"DLK" (space) message & send to 7575

عراق: رجعتیت اور سامراجیت کا تصادم

نائن الیون کی تیرہویں برسی کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے امریکی صدر باراک اوباما نے عراق پر ایک دفعہ پھر جارحیت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس اعلان سے چند روز پہلے عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر قابض خلیفہ ابوبکر بغدادی کے وحشی جنگجوئوں نے دو امریکی صحافیوں جیمز فولی اور سٹیون سولٹوف کو ذبح کر نے کی ویڈیو انٹرنیٹ پر جاری کی تھی۔ عراق پر نئے حملے کے اعلان کے بعد سامراجی میڈیا اوباما کو''خراج تحسین‘‘ پیش کرتا پھر رہا ہے۔کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ بنیاد پرست عراق میں پہنچے کیسے؟ بنیاد پرستی کو کس نے پیدا کیا اور پروان چڑھایا؟ عراق پر پچھلی دو امریکی جارحیتوں کا کیا نتیجہ نکلا ہے؟ 
2003ء میں عراق پر حملہ کے وقت جارج بش کی رعونت آسمان کو چھو رہی تھی۔ وسیع پیمانے کی تباہی کے ہتھیاروں اور القاعدہ کی موجودگی کا سفید جھوٹ بول کر عراق پر سامراجی جارحیت کا بہانہ تراشا گیا۔اس وقت جارج بش وہی کہہ رہا تھا تو آج اوباما کہہ رہا ہے : ''برائی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا۔‘‘ جنگ کے کچھ ہی عرصے بعد بش نے ''فتح‘‘ کا اعلان کر دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایک دہائی پر محیط اس جنگ نے نہ صرف امریکی معیشت کو نچوڑ لیا بلکہ امریکی فوج کو عراق سے دُم دبا کے بھاگنا پڑا۔ ''وسیع پیمانے پر تباہی ‘‘ کے ہتھیار کبھی نہیں ملے۔ لاکھوں افراد کو سامراجی جنگ میں لقمۂ اجل بنا دیا گیا۔ امریکی سامراج اور اس کی کٹھ پتلی جمہوری حکومت نے عراق میں مذہبی فرقہ واریت اور قوم پرستانہ نفرت کے جو بیج بوئے تھے وہ اب تناور درخت بن چکے ہیں جنہیں ''جڑ سے اکھاڑنے‘‘ کے لئے ایک اور جنگ شروع کی جارہی ہے۔ شام میں پراکسی کے طور پر استعمال کرنے کے لئے قطر اور ترکی وغیرہ نے بنیاد پرستی کے جس جن کو بوتل سے نکالا تھا وہ اب ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ کی شکل میں بے قابو دیو بن کر اپنے آقائوں پر منڈلا رہا ہے۔
عراق پر حملے کا حالیہ اعلان خود امریکی خارجہ پالیسی کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ پچھلے سال اوباما شام میں بشار الاسد کے خلاف جارحیت کے لیے پر تول رہا تھا اور اس مقصد کے لئے القاعدہ، النصرہ فرنٹ اور داعش (ISIL) جیسے گروہوں کی زمینی حمایت حاصل کی جا رہی تھی۔اب مکمل یوٹرن لیتے ہوئے خلیفہ بغداد ی کی ''اسلامک اسٹیٹ‘‘ (سابق داعش) پر فضائی حملوں کا اعلان کیا گیا ہے ۔ عراق میں تیسری جارحیت خود امریکہ کے لیے باعث ہزیمت ہے۔
اس جارحیت میں نیٹو ممالک کے ساتھ ساتھ دس عرب ممالک نے بھی امریکہ کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ امریکی فوجی فضائی حملے کریں گے اور عرب ممالک زمینی حمایت فراہم کریں گے۔ شام میں بشارالاسد کے خلاف لڑنے والے ''اچھے‘‘ اپوزیشن گروہوں کو ایک عرب ملک میں تربیت بھی دی جائے گی۔ یہ کون سے ''ماڈریٹ‘‘ گروہ ہیں؟ کسی کو نہیں معلوم ۔
بشار الاسد کے دشمن امریکہ کو اپنے دشمن کے دشمن (اسلامک اسٹیٹ) پر حملہ کرنے سے پہلے یاد رکھنا ہو گا کہ اس کے دشمن کا ایک اہم دوست روس بھی ہے جس کے ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادی یوکرائن میں برسر پیکار ہیں۔ داعش کے خلاف عراقی حکومت کو مسلح کرنے کے لیے سب سے پہلے روس نے جنگی طیارے فراہم کئے تھے اور بشارالاسد کے خلاف امریکی جارحیت کو روکنے میں بھی پیوٹن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ بظاہر لگ رہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ کے خلاف تمام سامراجی قوتیں متحد ہیں لیکن در حقیقت سب ایک دوسرے پر گھاؤ لگانے کے لیے موقع کی تلاش میںہیں۔
موصل پر قبضے کے بعد سے خلیفہ بغدادی کی قوت میںتیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ سی آئی اے کے مطابق اس کے پاس 30ہزار تک فوجی موجود ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسلامک اسٹیٹ کے زیر قبضہ علاقوں میں موجود تیل کے کنویں اور نوٹوں سے بھرے بینک ہیں۔ اسلامک اسٹیٹ اپنے زیر کنٹرول علاقوں میں یزیدی، عیسائی اور دیگر اقلیتوں کے علاوہ شیعوں اور سنیوں کا بھی قتل عام کر رہی ہے۔ بڑی تعداد میں خواتین کی عصمت دری کی جارہی ہے۔ عراق کی موجودہ صورتحال میں کرد وں کا قومی مسئلہ بھی پیچیدہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔شمالی عراق میں انہوں نے اپنی علیحدہ نیم خودمختار ریاست قائم کر لی ہے اور اپنے زیر اثر علاقوں میں موجود تیل کو ترکی کے ذریعے سستے داموں بیچ رہے ہیں۔ داعش کے مقبوضہ علاقوں سے بھی تیل کی فروخت ترکی کی بلیک مارکیٹ کے ذریعے ہو رہی ہے۔ اسی لیے ترکی نیٹو کا رکن ہوتے ہوئے بھی امریکی جارحیت میں شمولیت سے ہچکچا رہا ہے۔ 
2003ء کی امریکی جارحیت کے بعد خطے کی صورتحال کہیں زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔سامراجی گدھ اب عراق کی لاش کو نوچنے کے درپے ہیں۔امریکی سامراج جس دشمن کی تلاش میں رہتا ہے وہ اسے اب اسلامک اسٹیٹ کی شکل میں مل گیا ہے۔ اسلحے کی صنعت کے مالک خوشی سے پھولے نہیں سما رہے۔ سابق امریکی نائب صدر اور تیل کی ملٹی نیشنل کمپنیوں میں اہم حصہ دار ڈک چینی پھر سے واشنگٹن پہنچ گیا ہے۔بہت سے جرائد نے امریکی معیشت کے لئے جنگ کے فوائد پر مضامین بھی شائع کرنے شروع کر دئیے ہیں۔گزشتہ کچھ عرصے میں دنیا کے کل دفاعی اخراجات میں امریکہ کا حصہ پچاس فیصد سے کم ہو کر ایک تہائی پر آگیا ہے۔یہ اسلحہ ساز کمپنیوں کے لئے کوئی خوشگوار صورتحال نہیں ہے لہٰذا گرتی ہوئی شرح منافع کو بحال کرنے کے لئے ایک نئی جنگ ضروری ہے۔دو صحافیوں کے ذبح ہونے کے بعد عوامی رائے عامہ بھی اس جارحیت کے لیے ہموار ہو چکی ہے۔
اس نظام کے خود ساختہ دانشوروں میں سے اکثریت کی رائے کے برخلاف اس جارحیت سے کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ مذہبی بنیاد پرستی ایک ایسا دیو ہے جس کا ایک سر کاٹیں گے تو درجنوں نئے سر اُگ آئیں گے۔ایک خلیفہ کا خاتمہ کئی نئے خلیفوں کو جنم دے گا۔القاعدہ کے خلاف لڑائی پہلے ہی کئی نئے گروپوں کو جنم دے چکی ہے۔ جب تک بنیاد پرستوں کو پروان چڑھانے والے اس نظام کی مالیاتی بنیادیں ختم نہیں ہوتیں، ایسی ہر جنگ اور ہر آپریشن ناکام و نامراد ہی رہے گا۔ مذہبی بنیاد پرستی سامراج کی اپنی پیداوار ہے۔ افغان ڈالر جہاد سے برآمد ہونے والے طالبان اور القاعدہ ہوں یا شام کی خانہ جنگی سے برآمد ہونے والی داعش اور اسلامک اسٹیٹ...سامراجی قوتو ں کواپنی باہمی لڑائی اور پراکسی جنگوں میں ایسے وحشی اور جنونی گروہوں کی ضرورت پڑتی ہے جو بعض اوقات قابو سے باہر ہو کر اپنے مالکان کے خلاف ہی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ اس خونی نظام کوایسی قوتوں کی ضرورت ہمیشہ رہے گی اور خونریزی کا یہ سلسلہ چلتا رہے گا۔
اس بربریت کے خاتمے کے لئے رائج الوقت معاشی، سماجی اور سیاسی نظام کو اکھاڑنا ہو گا جو گل سڑ کر پوری دنیا میں تعفن پھیلا رہا ہے۔ 2011ء کا عرب انقلاب دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔قیادت کے فقدان کے باعث یہ انقلابی تحریکیں اگرچہ سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرنے سے قاصر رہی ہیں لیکن محنت کش طبقے کی مخفی قوت ضرور عیاں ہوئی ہے۔اگر 2011ء میں مصر یا تیونس کی تحریکوں کو انقلابی قیادت میسر آجاتی تو آج پورے مشرق ِ وسطیٰ کی صورتحال مختلف ہوتی۔
جب تک یہ متروک سرمایہ دارانہ نظام سماج پر مسلّط ہے، سامراجی وحشت اور بنیاد پرستی کی بربریت میں معصوم انسان کچلے جاتے رہیں گے۔یارانے دشمنی میں بدلیں گے اور دشمن دوست بنتے رہیں گے۔موجودہ عہد میں سیاسی استحکام، مضبوط ریاست اور معاشی خوشحالی جیسے الفاظ ماضی کا قصہ بن چکے ہیں۔مشر قِ وسطیٰ اور خطہ عرب میں پہلی عالمی جنگ کے بعد لگائی گئی جعلی لکیریں بڑھتی چلی جائیں گی۔ مشرق وسطیٰ کے عوام کو رنگ، نسل، قومیت ، فرقے اور مذہب کے تعصبات سے بالاتر ہو کر سامراج اور اس کے استحصالی نظام کے خلاف ایک اور انقلاب برپا کرنا ہوگا۔ یہ انقلاب اگر طبقاتی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے تو نہ صرف کٹھ پتلی آمرانہ حکومتیں اور بادشاہتیں پارہ پارہ ہو جائیں گی بلکہ بنیاد پرستی کی جڑیں بھی اکھڑ جائیں گی۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں