"DLK" (space) message & send to 7575

وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے!

19ستمبر1996ء کومیر مرتضیٰ بھٹو کی رہائش گاہ 70کلفٹن کراچی کے بالکل قریب، ڈی آئی جی کراچی شعیب سڈل کے بنگلے کے سامنے سپیڈ بریکر پر پولیس اور رینجرز نے تین گاڑیوں پر مشتمل مرتضی بھٹو کے قافلے کو روکا۔ مرتضیٰ اپنی گاڑی سے نکل کر ایک پولیس افسر سے بات کررہے تھے کہ طے شدہ منصوبے کے مطابق ان پر فائرنگ شروع کردی گئی۔ مرتضیٰ کی گردن، چھاتی اور پیٹ میں کئی گولیاں پیوست ہو گئیں اور وہ زمین پر گرگئے۔ان کی جیپ پر بھی تیس منٹ تک فائرنگ کی جاتی رہی۔چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے فرزنداور ان کے چھ جانثار (عاشق جتوئی،رحمان بروہی، سجادحیدر، عبدالستارراجپر، یارمحمد بلوچ اوروجاہت جوکھیو) بھی اس جان لیوا حملے میں زندگی کی بازی ہارگئے۔یہ المناک حقیقت اس قتل کو اور بھی دل سوز بنا دیتی ہے کہ اس وقت مرتضیٰ کی بہن بینظیر بھٹو برسر اقتدار تھیں۔ مقدمات درج ہوئے، ٹرائل ہوئے، کئی پولیس افسران اور گواہوں کو ثبوتوں سمیت پراسرار طور پر مٹا دیا گیا، اس نوعیت کے بے شمار دوسرے مقدمات کی طرح یہ مقدمہ بھی عدالتی کارروائیوں اور قانونی پیچیدگیوں میں دفنا دیا گیا۔ آصف زرداری سمیت دوسرے کئی سرکاری و غیر سرکاری ملزمان ''ثبوت نہ ملنے‘‘ پر بری کردئے گئے۔ مرتضیٰ بھٹو کی نڈر سیاست سے خوفزدہ حکمرانوں اور ریاستی دھڑوں نے اس موت کے بعد سکون کا سانس لیا۔ 
مرتضیٰ کی زندگی پر آشوب حالات میں مشکلات سے لڑتے ہوئے گزری۔ جب اس کے والد اور پاکستان میں بالغ حق رائے دہی کے ذریعے منتخب پہلے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو اپنی جابرانہ آمریت کو طول دینے کے لیے اسلام کو استعما ل کرنے والے جنرل ضیا الحق نے برطرف کر کے 1979ء میں تختہ دار پر لٹکا دیا تو مرتضیٰ کی زندگی بکھر کر رہ گئی۔اس ایک کربناک واقعے نے اسے سیاست کی پُرانتشار دنیا میں دھکیل دیا۔اپنے باپ کی جان بچانے کی خاطر حمایت حاصل کرنے کے لیے سربراہانِ مملکت، مشہور عالمی اداروں اور سیاسی شخصیات سے اپیلیں بے سود ثابت ہوئیں اور اس کی تمام کوششیں ناکام ہو گئیں۔امریکی سامراج کا حمایت یافتہ بزدل اور پرہیز گار ڈکٹیٹر انتہائی بے رحم تھا۔ 
چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ضیا آمریت کے خلاف اٹھنے والی تحریک جب کچلی گئی تو مرتضیٰ بھٹو نے مسلح جدوجہد کا راستہ اختیار کیا۔اس کے برعکس پارٹی پر براجمان قیادت مروجہ سیاست کے راستے پر گامزن رہی۔ پارٹی کے بنیادی منشور، نظریات اور مقاصد کو خیر بادکہہ کر ''مفاہمت‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہونے کے باوجود بے نظیر بھٹو ریاست اور اسٹیبلشمنٹ کا دل نہیں جیت سکیں اورریاستی اداروں کے ہاتھوں اپنے دونوں بھائیوں کے قتل کے بعد خود اسی ریاست کی داخلی لڑائی کا شکار ہو گئیں۔
سرمایہ دار ریاست ایک دیو ہیکل، منظم اور مسلح قوت ہوتی ہے۔ٹھوس انقلابی نظریات اور لائحہ عمل پر مبنی مزدوروں اور کسانوں کی سیاسی جدوجہد کے ذریعے ہی ریاست اور حکمران طبقے سے نبرد آزما ہوا جاسکتا ہے۔ انفرادی دہشت گردی، مسلح جدوجہد اورچھاپہ مارلڑائی کی مہم جوئی سے ریاستی جبر کے راستے ہموار ہوتے ہیں ۔ایک مسلح حملہ ریاست کو سینکڑوں حملوں کا جواز فراہم کرتا ہے۔پاکستان میں ضیا ء آمریت کے سیاہ دور میں پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر بائیں بازو کے کارکنان نے بے مثال دلیری، جرأت اور عزم سے سالہا سال مسلح جدوجہد کی۔ ''الذوالفقار‘‘ کی جانب سے پاکستان میں ہونے والے چند ایک 
حملوں سے فوجی آمریت کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا لیکن رد عمل میں بدترین ریاستی جبر کے ذریعے پاکستان کے محنت کشوں اور سیاسی کارکنان کے خون سے ہولی کھیلی گئی۔ سیاسی کارکنان سے جیلیں بھر دی گئیں، شاہی قلعے میں ظلم وستم کی داستانیں رقم کی گئیں اور پورے سماج پر دہشت کی فضا طاری کردی گئی۔
ایم آر ڈی کی تحریک (خاص طور پر سندھ میں) نے فوجی جنتا کو اس حد تک بوکھلا دیا تھا کہ جنرل ضیاء الحق اور ان کے قریبی ساتھیوں نے اپنے اہل خانہ کو دبئی منتقل کردیا تھا۔ مگر مارچ 1981ء میں کراچی سے پشاور جانے والے پی آئی اے کے طیارے کو اغوا کرکے کابل لے جایا گیا جس کی ذمہ داری الذوالفقار نے قبول کر لی۔اس واقعے نے ایم آر ڈی کی سیاسی تحریک کا دم نکال کے رکھ دیا تھا۔طیارے کے اغوا کی خبر نے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کی کال کو زائل کردیا اور خوفناک ریاستی جبر کا نیا سلسلہ شروع ہوگیا۔درجنوں ہلاکتیں ہوئیں اور سینکڑوں کارکنان کو عقوبت کدوں میںدھکیل دیا گیا۔ ریاستی جبر اور انتقامی کارروائیوں کی نہ ختم ہونے والی لہروں نے نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو اپنی لپیٹ میں لے کر ان سے حال اور مستقبل چھین لیااور یہ تحریک بغیر کسی اعلان کے اپنے اختتام کی طرف بڑھ گئی۔
ایک لمبے سیاسی تعطل کے بعد مرتضیٰ بھٹو کی پاکستان میں دوبارہ آمد 1993ء میں ہوئی جب پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت قائم ہو چکی تھی۔ اپنی گرفتاری،رہائی ،الیکشن اور سیاسی جدوجہد کے دوران مرتضیٰ بھٹو کا رجحان پارٹی کے بنیادی سوشلسٹ نظریات کی طرف بڑھنے لگا۔لیکن ایک طرف ریاست ان سے انتقام لینے کے درپے تھی تو دوسری طرف ایک علیحدہ پارٹی کے غلط فیصلے نے ان کو ایک بڑے سیاسی رجحان سے کاٹ کر ایک علیحدہ گروپ تک محدود کر دیا۔ پیپلز پارٹی کے کارکن مرتضیٰ کے اس فیصلے سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ پارٹی کا عام کارکن مرتضیٰ سے محبت کرتا تھامگر پارٹی کی تقسیم نے کارکنان کو بددل کیا۔ وہ نہ اپنے مرکزی سیاسی رجحان سے علیحدہ ہوسکتے تھے جسے انہوں نے اپنے خون سے سینچا تھا اور نہ ہی مرتضیٰ بھٹو کی پارٹی کو ایک مدمقابل اور مخالف پارٹی کے طور پر تسلیم کرنے کے لئے تیار تھے۔مرتضیٰ ماضی کی مسلح جدوجہد اور جارحانہ رویے کو سیاسی زندگی سے نہیں نکال سکے۔علاوہ ازیں وہ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری پر مفاد پرستی کے الزامات لگاتے رہے لیکن اس سے کئی درجہ زیادہ مفادپرستی کے شکار اور ضیاء الحق کے وزیر رہنے والے سیاسی نوسر بازوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو پارٹی کی مرکزی قیادت میں آنے سے نہیں روک سکے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے تاسیسی پروگرام پر عمل درآمد کسی سرمایہ دارانہ پارلیمانی نظام کا حصہ بن کر یا ریاست سے ''مفاہمت‘‘ کے نتیجے میں ملنے والے اقتدار کے ذریعے نہیں کیا جاسکتا۔1967ء میں معرض وجود میں آنے کے بعد چند مہینوں میں ہی عوام میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت کی وجہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے اداروں سے بغاوت اور سوشلسٹ انقلاب کابنیادی منشور تھا۔ اس راستے سے انحراف اور حکمران طبقے سے ''مصالحت‘‘ کی کوششوں کا نتیجہ تحریک نظام مصطفی، فوجی بغاوت، محنت کش طبقے کا پارٹی سے عملاً لاتعلق ہوجانا اور پارٹی چیئرمین کے ریاست کے ہاتھوں قتل کی شکل میں برآمد ہوا۔جبرکے آلہ کار اور حکمران طبقے کے مفادات کے محافظ کی حیثیت سے سرمایہ دارانہ ریاست کے حقیقی کردار سے چشم پوشی سوائے نقصان کے کچھ نہیں دے سکتی۔ متذبذب جدوجہد اور ادھورا انقلاب برپا کرنے والوں پر حکمران کبھی ترس نہیں کھاتے۔ یہ اعتراف خود بھٹو صاحب نے کیا تھا کہ ان کے خلاف ریاست، حکمران اور فوجی جنتا اس لئے لڑنے پر اتر آئی ہیں کہ انہوں نے پوری بغاوت(انقلاب) کی بجائے متحارب طبقوں کے مابین ''آبرومندانہ‘‘ مصالحت کرانے کی کوشش کی تھی۔ اس مفاہمت نے ذوالفقار علی بھٹو اور پھر بے نظیر بھٹو سے انتقام لیا۔ دوسری طرف انتہاپسندی اور ادھورے نظریاتی عمل نے شاہ نواز اور میر مرتضیٰ بھٹو کی جان لے لی۔یہ تاریخ کے اسباق ہیں،ماتم کے لئے نہیں ،سیکھنے اور درست نتائج اخذ کرتے ہوئے مستقبل کی جدوجہد کا راستہ متعین کرنے کے لئے۔ لینن نے بہت عرصہ قبل کہا تھا کہ ''صرف احمق غلطیاں نہیں کرتے‘‘۔ مرتضیٰ میں خامیاں ضرور تھیں لیکن اس کی ذاتی خصوصیات اور دیانت داری شک و شبہ سے بالا تر ہیں۔ وہ دولت، اقتدار اور عہدوں کی ہوس سے بالاتر تھا۔ اس کی جرأت اور عزم غیر متزلزل تھے۔ مرتضیٰ بھٹو کی دلیری، سچائی اور جان سے گزر جانے کے سچے عزم کے باوجودنظریاتی تذبذب، درست لائحہ عمل کا فقدان اور محنت کش طبقے کی وسیع پرتوں تک رسائی نہ پانے کے خوفناک مضمرات، نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے میں ایک کامیاب طبقاتی جنگ لڑنے کے خواہش مند محنت کش عوام اور سیاسی کارکنان کے لئے تاریخ کا ناگزیر سبق ہیں۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں