سکاٹ لینڈ کے ریفرنڈم میں برطانیہ سے علیحدگی مخالفین کی فتح سے یہ بحران ختم ہو گا نہ ہی برطانوی سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور ریاست سے سکاٹ لینڈ کے عوام کی مایوسی اور بیزاری کم ہو گی۔وزیر ِ اعظم ڈیوڈ کیمرون اور ان کی ٹوری پارٹی کو آنے والے دنوں میں بہت کڑے وقت سے گزرنا پڑے گا جس کی اہم وجہ سیاسی اور معاشی بحران کے گہرے ہونے سے دنیا بھر کی طرح برطانیہ میں پیدا ہونے والا عدم استحکام ہے۔سکاٹ لینڈ کی آزادی کی تحریک کے اثرات اٹلی میں ناردرن لیگ، سپین میں کیٹلان اور باسق قوم پرستوں،بیلجیم میں فلیمش، جرمنی میں باویریا سے لے کر کینیڈا میں کیوبک اور برصغیر میں کشمیر اور بلوچستان تک مرتب ہوں گے۔
ریفرنڈم میں ''ہاں‘‘ کی مہم چلانے والے سکاٹش قوم پرست رہنما الیکس سالمونڈ نے اوباما کی طرح ''تبدیلی‘‘ کی خوب نعرے بازی کی تھی۔ سوشل ڈیموکریٹ اقدار، خاص طور پر مفت علاج اور تعلیم، سستی خوراک اور معمر افراد کے لئے سہولیات وغیرہ کو برطانیہ سے علیحدگی کے ساتھ منسوب کرنے والا یہ سیاستدان اوباما کی طرح یہ وضاحت کرنے سے قاصر ہے کہ یہ ''تبدیلی‘‘ کہاں سے اور کیسے برآمد ہوگی۔جیسا کہ جریدے گارڈین نے درست طور پر وضاحت کی ہے کہ سکاٹ لینڈ سے متعلق سالمونڈ کا وژن، محنت کش عوام اور نوجوانوں کی بجائے حکمران طبقے اور بینک مالکان کے مفادات کا تحفظ کرنے والی سرمایہ دارانہ ریاست تک ہی محدود ہے۔ پائونڈ کو بطور کرنسی برقرار رکھنے، یورپی یونین اور برطانوی بادشاہت کے ماتحت رہنے، بینک آف انگلینڈ کی اجارہ داری کو تسلیم کرنے اور سرمایہ داروں پر ٹیکسوں میں کمی جیسے معاہدوں کے تحت سکاٹ لینڈ کی ''آزادی‘‘ آئر لینڈ کی طرح نام نہاد ہی ہو سکتی ہے۔ برطانوی سامراج کے خلاف جدوجہد میں آئر لینڈ کے عوام کے سوشلسٹ رہنما اور شہید جیمز کنولی نے کہا تھا کہ '' آپ ڈبلن کے قلعے پر (آزاد آئر لینڈکا) سبز جھنڈا لہرا دیں۔ کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ برطانیہ اپنے سرمائے کے ذریعے آپ پر حکمرانی کرتا رہے گا۔‘‘سرمایہ دارانہ نظام کے تحت آئر لینڈ کی نام نہاد آزادی سے واقعی کوئی''تبدیلی‘‘ نہیں آئی۔ 2008ء کا عالمی مالیاتی بحران آئرلینڈ کی معیشت کو بھی لے ڈوبا اور پورے یورپ کی طرح اس ''آزاد‘‘ ملک میں بھی محنت کش عوام پر معاشی حملے جاری و ساری ہیں۔
یہ خیال کہ اس نظام کے تحت ''آزادی‘‘ حاصل کرنے کے بعد سکاٹ لینڈ میں ریاست کے فلاحی اخراجات میں کٹوتیاں روک کر ماضی کی عوامی سہولیات اور مراعات کا تحفظ کیا جاسکتا ہے، سراسر خوش فہمی اور یوٹوپیا ہے۔ ہم ایک عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تحت زندگی گزار رہے ہیں۔ اس عالمگیر معیشت کا بحران بھی عالمگیر ہے جس کے تحت پوری دنیا میں سرمایہ دارانہ ریاستیں معاشی بحران سے دوچار ہیں اور عوام پر معاشی حملے کررہی ہیں۔ منافع کے اس نظام میں کارپوریٹ اجارہ داریوں اور بینکوں کی شرح منافع عوام کی زندگیوں سے زیادہ اہم ہے۔
علیحدگی مخالف مہم کے پالیسی سازوں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ ڈیوڈ کیمرون اور اس کے حواری سکاٹ لینڈ میں برطانیہ سے بھی زیادہ قابل نفرت سمجھتے جاتے ہیں، لہٰذا ان حضرات کو ساری مہم سے دور رکھا گیا۔ تاہم ریفرنڈم میں ''ہاں‘‘ اور ''نہیں‘‘ کا مقابلہ سخت ہوجانے پر پیدا ہونے والی نازک صورتحال میں ڈیوڈ کیمرون کو متحدہ برطانیہ کے اندر سکاٹ لینڈ کی ''زیادہ سے زیادہ خودمختاری‘‘ کا وعدہ کرنا پڑا۔لیبر پارٹی کے سابق چانسلر اور علیحدگی مخالف مہم کے سرگرم رہنما الیسٹیئر ڈارلنگ علیحدگی کے مضر معاشی اثرات کی دھمکیاں دیتے رہے۔ ٹوری ، لیبر اور لبرل کا یہ اتحاد دھمکیوں کے علاوہ اور دے بھی کیا سکتا ہے؟پچھلے چھ سال سے حکمران طبقے کے یہ گماشتے پورے برطانیہ میں عوام کو دھمکا رہے ہیں کہ معیشت کی ''بہتری‘‘ کے لئے کٹوتیوں کی کڑوی گولی نگلنا ہوگی۔سکاٹ لینڈ کے عوام ان لٹیروں سے نفرت کرنے میں حق بجانب ہیں جو برطانوی معیشت کا بیڑا غرق کرنے کے بعد اب انہیں معاشی مشورے دیتے پھر رہے ہیں۔برطانیہ کی تینوں بڑی جماعتیں چونکہ علیحدگی مخالف کیمپ میں تھیں لہٰذا علیحدگی کے حامی کئی سیاسی رجحانات نے اس کرپٹ سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف ریفرنڈم کی مہم کو خوب استعمال کیا۔
ڈیوڈ کیمرون برطانوی حکمران طبقے کے قدامت پرست دھڑے کا نمائندہ ہے۔ ان حضرات کے لئے 300سال پرانی یونین برطانوی سرمایہ دار ی اور سامراج کے تسلط اور سنہری دور کی
علامت ہے جب یونین جیک پوری دنیا میں لہرایا کرتا تھا۔ اس یونین کا ٹوٹنا گزشتہ ایک صدی کے دوران سست روی سے مرتے ہوئے برطانوی سامراج کے حتمی زوال کی واضح علامت بن سکتا ہے جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت کا درجہ کھونے کے ساتھ ساتھ اپنی نوآبادیات اور صنعتی قوت سے پہلے ہی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔سکاٹ لینڈ کی علیحدگی یورپی یونین اور نیٹو کے علاوہ عالمی سطح پر برطانوی سامراج کے کردار اور اثر و رسوخ کو مزید محدود کر سکتی ہے۔سرمایہ دارانہ بحران اور غیر مستحکم عالمی تعلقات کے اس دور میں یہ جھٹکا برطانوی معیشت اور سماج کو مزید خلفشار کا شکار کر سکتا تھا۔سکاٹ لینڈ کی ممکنہ علیحدگی کے برطانوی معیشت پر اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے ڈیوچ بینک کے نمائندے نے سرمایہ کاروں کو پیغام دیا تھا کہ ''جتنا ڈر سکتے ہو، ڈرو۔‘‘
ریفرنڈم میں مقابلہ سخت ہونے کے بعد آخری لمحات میں برطانوی حکمران طبقہ اپنی تمام تر سیاسی، اقتصادی اور صحافتی قوتیں بروئے کار لانے پر مجبور تھا۔عالمی سرمایہ داری کے سنجیدہ نمائندے سمجھے جانے والے جریدے فنانشل ٹائمز اور اکانومسٹ کے اداریے کھل کر جانبدار ہوچکے تھے۔ فنانشل ٹائمز نے تو علیحدگی کو ''احمقانہ غلطی‘‘ تک قرار دے دیا۔ لوئڈز بینکنگ گروپ اور رائل بینک آف سکاٹ لینڈ معاشی دھمکیوں پر اتر آئے اور علیحدگی کی صورت میں اپنے اثاثے لندن منتقل کر دینے کا عندیہ دیا گیا۔
ریفرنڈم میں علیحدگی پسندوں کی کامیابی اگرچہ حکمران طبقے کے مسائل میں اضافہ کر سکتی تھی لیکن یہ سکاٹ لینڈ کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے مسائل کا حل ہرگز نہ تھی۔ سکاٹ لینڈ، برطانیہ اور پوری دنیا میں بڑھتا ہوا ریڈیکل ازم بالکل واضح ہے۔ عوام بڑھتے ہوئے معاشی بحران اور سماجی خلفشار سے نجات کا راستہ ڈھونڈ رہے ہیں۔انہیں بدعنوان سیاسی اشرافیہ اور ایک کے بعد دوسرا معاشی حملہ کرنے والی ریاستوں کے متبادل کی تلاش ہے۔ عالمی سرمایہ داری کے زوال کے اس عہد میں اس نظام پر یقین رکھنے والی ہر سیاسی جماعت، رجحان اور فردعوام کو حاصل سہولیات اور مراعات چھیننے پر مجبور ہے۔اس لحاظ سے سکاٹ لینڈ کی علیحدگی وہاں کے محنت کش عوام کی زندگی میں کوئی بہتری نہیں لاسکتی۔ برطانیہ سے آزادی کا مطلب اس استحصالی نظام سے آزادی ہرگز نہیں ہے۔
جب تک سیاسی، معاشی اور سماجی قوت مٹھی بھر سرمایہ داروں اور بینکاروں کے ہاتھوں میںمرکوز ہے ، عوام کبھی آزاد نہیں ہوسکتے۔معیار زندگی میں بہتری، معاشی آسودگی اور سماجی خوشحالی کے خواب کی تعبیر تب تک ممکن نہیں جب تک بینکوں اور ذرائع پیداوار کو نجی ملکیت کی قید سے آزاد کر کے سماج کی اجتماعی ملکیت میں نہیں لیا جاتا اور منافع کی ہوس پر مبنی منڈی کی پرانتشار معیشت کو انسانی ضروریات پر مبنی سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت سے تبدیل نہیں کیا جاتا۔ انسانیت کی نجات نئی سرحدیں کھڑی کرنے کی بجائے ماضی کے تعصبات پر مبنی سرحدیں مٹا دینے میںہے۔ سکاٹ لینڈ اور دوسرے یورپی ممالک میں موجود قومی مسئلے کا حل علیحدگی کی بجائے برطانیہ اور یورپ کی رضاکارانہ سوشلسٹ فیڈریشن میں مضمر ہے۔ ''محنت کشوں کے پاس کھونے کو صرف زنجیریں ہیں اور پانے کو سارا جہان پڑا ہے۔ دنیا بھر کے محنت کشو، ایک ہو جائو!‘‘