی بیمار بنا کے رکھ دیا ہے۔ اس نظام زر کی معیشت عوام کا قتل عام کر رہی ہے تو اس بیہودہ سیاست کی نحوست نے محنت کشوں اور نوجوانوں پر سیاسی بے حسی اور سماجی بیگانگی کو مسلط کر رکھا ہے۔غربت، بیروزگاری، لاعلاجی، دہشت گردی اور ناخواندگی کے زخم کیا کم تھے؟ یا بجلی کے بلوں کے جھٹکے کیا کم تھے کہ اب اس ''قدرتی‘‘آفت نے محروم باسیوں کو آدبوچا ہے؟ بدعنوان سیاست ہو یا قاتل معیشت، یا پھر ''قدرتی‘‘ آفات، غریب اور کمزور ہی اُجڑتا ہے۔ اس نظام میں نام نہاد قدرتی آفات بھی طبقاتی ہیں جو استحصال زدہ محروموں کو ہی نشانہ بناتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ سیلاب یا زلزلے قہر خداوندی ہیں۔ لیکن یہ قہر پہلے سے عذابوں میں گھرے غریبوں پر ہی کیوں نازل ہوتا ہے؟ دنیا کا وہ کون سا گناہ، جرم اور ظلم ہے جو مراعات یافتہ طبقے کے محلات میں نہیں ہوتا؟ زلزلوں اور سیلابوں میں کتنے سرمایہ دار یاجاگیر مرتے ہیں؟ کوئی بھی آفت ''قدرتی‘‘ نہیں ہوتی۔ نسل انسان کی تاریخ ہی قدرتی آفات پر قابو پانے اور فطرت کو اپنے تابع کرنے سے عبارت ہے۔ وسائل پر قابض طبقہ ان سیلابوں سے بہت دور میٹروپولیٹن شہروں کے پوش علاقوں میں بستا ہے۔ ان کے بنگلے زلزلوں میں منہدم ہوتے ہیں نہ ہی غربت کے سمندر میں قائم امارت کے جزیروں تک قحط پہنچ سکتے ہیں۔ غریبوں کے کچے مکان اور جھونپڑے ہی اجڑتے ہیں۔ 1943ء کے بنگال میں تیس لاکھ زندگیوں کا چراغ گل کردینے والے انگریز سامراج کے پیدا کردہ قحط پر ساحر لدھیانوی کے اشعار ایسی ہر بربادی پر صادق آتے ہیں:
زمیں نے کیا اسی کارن اناج اگلا تھا؟
کہ نسل آدم و حوا بلک بلک کے مرے
پچاس لاکھ فسردہ گلے سڑے ڈھانچے
نظام زر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
خموش ہونٹوں سے، دم توڑتی نگاہوں سے
بشر، بشر کے خلاف احتجاج کرتے ہیں
19ویں صدی میں راجستھان کے رن کچھ علاقے کے ہندو ساہوکار ساون سے پہلے ایک بڑی اجتماعی پوجا کروایا کرتے ہیں۔یہ کنجوس ساہو کار اس کے انتظامات پر بے دریغ اخراجات کیا کرتے تھے۔ اس پوجا میں دیوتائوں سے بارش نہ ہونے کی پرارتھنا کی جاتی تھی تاکہ سوکھے کے مارے کسان نسل در نسل ساہوکاروں کے سودی قرضوں کے محتاج رہیں اور یہ استحصالی کاروبار چلتا اور بڑھتارہے۔مذہب کوئی بھی ہو، استحصال کی واردات نہیں بدلتی۔ ہمارے سرمایہ دار حکمران ذرا جدید قسم کے ساہو کار ہیں۔مگر مچھ کے آنسو بہانے والے یہ سرمایہ دار تباہ کاریوں کے ذمہ دار اس نظام کے محافظ ہیں۔ ہیلی کاپٹر سے بربادی کے نظارے کئے جاتے ہیں،سیاست چمکائی جاتی ہے،
فوٹو سیشن ہوتے ہیں، ''عالمی برادری‘‘سے امداد کی اپیل کی جاتی ہے اور پھر یہ امداد نچلی و بالائی افسر شاہی سے لے کر سیاسی اشرافیہ تک کی ''غربت‘‘دور کرنے کے کام آتی ہے۔ این جی اوز اور ''امدادی‘‘ کاموں میں سرگرم مذہبی اور کالعدم تنظیموں کی چاندی الگ ہوتی ہے۔''سول سوسائٹی‘‘ کی کئی تنظیمیں بھی اس بہتی گنگا میں کود پڑتی ہیں۔ یورپ اور مشرق وسطیٰ کے امیر عطیہ دہندگان کی طرف سے ملنے والی بھاری امداد کی پائپ لائن چالو ہوجاتی ہے۔ 2005ء کا زلزلہ ہو، تھرپارکر میں حالیہ قحط سالی یا پھر ہر سال آنے والے سیلاب، ہر آفت خیرات کے اس کاروبار کو فروغ دیتی ہے۔
اب کی بار بھی کئی سیاسی سٹنٹ دیکھنے کو ملیں گے۔ متاثرہ علاقوں کے دوروں پر کروڑوں اربوں روپے خرچ ہوں گے، چھوٹے میاں صاحب حسب روایت کیچڑ میں کود جائیں گے، فضائی جائزے لئے جائیں گے، سیاسی رہنمائوں اور سرمایہ داروں کی فیشن ایبل خواتین میں بھی انسانیت کا درد جاگ اٹھے گا، کہیں چیک تو کہیں امدادی سامان کی تقسیم کے دوران ہر زاویے سے تصاویر بنوائی جائیں گی، خواص کے عوام میں ''گھل مل‘‘ جانے کا ناٹک رچایا جائے گا۔اس مقابلے بازی میں عمران خان بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔مقبولیت کے انتہائی ضروری اس پی آر (پبلک ریلیشنز) ایکسرسائز کی اہمیت سے ہر سیاست دان واقف ہے۔ ایسے حالات میں ''مخیر حضرات‘‘ بھی حرکت میں آجاتے ہیں۔ اس ملک کے چند ایک مخیر حضرات تو ایسے ہیں جنہیں خود کو حاتم طائی ثانی ثابت کرنے کے لئے ہمیشہ آفات کا انتظار رہتا ہے۔ میڈیا پر یہ خبریں اور مناظر مسلسل چلائے جائیں گے کیونکہ دھرنے اب ناظرین کو بور کرنے لگے ہیں۔لیکن یہ بات کوئی نہیںکرتا کہ بھیک دینے کے لئے بھکاریوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر معاشرے میں محتاج نہ ہوں تو یہ مخیر حضرات خیرات کا ثواب کیسے کمائیں گے؟ محرومی نہ ہو تو خیرات اور بھیک کی ضرورت ہی کیاہے؟
یہ حکمران طبقہ دردمندی کا جتنا بھی ڈھونگ رچا لے، درد کے احساس سے وہی واقف ہوتا ہے جسے زخم لگتا ہے۔غریب ہی غریب کا غم جانتا ہے۔ امداد اور ریسکیو کی سرگرمیوں میں عوام ہی خلوص نیت کے ساتھ سب سے آگے ہوتے ہیں۔ سرکاری اداروں، فوج اور فلاحی تنظیموں میں بھی اصل کام قلیل اجرتیں پانے والے ہی کرتے ہیں۔ شعوری یا لاشعوری طور پر محنت کش طبقہ خود ہی اپنے زخموں پر مرہم رکھتا ہے۔
اس ملک کا انفراسٹرکچر گل سڑ کر اس حد تک بوسیدہ ہو چکا ہے کہ معمولی سا جھٹکا بھی اسے دھڑام کر دیتا ہے۔انگریز کا تعمیر کردہ آبپاشی کا نظام تباہ ہوچکا ہے اور نہروں میں گنجائش کم پڑتی جارہی ہے۔ پاکستان کی مفلوج سرمایہ داری نے بارش جیسی رحمت کو بھی زحمت بنا دیا ہے۔''آزادی‘‘ کے 67سال بعد بھی انتہائی بنیادی سماجی اور معاشی انفراسٹرکچر مضبوط اور دیر پا بنیادوں پر تعمیر نہیں ہو سکا ہے۔بوسیدہ انفراسٹرکچر کو اپنی موجودہ کیفیت میں برقرار رکھنے کے لئے درکار ریاستی سرمایہ کاری بھی میسر نہیں ہے۔ریسکیو ادارے یا سول ڈیفنس کا کوئی نظام سرے سے موجود نہیں ہے اور ایسے حالات میں ہر بار فوج کو طلب کرنا پڑتا ہے۔ٹیکس کی ادائیگی تو دور کی بات یہاں کا سرمایہ دار روز اول سے ریاست کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ریاستی اخراجات کا 90فیصد بالواسطہ ٹیکسوں کے ذریعے عوام کے خون پسینے سے نچوڑا جاتا ہے۔سامراجی قرضوں پر سود کی ادائیگی، انسانی تباہی کے جدید آلات پر آنے والے ''دفاعی‘‘ اخراجات اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کے بعد خزانے میں کچھ نہیں بچتا ۔پرانے قرض اتارنے کے لئے نئے قرض لئے جاتے ہیں۔ ٹھیکیداری نظام کے تحت مکمل ہونیو الے چند ایک نمائشی تعمیری منصوبے بھی اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں۔نجی شعبے کی سرمایہ کاری کا مقصد ہی انسانی فلاح کی بجائے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کا حصول ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کا یہی دستورہے، یہی قانون اور اخلاقیات۔
اس ملک میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے، سستی بجلی کے حصول، وسیع و عریض بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانے اور سیلابوں کے خاتمے کے لئے کئی بڑے اور ہزاروں چھوٹے ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ نظام آبپاشی کو پختہ کرنے کی ضرورت ہے۔ استحصال پر مبنی یہ متروک نظام، بدعنوان ریاست اور حریص حکمران طبقہ ایک جدید سماج کی تعمیر کے یہ بنیادی فرائض اگلے ایک ہزار سالوں میں بھی ادا نہیں کرسکتے۔ ''قدرتی‘‘ آفات سے عوام کے تحفظ اور کروڑوں انسانوں کو محرومی سے نجات دلانے کے لئے ایک ایسا سماجی و معاشی نظام درکار ہے جس میں پیداوار، تعمیر اور خدمات کی قوت محرکہ منافع اور شرح منافع کی بجائے انسانی ضرورت کی تکمیل ہو۔